حمال

محمود تیمور، مترجم: عطا حسین

موسم گرما کا دم واپسیں تھا۔ خوش باش لوگ پہاڑوں کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ اکتوبر کی سرد ہوائیں کوہسار لبنان کے لیے جامہ سیمیں تیار کررہی تھیں۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایک بلند پہاڑ کے دامن میں واقع گاؤں شلفون حیات آفریں سکون میں غرق تھا۔میں جسمانی اور روحانی آسودگی کے لیے چند روز اس گاؤں میں ٹھہر گیا۔ میرا معمول تھا کہ میں شام کو غروب آفتاب کے وقت سیر کے لیے اپنی قیام گاہ سے باہر نکلتا، راستے کے نشیب و فراز طے کرتا ہوا ساحل سمندر تک اترآتا۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد پھر اپنی منزل کا رخ کرتا۔ ایک دن سمندر کے کنارے اپنی جگہ بیٹھا قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ڈوبتے سورج کی کرنیں افق کی پہنائیوں کو رنگا رنگ کررہی تھیں۔ آلودگیوں سے پاک پرسکون فضا کائنات کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھی۔ رات کی تیرگی جب شفق کی لالی کی طرف لپکنے لگی تو میں اپنی قیام گاہ کی طرف گامزن ہوگیا۔ چند قدم چلنے کے بعد مجھے وحشت محسوس ہونے لگی۔ چاروں طرف دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا۔ میری تنہائی مجھے ڈستی معلوم ہونے لگی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ کائنات میں میرے علاوہ کسی کا وجود نہیں۔ ایک عجیب ناقابلِ بیان خوف مجھ پر مسلط ہونے لگا۔ ہوا کی سرسراہٹ میرے دل میں وسوسے پیدا کرتی۔ پھر یکلخت میرا سارا جسم کانپ اٹھا۔ مجھے اپنی وحشت انگیزی اور خوفزدگی پرحیرت ہونے لگی اور اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا۔

اوہام کے انبار سے نجات پانے کے لیے میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو ماہ نو شرمیلی دلہن کی طرح جلوہ نمائی کررہا تھا۔ اس کی ہلکی ہلکی ضوفشانی نے فضا کو حد درجہ رومان انگیز بنادیا تھا۔ اس سے مختصر سے فاصلے پر شام کا ستارہ گویا اس حسینہ کا تعاقب کررہا تھا۔ ایسی روح پرور فضا اور یہ وحشت زدگی۔ مجھے اپنے آپ سے شرم سی محسوس ہونے لگی۔ غیر ارادی طور پر میرے قدم پہاڑی راستے کی طرف اٹھنے لگے۔ ہوا کی خنکی اور نرم نرم چاندنی سے طبیعت میں شگفتگی اور سکون سا محسوس ہونے لگا۔ ستارہ زہرہ عروس نو کا والہانہ تعاقب کررہا تھا۔ اس کے تعاقب نے میرے جذبات میں شوق اور تمناؤں کا ایک ہنگامہ سا بپا کردیا۔ میرے قدم خود بخود تیز ہوگئے۔ دور کہیں ایک آدمی چڑھتا ہوا نظر آیا۔ حیرت تھی کہ یہ شخص ہموار سڑک چھوڑ کر دشوار گزار چڑھائی پر لمبے لمبے ڈگ کیوں بھر رہا ہے۔ میں نے سوچا ہو نہ ہو یہ آدمی ضرور پہاڑی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، ورنہ ایک اجنبی شخص ہموار راہ سے گریز کرکے ایسی خطرناک پگڈنڈی اختیار نہیں کرسکتا۔ وہ جھاڑیوں اور درختوں میں روپوش ہوجاتا۔ مجھے ایسا گمان ہوتا کہ وہ آدمی نہیں بلکہ کوئی روح بھٹک رہی ہے اور میرے جسم میں خوف کی لہر سرایت کرجاتی۔ کبھی خیال آتا کہ یہ شخص ڈاکو ہے جو لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر کسی مہم پر جارہا ہے۔ کبھی سوچتا شاید یہ شخص اسپورٹس کا دلدادہ یا کوہ پیمائی سے شغف رکھتا ہے۔ پھر سوچا کہ مجھے کیا پڑی ہے؟ ہوا کرے۔ لیکن میرے ذوقِ تجسس نے مجھے چین نہ لینے دیا۔ غیر شعوری طور پر میری نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں۔ حتیٰ کہ ایک موٹر پر ہمارا تصادم ہوگیا۔ سفید دھلی ہوئی چاندنی میں اس پر نظر ڈالی اور اس کے حلیے کا ایک سرسری جائزہ لیا۔ خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ پہاڑی ہے۔ اس نے شلوار زیب تن کی ہوئی تھی۔ سر ایک خفیف عمامے سے مزین تھا۔ کمر جھکی ہوئی تھی۔ پیٹھ پر ایک تھیلا تھا جو عام طور پر حمال رکھتے ہیں۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ تھیلے میں کوئی وزن دار چیز اٹھائے لیے جارہا ہے۔ میرے ذہن میں عجیب عجیب وسوسے اور خیالات سر اٹھانے لگے۔ اتنا بھاری بوجھ لادے ہوئے، اس اندھیرے میں، یہ شخص ہموار راستے سے کترا کر خطرناک گھاٹیوں کو کیوں اختیار کرتا ہے؟ اس خیال نے میرے ذوق تجسس کو ایک تازیانہ لگایا اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا تاکہ اس سے جاملوں، لیکن وہ اتنی پھرتی سے چھلانگیں مار رہا تھا کہ میں اسے نہ پکڑ سکا۔ آخر ایک چوراہے پر جاکر وہ ٹھہر گیا۔ میں بھی اس کی طرف لپکا اور بالکل اس کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ وہ اپنی جبیں سے پسینہ صاف کررہا تھا۔ اپنے خدوخال سے نہایت باوقار اور نرم دل معلوم ہورہا تھا۔ میں نے فوراً سلام کیا اور پھر روایتی انداز میں اس کی خیر خیریت معلوم کی۔ اس کے پرخلوص انداز نے میرا حوصلہ بڑھایا۔

’’میں ان راستوں سے خوب واقف ہوں، اختصار کی غرض سے اس راستے پر چلتا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا اور پھر پوچھا: ’’کیا تم یہاں گرمیاں گزارنے آئے ہو؟‘‘

’’ہاں!‘‘ میں نے جواب میں کہا۔

’’مگر موسم تو ختم ہوگیا۔‘‘

’’میں ذرا تنہائی پسند ہوں، مجھے ایسے ہی لطف آتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں ٹھیک ہے، کبھی کبھی انسان کو خدا کی مخلوق سے فرار تلاش کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے کاندھوں سے تھیلا اتارنے لگا۔ میں نے بڑھ کر اس کی مدد کرنی چاہی، مگر اس نے مجھے منع کرتے ہوئے کہا:

’’بھائی سالہا سال سے میں یہ کام کررہا ہوں، اب تکلیف کا احساس نہیں رہا۔‘‘

اس نے اپنا تھیلا پیٹھ سے اتار کر زمین پر رکھ دیا اور اس کی گرہ کھول کر، جو کچھ تھا، اس میں سے ایک ایک کرکے بے پروائی سے پھینکنے لگا۔ جو چیزیں اس طرح پھینکی جارہی تھیں، انھیں دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ پتھر کے ٹکڑے، بیکار روڑے!

میں نے کہا:’’کیا یہی بیکار چیزیں اٹھا لائے تھے؟‘‘

’’میں کبھی کبھی اپنی پیٹھ پر پتھر لادلیتا ہوں جن کی کوئی قیمت نہیں اور کبھی کبھی ایسا سامان بھی اٹھا لاتا ہوں جس کی قیمت ہوتی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ کھڑا ہوگیا، لیکن اس کے کھڑے ہونے کا انداز ایسا تھا گویا وہ کوئی بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ میری نگاہیں اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔ وہ میری حیرت کو تاڑ گیا، چنانچہ میرے پوچھے بغیر اس نے کہا:

’’جناب من آپ جانتے ہیں کہ میں ایک حمال ہوں۔ ابتدائے جوانی سے بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہوں۔ روزانہ صبح اپنے گھر سے نکلتا ہوں اور شام کو لوٹ آتا ہوں، پہاڑ پر مقیم گاؤں والوں کو ضروری چیزیں مہیاں کرتا ہوں۔‘‘

آس پاس پڑے پتھر کے ٹکڑوں کو دیکھ کر میں نے کہا:’’کیا گاؤں والوں نے تم سے آج یہ پتھر منگوائے تھے؟ ان کو ایسی کیا ضرورت تھی کہ تم ان کو ساحل سمندر سے اٹھا کر لائے؟‘‘

’’آج میں بیکار ہوں، مجھے کوئی کام نہیں ملا۔‘‘

’’تو یہ پتھر کس لیے؟‘‘

’’جب مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی، جو لوگوں کے کام آئے، تو میں یہ بیکار پتھر اٹھا لاتا ہوں جس سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ذرا چیخ کر کہا: ’’بخدا! تم کیا کہہ رہے ہو؟ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔‘‘

’’میں نے ابھی آپ سے عرض کیا کہ آج مجھے چھٹی ہے، یعنی زبردستی کی چھٹی کوئی کام نہیں۔ کسی نے مجھ سے کوئی چیز نہیں منگوائی توپھر میں کیا کرتا۔ یہی پتھر اٹھا لایا، بے کار جو تھا۔

میں نے فوراً کہا ’’تو کیا ہوا اگر کوئی چیز نہیںلانی تھی تو تم آرام کرتے۔ آخر یہ بیگار کیوں؟‘‘

ایک لمبی آہ بھر کر اس نے کہا: ’’افسوس ہے… مگر کیا کروں؟ جب مجھے اس پہاڑ پر چڑھنا ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ میری پیٹھ پر لدنا ہی چاہیے، پتھر بھاری ہوتے ہیں، تھوڑی سی مقدار میں میرا کام ہوجاتا ہے۔‘‘

کیا معنی؟… میرا کام ہوجاتا ہے…؟ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا۔

وہ میرے قریب ہوگیا اور دھیمے دھیمے لہجے میں کہنے لگا: ’’بھائی بوجھ ڈھوتے ڈھوتے میری جوانی گزر گئی، بڑھاپا آگیا اور میں حمالی کرتا رہا، حتی کہ پیٹھ ٹیڑھی ہوگئی۔ میں اور لوگوں کی طرح سینہ تان کر سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ کوئی نہ کوئی بوجھ مجھے اٹھانا ہی چاہیے۔ ورنہ توازن قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے بغیر میرے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں، ٹھیک سے چل نہیں سکتا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وادی میں گرا چاہتا ہوں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘

میں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دیا: ’’مجھے معلوم نہیں … اپنے معاملات کو تم خود ہی بہتر سمجھ سکتے ہو… ہوسکتا ہے جو تم کہتے ہو وہ ٹھیک ہو۔‘‘

میری بے بسی پر رحم کھاتے ہوئے اس نے کہا: ’’بوجھ ڈھونا میری زندگی کا ایک اہم جز بن گیا ہے، اس کے بغیر زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ بوجھ ہی کے ذریعے میں اپنی زندگی میں توازن اور ہمواری قائم رکھ سکتا ہوں۔ اس کے بغیر چارہ نہیں، زندگی بے مصرف ہوجائے گی۔‘‘

’’کیا تم اس سے خوش ہو؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

’’خوش کیوں نہیں؟زندگی بھر یہی کرتا رہا ہوں۔ مجھے اس سے فائدہ پہنچتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کام سے محبت ہوگئی ہے۔کیا انسان جس چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے، اس سے نفرت کرتا ہے۔

اس کے لہجے میں حد درجہ متانت اور سنجیدگی تھی، اس کی نگاہوں میں بصیرت افروز چمک تھی۔ اس کی حرکات میں خود اعتمادی نمایاں تھی۔ میں ایک گہری سوچ میں پڑگیا… ایک اتنا سادہ انسان… ایک حمال، کیا بساط ہے اس کی۔ مگر ایسی فلسفیانہ موشگافی اور حکمت پرور باتیں صرف فلسفی یا حکیم ہی کرسکتا ہے۔ اس معمولی سے انسان نے زندگی کو برتا ہے، زندگی نے اس کو برتا ہے، زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے اس نے گریز نہیں کیا، اپنے فطری شعور کو مصاف زندگی سے وابستہ کررکھا ہے۔ اس نے اپنی فطری صلاحیتوں کو زندگی سے گریز کرنے میں صرف نہیں کیا۔

میرے ذہن میں یہ خیالات ابھر رہے تھے اور میں اس کے ساتھ ساتھ باقی راستہ طے کررہا تھا۔ چاند غائب ہوچکا تھا۔ تیرگی ساری کائنات کو آغوش میں لے رہی تھی۔ شام کا تارہ ماتم گسار تھا۔ کبھی کبھی تیز ہوا کی سرسراہٹ مجھے چونکا دیتی اور یکلخت میرے ذہن میں اس حمال کے یہ الفاظ ابھرآتے۔

’’بوجھ ڈھونا میری زندگی کا ایک اہم جز بن گیا ہے، اس کے بغیر زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ بوجھ ہی کے ذریعے میں اپنی زندگی میں توازن اور ہمواری قائم رکھ سکتا ہوں۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ زندگی بے مصرف ہوجائے گی۔‘‘

اس کی پشت پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں نے کہا: ’’میرے دوست! یہ نہ سمجھنا کہ اس دنیا میں تو ہی ایک ایسا آدمی ہے جو یہ بوجھ اٹھاتا ہے، ہر شخص کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی بذات خود ایک بوجھ، ایک بار ثقیل ہے۔ کسی متنفس کو اس سے مفر نہیں، مگر اہم حقیقت یہ ہے کہ اس بارگراں کو اٹھانے میںاستواری اور توازن قائم رکھنا ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا کوئی کام ٹھیک ہوسکتا ہے نہ مسرت و اطمینان حاصل ہوسکتا ہے۔

بوڑھا حمال میری باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا، اس کے چہرے پر مسرت و اطمینان کے آثار ظاہر تھے۔ میں نے کہا:’’تو بھائی! تم صرف اکیلے نہیں ہو جو زندگی میں توازن قائم رکھنے کے لیے پتھر اٹھالیتے ہو، ہر شخص کو کوئی نہ کوئی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘

اب وہ میرے مکان کے دروازے تک پہنچ چکا تھا، میں نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: ’’اے میرے دوست! اے انسان! تو نے آج مجھے انسانیت کا ایک انوکھا تصور دیا ہے۔ تو پیکر انسانیت ہے۔ تو اپنے اعمال سے اس کی تشریح کرتا ہے، میں تجھے سلام کرتا ہوں۔‘‘ اس کے چہرے پر نہایت عمیق سکون اور اطمینان کے آثار تھے۔

’’زندگی کا بارِ گراں اٹھانے میں خدا تمہاری مدد کرے! السلام علیکم۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلاگیا۔

(’’الوعی‘‘ سے ماخوذ، بشکریہ ’’ماہ نو‘‘ جولائی ۱۹۵۷ء)

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں