آپ ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کی اقوام غفلت میں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے پاس نہ تو اللہ کی کوئی کتاب اصل صورت میں موجود تھی اور نہ اس کے رسولوں کی تعلیمات۔ طویل عرصہ پہلے جو تعلیم نبیوں نے انہیں دی تھی اسے انھوں نے نہ صرف بھلا دیا تھا بلکہ اس میں پھیر بدل بھی کر دیا تھا۔ اب ان کے پاس دین ابراہیمی کے نام سے چند بے جان اور غلط رسوم اور باپ دادا کے طور طریقوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ ان کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی جائے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ آپ اپنی قوم کے سامنے اس کا دین پیش کریں اور عقائد و افکار درست کر کے انہیں اللہ کا بندہ بنائیں۔ ان کے اخلاق و عادات درست کریں۔ حلال و حرام کی تمیز اور حق و باطل کا فرق سکھائیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اہل عرب کو تعلیم و تربیت کے ذریعے بے راہ روی سے نکال کر راہِ راست پر لگایا، جو کھلی ضلالت میں مبتلا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے درمیان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت سے سرفراز فرمایا اور اپنی کتاب قرآن مجید عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کتاب انہیں سناتے اور اس کے ذریعے ان کی سیرت و کردار کو سنوارتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین اور ان کی معنویت کو ان پر واضح کرتے۔ اس طرح آپؐ نے بہتر معاشرہ تشکیل فرمایا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعمال و اخلاق کے ذریعے اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے غم اور گھٹن سے بچائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس پر سے اتار دے۔‘‘
خدا کے نادار اور کمزور بندوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک اللہ کی نظر میں وہ عظیم نیکی ہے کہ اس کے صلے میں اللہ بندے کو آخرت کے غم اور گھٹن سے محفوظ رکھے گا۔
آپﷺ نے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور لوگوں کو ان کے حقوق و فرائض بتائے تاکہ لوگ آپس میں مل جل کر بہتر طریقے زندگی گزار سکیں۔ معاشرے کے فساد کی اصل وجہ ناانصافیاں اور حق تلفیاں ہیں۔ آپؐ کا انسانیت پر بہت بڑا احسان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق داروں کو ان کے حقوق دلوائے اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کیا۔
آپﷺنے اولاد کے حقوق، صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے حقوق، غلاموں اور خادموں کے حقوق، یتیموں کے حقوق، مسکینوں اور پڑوسیوں کے حقوق کے ساتھ ہی معاشرے میں عورتوں کے مقام و مرتبہ کے متعلق انصاف کرنے کا حکم دیا اور عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ لیکن پھر بھی بہت سے مشرکین مکہ نے زندگی کے ہر شعبے میں خیانت کی اور حقوق العباد کے ساتھ حقوق اللہ میں کوتاہی برتی تو پھر آپؐ کو جنگ برائے امن و فلاح کا حکم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پس اے نبیؐ کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔‘‘ (الفرقان:۵۲)
اس آیت کریمہ نے مکہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدوجہد کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ ایک مرتبہ آپؐنے فرمایا:
’’اے لوگوں، دشمن سے مقابلے کی آرزو نہ کرو، اور اللہ سے عافیت ہی طلب کرو۔ جب تمہارا دشمن سے مقابلہ ہو ہی جائے تو صبر و ہمت سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھاؤں میں ہے۔‘‘
اصولی طور پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ اسلام مساوات انسانی اور احترام انسانیت کا علمبردار ہے۔ اسلام میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر انسان کی جان محترم ہے۔ یہ بات حق ہے کہ جنگیں آپؐ پر مسلط کی گئی تھیں۔ قریش مکہ عرب کے قبائل کو بھڑکا کر مدینہ پر بار بار چڑھا لاتے تھے۔ دفاع ہر فرد اور ریاست کا فطری حق ہے، جس سے اسے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
’’اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔‘‘ (الانعام:۱۵۱)
عموماً جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھی جاتی ہے تو اس میں جنگوں کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ عہد رسالت کی جنگوں میں دونوں جانب (شہداء اور مقتولین) کی جملہ تعداد کل بارہ سو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا۔ اگر آپ میں رحم دلی کی صفت نہ ہوتی تو وہ فتح مکہ کے موقع پر ۲۳ سال کے جانی دشمنوں سے چن چن کر بدلہ لیتے اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو عام معافی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ آپؐ نے ہدایت دی کہ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، فصلوں اور درختوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور لاشوں کی بے حرمتی نہ کی جائے، قیدیوں سے حسن سلوک کیا جائے اور مال غنیمت امانت داری کے ساتھ لاکر جمع کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ صحابہؓ کے ساتھ فاتح کی حیثیت سے وہاں گئے تو لوگوں نے ان سے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کو محفوظ پایا۔ اسلام میں جنگ کا تصور مفسدانہ نہیں بلکہ مصلحانہ ہے۔
آپصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نہایت سادہ تھی۔ آپ بغیر چھنے آٹے کی روکھی سوکھی روٹی پر گزارا کرلیتے۔ پیوند لگا کر لباس بہنے اور پھٹا پرانا کمبل اوڑھنے میں عیب نہیں سمجھتے تھے۔ آپؐ کسی محل میں نہیں مٹی کے حجروں اور اس پر کھجور کے پتوں والی چھت کے نیچے رہتے۔ آپؐ پاکی و صفائی کو نہایت پسند فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی تعلیم و تبلیغ کی اس پر سب سے زیادہ عمل خود کر کے دکھایا بلکہ آپ اپنی دعوت کے عملی پیکر تھے۔ آپ نے نبوت سے پہلے بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ کسی نے امانت آپ کے پاس رکھی تو اس میں کبھی خیانت نہیں کی۔
غرض یہ ہے کہ آپﷺ نے دنیا کو سیدھے اور سچے راستے کی طرف دعوت دی۔ آپ کی تعلیمات پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لائی ہوئی تمام تعلیمات جو دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کی ضامن ہیں ان کا مستند ثبوت قرآن و احادیث میں موجود ہے۔lll