حقوق کا شعور اور ذمہ داریوں کا احساس سب سے اہم ہے

پروفیسر کملیش لاٹھے

س: خواتین کے اصل مسائل کیا ہیں؟

ج: سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کا سماج انہیں ایک فرد کے بجائے استعمال کی چیز سمجھتا ہے انہیں ایک فرد نہیں تصور کرتا اسے چیز مان کر چلتا ہے۔ اسی لیے اس نے دروپدی کو داؤد پر لگادیا۔ آج کے زمانے میں اس کے لیے صرف مرد ہی نہیں عورت بھی ذمہ دارہے اور اس کی وجہ ہے کہ وہ خود کو پہچانتی ہی نہیں۔ میں برابری اور فریڈم کی بات ہی نہیں کرتی۔فریڈم یہ نہیں ہے کہ مردوں کے ساتھ ڈانس کیا اور شراب پی اور آزاد تصور کرلیا۔ اس کے لیے ایک کی کنڈیشنگ کی ضرورت ہے وہ یہ کہ وہ اس چیز کا شعور پیدا کرے کہ مستقبل کی معمار ہے۔ مردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ان کی ڈگنٹی نہیں ہے۔

۲- دوسرا مسئلہ ایکسپوزر یا مواقع ملنے کا ہے اور اس کا مطلب واہیات پنا اور بے پردگی نہیں ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بہترین تعلیم کا انتظام ہو اور فیملی ٹراولنگ ہو یہ سیکھنے اور فیملی کو جوڑے رکھنے کے لیے بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت ہندوستانی سماجی میں ابھی بھی نہیں مانی جاتی۔ نیچر کے نزدیک جتنا رہے گا انسان نرم دل ہوگا اور اس کی آج کے سماج کو بڑی ضرورت ہے۔ ایکسپوزر کے صحیح ذرائع حاصل کرنے کا شعور اس کے اندر ہونا چاہیے کہ وہ غلط راہوں پر نہ جائے اور وہ فکری، ذہنی اور جذباتی صحت کا بھی خیال رکھ سکے۔

۳- اور تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے اندر اپنے حقوق کا ہی شعور نہیں ہے۔ اور یہ ایکسپوزر ہی سے آئے گا۔ اور بات صرف حقوق ہی کی نہیں ہے بلکہ ذمہ داریوں کے احساس کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ قوم کا مستقبل ہے اگر ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے صرف حقوق کی بات کی جائے تو غلط ہوگی۔ اور آج کے دور کا مسئلہ یہی ہے کہ ہماری عورتیں حقوق کی بات زیادہ کرتی ہیں۔ اس سے معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں فیملی میں تناؤ اور ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔

س: آپ کی نظرمیں خاندانی بکھراؤ کے اسباب کیا ہیں؟

ج: اس کی شروعات گھر سے ہورہی ہے۔ اس کا مطلب ہے، مایوسی یا توقعات کا پورا نہ ہونا، اور یہ نتیجہ ہے خاندانی تعلقات کے صحت مند نہ ہونے کا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنی اپنی حد تک رشتوں کو اہمیت دے اور ایک دوسرے کو احترام دے۔ ہم صرف حقوق کی بات کررہے ہیں لیکن ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری خاندانی روایات ختم ہورہی ہیں۔ مغربی معاشرہ میں ہماری اہمیت انہیں اقدار کی وجہ سے ہے اور ہم اسے چھوڑ رہے ہیں۔ دیکھئے ایک بنیادی سوال ہے جو پیدا ہونے سے موت تک انسان سے جڑا رہتا ہے اور وہ ہے: Whom do I belong to?۔ یہ سوال پیدا ہوتے ہی بچہ پوچھتا ہے۔ جواب ہے ماں باپ پھر اس کے نتیجے میں والدین اسے محبت رہنمائی، ضروریات زندگی اور ایک مضبوط سہارا فراہم کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ بچے کے اندر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ ہاں میں واقعی ماں باپ کا ہوں اور پھر یہ چیز بدل جاتی ہے اور یہاں تک پہنچتی ہے کہ ماں باپ بچوں کے لیے ایسے ہی ہوجاتے اور بڑھاپے میں یہی سوال پوچھتے ہیں مگر انہیں اس کا جواب نہیں مل رہا ہے۔ مغرب میں جرائم جو بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ بچوں کی زندگی محبت سے خالی ماحول میں گذر رہی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ لینے کے بجائے اگر دینے کا نظریہ ہوجائے تو جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔ ایک وجہ اور ہے کہ فیشن ایبل عورت نے عورت کا مقام چھوڑ دیا اور وہ ماڈل بن گئی، اسی وجہ سے سارے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بس عورت عورت ہی رہے اور خود کو اچھی عورت ثابت کرے تو مسائل حل ہوجائیں گے۔

س: حقوق اور ذمہ داریوں میں توازن کیسے ہو؟

ج: ادھیکاروں کی بات کرتے وقت عورتوں کو کبھی اپنا رول نہیں بھولنا چاہیے اور نہ چھوڑنا چاہیے۔ جہاں عورت نے رول کو نظر انداز کیا وہ رسوا ہوئی۔ ہمیں اپنے حقوق کو رول کے ساتھ پہچاننا چاہیے۔ ایک ماں کی حیثیت سے میرا حق کیا ہے۔ اس میں ماں کی حیثیت کا رول بھی پوشیدہ ہے جو کسی صورت بھی نظر انداز نہ ہو۔ آج کی ہوش مند عورت جو اپنا رول اچھی طرح نبھانا چاہتی ہے اور باہر کی دنیا میں بھی اپنا مقام بنانا چاہتی ہے وہ بہت Stressمیں ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو سمجھیں اور باہمی تعاون کا طرز زندگی اختیار کریں۔ قدرتی طور پر مرد زیادہ قوی، سخت جان اور زیادہ Efficientیا فعال واقع ہوا ہے وہ آگے بڑھ کر گھریلو معاملات میں شراکت کرے۔

س: سماج میں خاص طور پر عورتوں میں عریانیت پھیل رہی ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

ج: ہم ایک گلیمرس (چمکدار) دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ وہ وہ ہے جسے خود مغربی دنیا نے ترک کردیا ہے۔ اخبارات اورٹی وی میں عورتوں کی جو صورت پیش ہوتی ہے آخر ہم اسے برداشت کیوں کررہے ہیں۔ انہیں تو مارکیٹ چاہیے چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے ہماری لڑکیاں آخر کیوں تیار ہورہی ہیں ننگی ہونے کے لیے، یہ تو خود ہمیں سوچنا ہے کہ ہم اس تہذیب کو کیوں اختیار کریں جسے خود اس کے لوگوں نے رد کردیا ہے۔

س: اس کے لیے ہمارے خواتین کیا کرسکتی ہیں؟

ج: روایات اور اخلاقیات کی حفاظت ہمارے یہاں صرف مڈل کلاس کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے جو طبقہ اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے وہ تمام چیزوں سے خود کو بری سمجھ لیتا ہے۔ یہ غلط رویہ ہے۔ لڑکیوں اور عورتوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری عزت اور سمان ناری بنے رہنے میں ہے نہ کہ انگ پردشن میں۔ اس پر یہ شکایت ہے کہ مردوں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی، غلط ہے کیونکہ دعوت تو آپ خود دے رہی ہیں اور پھر شکایت کررہی ہیں۔ اپنی ذات کا خود احترام کرنے کے بارے میں انہیں بیدار کرنا ہے۔ اور ایک خاص بات یہ ہے کہ جو خود کی عزت نہیں کرتا وہ کسی کی عزت نہیں کرپاتا۔ کیونکہ خود اپنی نگاہ میں ان کی عزت ختم ہوجاتی ہے اس لیے وہ خود کے ساتھ تنہا نہیں رہ پاتے کیونکہ وہ اپنے اندر کے انسان کو فیس نہیں کرسکتے اس لیے جب وہ تنہا ہوتے ہیں تو انہیں شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

س: کوئی پیغام؟

ج: اپنی پوزیشن پہچانیں، اپنا آدر کریں، بنا رشتوں میں توڑ پھوڑ کیے اپنے حقوق کی حفاظت کریں اور بچوں کی شکل میں قوم کو روشن مستقبل دیں۔ اس سے زیادہ سماج کو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اور نہ اس زیادہ کا ان سے مطالبہ ہونا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں