حقیقی خوب صورتی

عظمی نظر محمد

بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ ہم خوبصورت اس چیز کو کہتے ہیں جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ واہ کتنی خوبصورت ہے۔ جب ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں ہے تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوبصورت ہے…؟ اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کا اندازہ ہم اس کائنات کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں کہ یہ کائنات کتنی خوبصورت و دل کش ہے۔ اس کے نظام میں کوئی کجی نہیں ہے۔ ہر چیز اپنے مقررہ وقت کے مطابق متحرک ہے۔ صبح سورج نکلتا ہے، شام کو ڈوبتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رات میں سورج نکلے اور دن میں تارے نکل آئیں۔ جب خدا کی بنائی گئی ہر چیز اتنی خوبصورت ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو اس انتظام کو چلانے والا ہے وہ خود کتنا خوبصورت ہوگا۔
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان اس کائنات کی ہر چیز سے زیادہ خوبصورت ہے۔ خواہ وہ چاند ہی کیوں نہ ہو۔ اکثر اوقات انسان اپنی خوبصورتی کو چاند سے ملانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور جب اُس کو کوئی چاند سے تشبیہ دیتا ہے تو بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، مگر یہ انسان اتنا ناسمجھ ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو نہیں جانتا۔ انسان تو اس چاند سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔‘‘ جس دن ہمیں اپنی خوبصورتی کی پہچان ہوگی، اُس دن اپنے رب کی بھی پہچان ہوجائے گی۔ انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ وہ واحد ذات ہے جو کسی بھی غرض کے بغیر اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ہندو ہو یا مسلم، یہودی ہو یانصرانی… ہر ایک کو رزق دے رہا ہے، تو اس ہستی کو ہم خوبصورت کیسے نہیں کہہ سکتے! اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت کو پسند کیوںکرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں۔ وہ جو وعدہ کرتا ہے، اسے نبھاتا ہے۔ یہ خوبصورتی نہیں تو اور کیا ہے! اگر اللہ تعالیٰ کسی کی ضرورت پوری نہ کرے تو اس پر اعتراض کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ اس کی اجازت کے بغیر نہ کوئی جی سکتا ہے نہ مرسکتا ہے، نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے۔ جب کوئی ذات اتنی بے غرضی سے اپنے ضرورت مندوں کی دادرسی کرتی ہے اور بغیر مانگے ہر امیر و غریب کو رزق دے رہی ہے تو وہ خوبصورت کیسے نہیں ہوگی! جب ہمیں اللہ تعالیٰ اتنا چاہتا ہے، اتنی محبت کرتا ہے تو کیا وہ یہ نہیں چاہے گا کہ ہم بھی ایک دوسرے سے اسی طرح بے غرضی سے محبت کریں۔ ہمارے قول و فعل میں بھی کوئی تضاد نہ ہو۔ بے شک رحم کرنے والا، مدد کرنے والا اللہ ہی ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی کسی کی مدد بھی نہیں کرسکتا۔ مگر ہم ہی تو ایک دوسرے کی مدد کا ذریعہ بنتے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے محبوب سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی نیک کام کرے۔ اللہ تو ہم سے ہماری ستّر ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرنے والا ہے۔ تو کیا وہ نہیں چاہتا کہ ہم نیک اور پکے مسلمان بنیں۔ اللہ رحیم ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی خلقِ خدا پر مہربان بنیں۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا، وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی وعدہ خلافی نہ کریں۔ بے شک ہم اللہ تعالیٰ کی طرح رحیم، شفیق، حکیم، کریم، جمیل نہیں بن سکتے مگر ہم ان صفات کو کچھ حد تک اپنے اندر رونما تو کرسکتے ہیں۔ بطورِ خلیفہ ان نیک اعمال میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ آج ہم ایک دوسرے سے کٹے ہوئے کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ہم نے بدصورتی یعنی اپنی غرض کو اہمیت دے رکھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے خدا و رسولؐ کی تعلیمات کو بھلادیا ہے۔ اگر آج بھی ہم ان صفات کو اپنانے کی کوشش کریں تو نہ دنیا میں بے چین ہوں گے اور نہ آخرت میں عذاب پائیں گے، بلکہ اپنے رب کے دربار میں سرخرو ہوں گے۔ انشاء اللہ
یاد کرو! کامیابی ایسے ہی نہیں ملتی، بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ تو کیا ہمیں جنت ایسے ہی مل جائے گی؟
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں