تارک سنن ہوں اور پھر اس پہ انبساط اے کریم
گامزن ہیں یوںمر ے قدم سمت انحطاط اے کریم
تیرا ادنیٰ عبد ہو کے بھی مجھ میں نام عبد یت نہیں
ہو نہ جاے منقطع کہیں تجھ سے ارتباط اے کریم
تیرے فضل ہی سے بزم میں میںثنا سرا ہواہوںآج
ورنہ لب کشائی کر سکوں میری کیا بساط اے کریم
روز حشر کھل گیا اگر میرے قول وفعل کا بھرم
کس طرح میں طے کرو ںگا پھر را ہ پل صراط اے کریم
ہر خلاف شرع فعل سے دائمی عناد بخش دے
بڑھ رہا ہے سیئات سے میرا اختلاط اے کریم
تیرا حکم توڑ کرچلا میں تلاشِ خیر میں تو پھر
لغزشوں کی سمت لے گئی مجھ کو احتیاط اے کریم