آج راشد کی شادی تھی اور گاؤں والے ایک عجیب منظر دیکھ رہے تھے۔ راشد اور اس کا باپ اکمل خان مسجد میں براجمان تھے اور طلبہ والے کمرے میں ایک لڑکی اپنے رشتے داروں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
راشد اکمل خان کا بیٹا تھا۔ اکمل خان گاؤں میں سرکردہ حیثیت کا مالک تھا۔ اسے اچھی نسل کے کتے، لڑاکا مرغے، بٹیر اور تیتر وغیرہ پالنے کا انتہائی شوق تھا۔ اور ان جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اس نے کئی نوکر رکھے ہوئے تھے۔
اکمل خان کے یہاں کبھی مرغوں کی لڑائی ہوتی، کبھی بٹیروں کا دنگل ہوتا اور کبھی گاؤں کے باہر کتے لڑائے جاتے۔
راشد کے بڑے بھائی کی شادی پانچ سال قبل ہوئی تھی۔ اکمل خان کے گھر میں کئی دنوں تک گانے بجانے کا بندوبست رہا۔ کئی روز تک لوگوں کو کھانے کھلانے کا سلسلہ چلا اور بارات میں تو کئی گاوؤں کے لوگ شریک ہوئے تھے۔
آج وہی اکمل خان مسجد میں بیٹھا تھا۔ کلاہ کے بجائے سر پر کالی لنگی بندھی تھی۔ مونچھیں غائب تھیں اور سفید داڑھی پنکھے کی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ راشد نے بھی سر پر کالے رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ اس کی سیاہ داڑھی بھی پنکھے کی ہوا سے لہرا رہی تھی۔
نماز ظہر کے بعد مولوی صاحب نے اعلان کیا: ’’کوئی بھی مسجدسے نہ جائے، راشد کا نکاح پڑھایا جائے گا۔‘‘
مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا۔ پھر کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ مسجد میں ایک گھڑا، ایک مصلا، ایک لوٹا اور چند معمولی قیمت کی اور چیزیںبھی رکھی تھیں۔ یہ چیزیں راشد نے ایک چادر میں لپیٹ کر اٹھا لیں۔ آگے آگے اکمل خان پیچھے پیچھے راشد اور پیچھے دلہن گہرا پردہ کیے روانہ ہوئی۔
کچھ لوگ تعریف کررہے تھے: ’’واہ بھئی واہ۔ مسلمان ہو تو ایسا ہو۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا: پہلے بیٹے کی شادی پر اخراجات زیادہ ہوئے تھے اس لیے اکمل خان نے یہ ڈھونگ رچایا ہے۔‘‘
میںنے ماضی پر غور کیا تو مجھے سب کچھ عجیب سا لگا۔ راشد اسکول اور کالج کے زمانے میں لا ابالی طبیعت کا مالک تھا۔ دین داری سے تو اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ مولوی اور داڑھی والے اسے ایک نظر نہ بھاتے تھے۔ اس کے باپ اکمل خان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور لب و لہجہ متکبرانہ اور غصیلا تھا۔ اکمل خان ہی نہیں، پورا خاندان ’’مونچھ پرست‘‘ تھا۔ لیکن اب ان کے چہروں پر مونچھیں غائب اور داڑھیاں سجی ہوئی تھیں۔
چند سال قبل گرمیوں کے موسم میں کہیں سے تبلیغی جماعت اکمل خان کی مسجد میں آکر ٹھہری۔ یہ جماعت کئی افراد پر مشتمل تھی جن میں ایک انجینئر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے طریقِ کار کے مطابق عصر کے بعد گشت شروع کیا۔ وہ اکمل خان کے گھر آئے۔ راشد نے ان کا خیر مقدم کیا اور چائے کی پیش کش کی۔
جب تبلیغ پر آئے ہوئے لوگوں نے مسجد میں آنے کی دعوت دی تو اس کا لہجہ یکسر بدل گیا۔ کہنے لگا: ’’اجی! میں نے آپ کا خیر مقدم کیا ہے کہ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ کی خدمت ہمارا فرض ہے، لیکن ہم کافر تو نہیں جو آپ ہمیں تبلیغ کرنے آگئے۔ ویسے بھی مذہب ایک انفرادی مسئلہ ہے۔‘‘
ان حضرات نے پھر بھی اپنا لہجہ نرم رکھا اور کہا: ’’بھائی صاحب! ہم مہمانوں کی حیثیت سے آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آج شام ہماری محفل میں شرکت کریں۔‘‘
راشد ان سے بحث کرنے لگا۔ اتنے میں اکمل خان آدھمکے اور پوچھا: ’’ارے! کیا ہورہا ہے؟‘‘
جماعت کے ایک صاحب نے کہا: ’’خان صاحب! ہم مہمان ہیں، دور سے آئے ہیں اور یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ لوگ آج شام ہماری محفل میں شریک ہوں۔‘‘
اکمل خان بولا: ’’راشد! مہمان سے بحث نہیں کرتے۔‘‘ پھر ان صاحب سے مخاطب ہوا: ’’ٹھیک ہے جی! یہ بھی آئے گا اور میں بھی آؤں گا۔‘‘
اکمل خان تو نماز کا پابند تھا، البتہ راشد کو کبھی مسجد میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ آج وہ بھی آیا اور مبلغین کی محفل میں شرکت کی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی دل میں اتر جانے والی باتیں سن کر اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ تبلیغی حضرات نے تین دن اسی مسجد میں گزارے۔ اس کے بعد جب وہ جانے لگے تو راشد بھی چار ماہ کے لیے ان کے ساتھ ہولیا۔ اور جب چلہ گزارنے کے بعد واپس آیا تو اس کے چہرے پر داڑھی تھی اور مونچھیں غائب۔ اکمل خان نے داڑھی پر تو اعتراض نہ کیا، البتہ مونچھوں کی عدم موجودگی اسے ناگوار گزری تھی۔
کچھ عرصے بعد راشد ایک سال کے لیے تبلیغی دورے پر چلا گیا اور جب واپس آیا تو اب وہ پہلے والا راشد نہ تھا۔ اس کی باتوں میں نرمی اور شائستگی آگئی تھی۔ غرور اور تکبر کی جگہ انکسار نے لے لی تھی۔
اکمل خان نے جب یہ عالم دیکھا تو پریشان ہوگیا۔ کہنے لگا: ’’راشد بیٹے! تیرے بڑے بھائی کو ہزار بار منع کیا کہ ماشٹر (استاد) نہ بن، لیکن وہ نہ مانا اور ماشٹر بن گیا۔ اور تو نرا مولوی بن گیا ہے۔ کم بخت! یہ کاروبار کون چلائے گا؟ میرے باپ کی پگڑی کون سنبھالے گا؟‘‘
راشد نے کہا: ’ابا جان! میں نے حقیقی مسرت کا راز پالیا ہے ۔ ہماری اس ’خانی‘ میں سوائے اضطراب کے کچھ بھی نہیں۔‘‘
اکمل خان نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا: ’’مردانگی کے لیے اضطراب لازمی چیز ہے بیٹا! اگر اضطراب ، جوش اور جذبہ اندر سے نکل جائے تو پھر مرد اور نکھٹو میں فرق نہیں رہتا۔‘‘
راشد بولا : ’’ابا جان! اس خانی میں ہزاروں خوبیاں سہی لیکن اطمینان اور حقیقی مسرت کہیں اور ہے… ابا جان! اگر آپ برا نہ مانیں میں آپ کو ابدی مسرت کا راز بتاؤں۔‘‘
خان صاحب کو غصہ آگیا: ’’ارے! کل کا چھوکرا مسرت کا راز بتائے گا اور وہ بھی مجھے… جیسے میں نے مونچھیں دھوپ میں سفید کی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رائفل کے بٹ سے اسے پیٹنے لگا۔ دو تین ضربوں کے بعد اس نے ہاتھ روک لیا۔ راشد سرجھکائے کھڑا تھا۔ اس نے آہستگی سے کہا: ’’ابا جان!…‘‘ اور پھر ایک طمانیت آمیز مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
اکمل خان نے سر پیٹ لیا: ’’ارے! ان مولویوں نے تجھ میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ تو تو بالکل ’’پاک‘‘ ہوچکا ہے۔ انھوں نے تجھے عورت بناکر بھیج دیا ہے۔ آج سے تبلیغی جماعت کو میری مسجد میں نہ آنے دیا جائے۔‘‘
پھر ایک مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ گاؤں والوں نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ آگے آگے باپ اور پیچھے پیچھے بیٹا بستر اٹھائے تبلیغ کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔
اور آج کا منظر تو اس سے بھی زیادہ عجیب تھا۔ راشد کا نکاح انتہائی سادگی سے مسجدمیں انجام پایا تھا۔ وہ حقیقی مسرت کا راز پاچکے تھے۔