قرآن مجید میں برائی کے جواب میں بھلائی کو غیرمعمولی نیکی قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اوربھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمہارے درمیان عدالت ہے، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور یہ دانش نہیں ملتی، مگر انھی کو جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی، مگر انھی کو جو بڑے نصیبہ ور ہیں۔‘‘ (حمٓ السجدہ: ۳۴-۳۵)
یہ تعلیم غیر معمولی اجر کی ضمانت دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر عمل بہت مشکل کام ہے۔ اس مشکل کے کئی اسباب ہیں۔ ایک سبب یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف برائی ہوتی ہے تو ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہماری طبیعت میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس اشتعال پر قابو پانا اور پھر صحیح الفاظ اور مناسب اسلوب میں بات چیت کو جاری رکھنا یا اپنے آپ کو کسی انتقامی اقدام سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بالعموم یہ برائی نیکی کے جواب میں ہوتی ہے۔ آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ احسان ناشناسی ہے۔ اور اس طرح کے آدمی کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں نرمی کے رویے کو فرد کی کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے۔ اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر برائی کے جواب میں اچھائی کا رویہ اختیار کیا گیا تو دوسرا اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا۔ چوتھا سبب یہ ہے کہ برائی کے باعث ہمارے وقار کو دھچکا لگتا ہے اور ہماری حیثیت عرفی مجروح ہوتی ہے۔وقار کے معاملے میں ہماری دفاعی حس زیادہ فعال ہوجاتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اسباب ہیں، جن کے تحت ہم برائی کے جواب میں برائی کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے اس عمل پر اپنے ضمیر کی خلش کو دور کرنے کے لیے اسی نوع کے استدلال کا سہارا لیتے ہیں۔
برائی کے بدلے میں نیکی کا آغاز عفو ودرگزر سے ہوتا ہے اور آدمی پھر آگے بڑھ کر اچھے سلوک کا اظہار کرتا ہے۔ اس رویے کو اختیار کرنے کے لیے اپنے اندر ایک وصف پیدا کرنا ضروری ہے اور وہ ضبطِ نفس اور نیکی پر جمے رہنے کا وصف ہے۔ اسی وصف کو قرآنِ مجید کی اس آیت میں ’صبر‘ کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ صبر ایک مثبت رویے کا نام ہے، جس میں آدمی اپنے جذبات کو قابو میں رکھتا اور اپنے آپ کو منفی اقدام سے روک لیتا ہے۔ اس منزل کو طے کرلینے کے بعد ہی آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ برائی کے جواب میں نیکی کرے اور قرآنِ مجید کے الفاظ ’ذو حظ عظیم‘ کا مستحق قرار پائے۔
ہمارا معاشرہ، خاندان، محلے اور ملک کی سطح پر انتشار اور خلفشار کا شکار ہے۔ اس خلفشار کے بہت سے اسباب میں سے ایک معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت کا صبر کی مذکورہ خوبی سے محروم ہونا ہے۔ معاملہ گھروں کے جھگڑوں کا ہو یا مذہبی یا سیاسی اختلافات کا ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لیے آمادہ نظر آتا ہے۔ دراںحالیکہ قرآن مجید نے واضح کردیا ہے کہ اتحاد، اتفاق اور دوستی کا راستہ برائی کے جواب میں نیکی ہے۔
——