حمل میں خواتین کی غذائی ضروریات

ڈاکٹر سمرین فردوس

ہندوستان میں ہر سال کئی لاکھ خواتین بچے کی پیدائش میںاپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ ان اموات میں دیگر اسباب کے علاوہ ایک بڑا سبب غذائی کمی کا شکار ہونا بھی ہوتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے دوران ایک عورت کا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا نہ صرف بچوں اور خاندان کے لیے ایک المناک اور تکلیف دہ واقعہ ہوتا ہے، بلکہ اس سے پورا معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں عام طور پر اور برصغیر میں خاص طور پر اس کی ایک وجہ عورتوں میں غذائی کمی جیسے سنگین مسئلے کا موجود ہونا ہے۔ غذائی کمی، پوری مقدار میں غذا کا نہ لینا، جسم میں غذا کا مکمل طور پر جذب نہ ہونا اور خاص طور پر کچھ لازمی غذائی اجزاء مثلاً فولاد، زنک اور آیوڈین کا مناسب مقدار میں نہ مل پانا حاملہ خواتین کے اندر سنگین مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اور ان مسائل میں سب سے اہم اور خطرناک خون کی کمی ہے، جسے طب کی زبان میں اینمیا کہتے ہیں۔

خواتین کی صحت سے وابستہ ایک ادارے نے ملک کی چار ریاستوں کے کئی منتخب اضلاع میں ایک تحقیق کی جس کا مقصد حاملہ خواتین کی غذا کے بارے میں معلومات فراہم کرنا اور انہیں اپنی غذا کے سلسلے میں حساس بناناتھا۔ اس ادارہ کا خاص ہد ف یہ بھی تھا کہ وہ ان خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کے ذہن و فکر میں حاملہ عورت کے لیے حساسیت اور ذمہ دارانہ رویہ پیدا کرے۔ اس کے لیے انھوں نے کئی ہزار حاملہ خواتین کے انٹرویو لیے۔

جن خواتین کا انٹرویو لیا گیا ان سب کے خیال میں حمل کے دوران عورت کو خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن فی الحال حمل کے دوران جو تھوڑی بہت دیکھ بھال اور معائنہ ہوتا ہے وہ غیر اطمینان بخش تھا۔ان عورتوں کا خیال تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ حمل اور اپنا دودھ پلانے کے دوران کمزوری کا احساس، تھکن اور دیگر ناخوشگوار علامات ان کے نزدیک کوئی اہم بات نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ حمل کے دوران اچھی غذا لینا بے حد ضروری ہے۔ وہ اپنی غذا میں دودھ اور پھلوں کو شامل تو کرتی تھیں مگر غذا کی مقدار میں اضافہ نہیں کرتی تھیں۔ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ حمل کے دوران عورت کو زیادہ غذا لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔

غذا لینے کے بہتر طریقہ کار کے تحت حاملہ عورتوں کو ان کی غذائی ضروریات کے مطابق کیلوریز، مختلف قسم کے کھانے اور فولاد کی گولیوں کا باقاعدہ استعمال تجویز کیا گیا۔ جب عورتوں کو اس بات کا یقین ہوگیاکہ زیادہ مقدار میں کھانا ان کی واقعی ضرورت ہے تو انھوں نے زیادہ مقدار میں غذا لینی شروع کردی۔ اس سلسلے میں ان کو اپنی ساسوں اور شوہروں کی حمایت بھی حاصل ہوئی جو کھانے پینے کی چیزیں خرید کر لایا کرتے تھے۔ کم آمدنی کے باوجود یہ گھرانے زیادہ مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں، موسم کے پھل اور کبھی کبھار انڈا اور گوشت خرید کر استعمال کرنے لگے اور اس کے نتیجے میں حاملہ خواتین کی صحت بہتر ہوئی۔

اکثر عورتیں جو کھانا نہیں کھاتی تھیں، یا دو کھانوں کے درمیان ہلکی پھلکی غذا نہیں کھاتی تھیں، وہ بھی دن میں تین مرتبہ کھانا اور تقریباً تین ہی مرتبہ ہلکی پھلکی غذا کھانے لگیں۔ ان مشوروں پر عمل کرکے ایک ہفتہ کے اندر اندر ہی کمزوری تھکن، سستی اور سانس پھولنے کی شکایات کم ہوگئیں۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کے زیادہ تر مسائل معلومات کی کمی کا نتیجہ تھے ، جب عورتوں کو معلومات فراہم کردی گئیں تو غذا کے بہتر طریقہ کار پر عمل کرنا ان کے لیے بے حد آسان ہوگیا۔ انہیں اپنے گھر والوں کی حمایت حاصل تھی جو ماں اور بچے دونوں کی صحت کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ یہ تو ایک تحقیق کا نتیجہ تھا جس کے تحت نہ صرف خواتین بلکہ ان کے شوہروں اور ساسوں کو بھی اس تجربے سے گزر کر احساس ہوا کہ صحت مند ماں کے ہاں صحت مند بچے کی پیدائش کے لیے ضروری ہے کہ حمل کے دوران ماں کی خوراک پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس تحقیق کے دوران حاملہ خاتون کا کافی مقدار میں خواک کا نہ لینا یا پھر دن میں کم مرتبہ کھانا، مختلف غذاؤں کا نہ کھانا اور فولاد کی گولیوں کا نہ کھانا جیسے مسائل سامنے آئے۔ ان مسائل کے حل کے لیے جو تجاویز دی گئیں ان پر عمل کرنا نہ صرف ان کے لیے آسان تھا، بلکہ وہ ان کے لیے قابلِ قبول بھی تھیں۔ اور کچھ تجاویز اس طرح دی گئی تھیں کہ جو کچھ ان کے گھر میں پک رہا تھا اسے ہی زیادہ مقدار اور زیادہ دفعہ کھانے کے لیے کہا گیا۔ جس کی وجہ سے انہیں یا ان کے گھروالوں کو مزید تردد نہیں کرنا پڑا۔

حاملہ عورتوں کو صحت مند رہنے کے لیے زیادہ توانائی اور زچگی کے لیے طاقت پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ کھانے سے مراد یہ ہے کہا کہ ایک دن میں تین دفعہ کھانا اور ان کھانوں کے درمیان دو دفعہ ہلکی غذا لینی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ کھانے کی مقدار میں اضافہ بھی کرنا چاہیے یعنی ہر کھانے پر ایک روٹی زیادہ اور سالن کی دگنی مقدار استعمال کرنی چاہیے اس حاملہ خاتون صحت مند رہے گی اور زیادہ طاقت بھی محسوس کرے گی۔

چونکہ حاملہ خاتون کو عام دنوں کی نسبت زیادہ غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسے تین بڑے کھانوں (یعنی ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا) کے درمیان دو مرتبہ ہلکی غذا مثلاً دودھ دہی، لسی، گھی لگی روٹی، حلوہ پھل اور کچی سبزیاں گاجر وغیرہ کھانی چاہیے۔اس طرح وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرے گی اور یہ زیادہ اور مختلف غذاؤں کا کھانا بچے کی نشو ونما کے لیے بھی ضروری ہے۔ حاملہ خاتون ہلکی غذا اکیلے یا بچوں کے ساتھ یا کھانا پکاتے ہوئے بھی کھاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ حاملہ خاتون کو اپنی غذا میں دالیں اور سبزیاں شامل کرنی چاہئیں۔ مثلاً پالک، گاجر وغیرہ اگر گیس کی شکایت ہو تو دالیں اور سبزیاں کم مقدار میں اور دن میں کئی مرتبہ کھانے سے پیٹ میں گیس پیدا نہیں ہوتی۔ اگر ایک دفعہ پوری مقدار میں کھانا ہضم نہ ہوتا ہو تو سارا دن وقفے وقفے سے تھوڑا تھورا کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ اگر حاملہ خاتون مناسب مقدار میں کھانا کھائے گی تو بچہ کم وزن اور کم زور پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی ماں کو کم زوری ہوگی۔

بعض اوقات حاملہ خواتین کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ زیادہ کھانے سے بچے کا سائز بڑا ہو جائے گا اور بڑے آپریشن کی ضرورت پڑے گی اور اس ڈر سے وہ پوری مقدار میں کھانا نہیں کھاتیں اس مفروضہ میں کوئی حقیقت نہیں۔

آپ کو روز مرہ سے زیادہ غذا کی ضرورت ہے تاکہ آپہ بہتر محسوس کرسکیں۔ اس بات کی فکر نہ کریں کہ بچہ بڑا ہوجائے گا۔ صحت مند ہونے کے لیے بچے کا وزن زیادہ ہونا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں