بچوں کی اچھی تربیت والدین کی بڑی اہم اور نازک ذمے داری ہے۔یہ خواتین کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔ عظیم لوگوںکی زندگیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت سازی میں ان کی ماؤں نے بڑا اہم کردار ادا کیاتھا۔ جن بچوں کی مائیں، ان کی ولادت سے پہلے ہی، ان کے لیے فکر مند ہوتی ہیں اور انہیں اللہ کا نیک و صالح بندہ اور انسانیت کے لیے مفید انسان بنانے کی فکر کرتی ہیں،ا ن کی تربیت اور اچھے انسان بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔یہ ماں کی وہ ذمے داری ہے کہ جس کے سلسلے میں قیامت کے روز وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : والمرأة راعية على بيت زوجها وولدِه فکلُّكم راعٍ، وكلُّكم مسؤولٌ عن رعيَّتِه (عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں پر نگراں ہے۔ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔)
بچوں کی ذہن سازی و شخصیت سازی کا عمل ، اُن کی ولادت سے پہلے سے یعنی ماں کے پیٹ ہی سے شروع ہوجاتا ہے اس لیے اسی وقت سے ان کی تربیت پر توجہ ہونی چاہیے۔
ماؤں کے لیے اپنے بچوں کی تربیت کا ایک اہم زمانہ حمل کا زمانہ ہے۔ اس وقت بچہ صرف اور صرف اپنی ماں سے منسلک ہوتا ہے۔ بعد میں تو اُس کی شخصیت پر بہت سے لوگوں کا اور پورے سماج کا اثر پڑسکتا ہے لیکن حمل کے مرحلے میں جب بچے کی شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے، اس وقت وہ صرف ایک ہی شخصیت سے وابستہ ہوتا ہے اور اس کا اثر قبول کرتا ہے اور وہ اس کی ماں ہے۔
حمل سے متعلق طبی رہنمائی کے لیے ویڈیو دیکھیں!
اللہ تعالیٰ نے ماں کا درجہ جو اس قدر بلند رکھا ہے، اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے اور اس کا حق باپ سے بھی زیادہ رکھا ہے۔ اس کی وجہ جہاں ماں کا احسان ہے، وہ قربانیاں اور تکالیف ہیں جو ماں، بچے کی پیدائش کے لیے برداشت کرتی ہے وہیں یہ بات بھی ہے کہ اس کی شخصیت سازی میں ماں کا رول نہایت اہم اور بنیادی ہوتا ہے۔ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا ط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ط وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا(ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے۔اْس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے)۔
ہر مسلمان ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ ہر لحاظ سے اچھا ہو۔ اس کی جسمانی صحت بھی اچھی ہو۔ وہ صلاحیت و لیاقت کا بھی مالک ہو۔ اس کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ اللہ کا نیک بندہ بن کر زندگی گذارے۔ ان خواہشات کی تکمیل کے لیے حمل کے مرحلے میں صحیح رویہ نہایت ضروری ہے۔ اس ذیل میں کچھ عملی مشورے درج کیے جارہے ہیں۔
1- اللہ کا شکر ادا کریں
حمل کی اطلاع ملنے کے بعد سب سے پہلے کسی کو بھی خبر دینے سے پہلے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کریں۔ اپنے دل کو اللہ کے شکر کے جذبے سے معمور کریں۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق کا ذریعہ آپ کو بنایا۔ ہر بچہ قدرت کا انعام ہوتا ہے۔ایک عورت کی اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ نے انسانی قافلے میں ایک قیمتی اضافے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔اللہ سے نیک اولاد کی دعا کریں۔ فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ (اور جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔)
بعض عورتیں ولادت کے مراحل کی پیچیدگیوں کا تصور کرکے اس مرحلے میں تناؤ کی شکار ہوجاتی ہیں۔ بعض کے لیے حمل ان کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو پریشان ہوجاتی ہیں۔کوشش کریں کہ اس مرحلے میں منفی خیالات آپ کے ذہن میں بالکل نہ آئیں۔ اُن عورتوں کے بارے میں سوچیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے محروم رکھا ہے اور اپنی خوش نصیبی پر خوش ہوں۔ ہونے والے بچے کا ایک بہترین اور کامیاب انسان کے روپ میں تصور کریں اور شکر ادا کریں کہ اللہ نے ایک اچھے انسان کی افزائش کا موقع آپ کو دیا ہے۔اس موقعے پر حاملہ عورت کی جسمانی و نفسیاتی اور روحانی صحت کا اچھا اثر بچے پر بھی پڑتا ہے۔
2- مستند معلومات
حمل، وضع حمل اور اس کے مختلف مرحلوں سے متعلق مستند معلومات حاصل کریں۔ اپنی اور بچے کی جسمانی صحت کی فکر کرنا بھی آپ کی ذمے داری ہے اور نفسیاتی و روحانی صحت کی بھی۔ جن بچوں کی ماں کے پیٹ میں اچھی نشو نما ہوتی ہے اور وہ اچھی صحت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، ا س کا اثر پوری زندگی باقی رہتا ہے۔ قدیم زمانے میں تجربے کار دادیاں اور نانیاں اس مرحلے میں نئی ماوں کی رہنمائی کرتی تھیں۔ اب یہ رول بہت کمزور ہوگیا ہے لیکن آج کی ماؤں کو طرح طرح کی کتابوں اور انٹرنیٹ وغیرہ کی صورت میں معلومات کے لامحدود ذخائر دستیاب ہیں۔ ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
حمل کے مختلف مرحلوں میں کن باتوں کا خیال رکھنا ہے؟کیا کھانا ہے؟ مختلف تکالیف یا دشواریوں کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟ ان پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟ کب ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے؟ روٹین چیک اپ کا کیا شیڈول ہونا چاہیے؟ ذہنی و نفیساتی الجھنیں کیوں درپیش ہوتی ہیں؟ ان سے کیسے نمٹنا ہے؟ یہ سب باتیں اگرچہ آپ کی معالج بھی آپ کو بتائے گی لیکن بہتر ہے کہ آپ خود بھی انہیں اچھی طرح پڑھ لیں۔ اس وقت اکثر دواخانوں میں ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کی تعلیم Patient Educationکا ٹائم ہی نہیں ہے وہ رپورٹیں دیکھ کر صرف پانچ منٹ میں دوائیں لکھنے کا کام کرتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کی معلومات اچھی ہوں گی تو آپ ڈاکٹر سے بھی مناسب سوالات کرسکیں گی۔
دو باتیں البتہ ضرور یاد رکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ جو بھی پڑھا جائے وہ مستند ذرائع سے پڑھا جائے۔ وہاٹس اپ اور سوشل میڈیا پر بہت سی بے بنیاد باتیں پھیلادی جاتی ہیں ۔ اسی طرح لوگ بھی بے سر وپا کے مشورے دینے لگتے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ مستند ڈاکٹروں کی کتابیں یا ایسی ویب سائٹس جو مستند ماہرین فن کے ذریعہ چلائی جارہی ہوں، ان ہی سے استفادہ کریں۔
دوسری بات یہ کہ صرف کتاب پڑھ کر اپنا علاج نہ کریں۔ کتابی علم آپ کی آگہی بڑھاتا ہے لیکن مرض کی تشخیص ، دوا اور علاج کی تعیین کے لیے تجربہ اور مہارت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس لیے جو بھی کریں ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔ پڑھنے سے معلومات میں جو اضافہ ہوگا اس سے غذا اورروزمرہ کی سرگرمیوں میں چوکسی میں آپ کو مدد ملے گی، مختلف مسائل کوسمجھنے میں مدد ملے گی اور ایسی معلومات ملیں گی جن کی مدد سے آپ ڈاکٹر سے مناسب مشورہ کرسکیں گی۔ کتاب کبھی بھی ڈاکٹر کا متبادل نہیں ہوسکتی۔
جسمانی صحت کے ساتھ اخلاقی اور روحانی ارتقا سے متعلق بھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔قرآن مجید میں اور احادیث میں بچوں کی ولادت اور تربیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس کا مطالعہ کریں۔ متعلق حدیثوں کا مطالعہ کریں۔ بچوں کی تربیت سے متعلق اسلامی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ عظیم عورتوں کی اور عظیم شخصیات کی ماؤں کی سوانح پڑھیں۔
3- قرآن سے تعارف
ماہرین کہتے ہیں کہ نویں ہفتے یعنی تیسرے مہینے ہی سے جینین آوازیں سننے کے لائق ہوجاتا ہے اور وہ ماں کی آواز پہچاننے لگتا ہے بلکہ کچھ اور وقت گذرتا ہے تو ماں کی آواز سے اس کا موڈ بھی سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اس مرحلے میں جینین سے اس طرح بات کرنی چاہیے جیسے وہ سامنے موجود ہو۔مسلمان ماں کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس مرحلے ہی میں اسے اپنے خالق و مالک سے اور اس کے کلام سے متعارف کرایا جائے۔ اچھی اور بلند آواز میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ کوشش کریں کہ تیسرے مہینے سے ولادت تک، قرآن کا کم سے کم ایک دور ضرور مکمل ہوجائے۔ اچھے قاریوں کی آواز میں فون یا کمپیوٹر سے بھی تلاوت سنیں لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ ماں خود کثرت سے اپنی آواز میں پڑھے کیونکہ جینین ماں کی آواز ہی کو پہچانتا اور اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی ﷺ ، سیرت پاک کا مطالعہ، اچھی نعتوں کا گنگنانا وغیرہ بھی عادت بنانی چاہیے۔ اس سے آپ کو موڈ بھی اچھا رہے گا اور خیالات میں ایجابیت اور پاکیزگی پیدا ہوگی اور اس کا اثر ان شاء اللہ ہونے والے بچے پر بھی نہایت خوشگوار ہوگا۔
4- نیکی سے قربت، گناہوں سے دوری
ہر نیکی انسان کے جذبات اور اس کی نفسیات پر بھی اچھا اثر ڈالتی ہے اور ہر گناہ برا اثر ڈالتا ہے۔ حاملہ عورت کے اعمال اس کے پیٹ میں پل رہے جینین کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ دوران حمل ، عورت اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر کرم اور رحمت کے سائے میں ہوتی ہے۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ یہ پوری مدت انتہائی پاکبازی سے گذاری جائے۔ ہمیشہ وضو سے رہنے کی کوشش ہو، نفل نمازیں زیادہ سے زیادہ پڑھی جائیں، صدقہ و خیرات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہو،اذکار مسنونہ کا اہتمام ہو، اچھی کتابوں کا مطالعہ ہو اور دینی محفلوں میں زیادہ سے زیادہ شرکت ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچا جائے۔ غیبت، جھوٹ اور بدکلامی جیسی برائیاں عورت کے مزاج پر بھی اثر ڈالتی ہیں اور بچے پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ ذہن میں آنے والے منفی خیالات ، کینہ، کپٹ، بغض، نفرت، غصہ و جھنجلاہٹ ان سب باتوں کے بھی بڑے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر نیک اور صالح کاموں کی طرف زیادہ سے زیادہ دھیان دیا جائے تو ان شاء اللہ ذہن بھی برے خیالات سے محفوظ رہے گا اور پیٹ میں پلنے والا بچہ بھی نیکی سے قریب رہے گا۔
5- خوش رہیں
دوران حمل یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ خوش و خرم اور مطمئن رہیں۔ خوش رہنے کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ حاملہ کو اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔دکھ، غم، پریشانیاں اور چیلنج ہر زندگی کا جز ہیں۔ ان چیلنجوں کا سامنا ہم کیسے کرتے ہیں، یہی بندہ مومن کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ صبر، شکر، توکل نہایت اہم مومنانہ صفات ہیں۔ حمل کے دوران ان صفات کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایمانی کیفیات زندگی کی مشکلات کو ہمارے ذہن و قلب پر حاوی ہونے نہیں دیتیں۔ لوگوں کی سخت اور تکلیف دہ باتوں پر توجہ نہ دیں۔ دوسروں کی مدد کرتی رہیں، کیونکہ دوسروں کی مدد کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہیں۔ساس نند یا شوہر کی زیادتیوں کا تذکرہ اور شکایت کرنے کے بجائےان کی مثبت خوبیوں کو تلاش کریں۔ سسرالی رویوں پر مایوس ہونے کے بجائے اللہ تعالی کی بارگاہ میں خیر کی امید رکھیں اور اس کے لیے دعا کریں۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان سے لطف اندوز ہوں۔ ان تمام باتوں کا ویسے تو ہر مسلمان کو خیال رکھنا چاہیے لیکن دوران حمل عورت جذباتی طور پر کمزور پڑنے لگتی ہے جس سے قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کا منفی اثر خود اس کی صحت پر بھی پڑتا ہے اور بچے کی صحت اور اس کی نشونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے تحفظ ضروری ہے۔
6- صحت پر توجہ دیں
صحت مند بچے کے لیے ماں کے جسم کا صحت مند ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹرسے ملاقات کا شیڈول مِس نہ کریں۔ ڈاکٹر کے مشورے پر سختی سے عمل کریں۔ بعض عورتیں ، ڈاکٹروں کی باتوں کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور ٹھوس سائنسی مشوروں یا دوا ؤں کے مقابلے میں ، بے بنیاد گھریلو ٹوٹکوں کی اہمیت باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان پر دھیان نہ دیں۔ متوازن غذا استعمال کریں ۔ ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اچھے ماہر تغذیہ Dieticianسے بھی رابطہ میں رہیں۔
7- کثرت سے دعا کریں
رسول اللہ ﷺ نے دعا کو سب سے افضل عبادت قرار دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک دعاسے بڑھ کر کوئی چیز قابل تکریم نہیں ہے۔ یہ افضل عبادت نہایت آسان ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، لیٹے ہوئے، ہر حال میں اللہ کوپکارا جاسکتا ہے۔دعاؤں سے اللہ کی مدد و نصرت بھی حاصل ہوتی ہے اور دعا کرنے والے کے تصورات اور اس کی ذہن و نفسیات پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔
حاملہ عورت کو دو طرح کی خصوصی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ایک تو اپنے ہونے والے بچے کے لیے اور دوسرے خود اپنے لیے۔ دونوں طرح کی دعاؤں کا کثرت سے اہتمام کیجیے۔ اپنے بچے کے بارے میں سوچیے کہ آپ کیا چاہتی ہیں؟ اس کی صحت کے بارے میں، جسمانی محاسن کے بارے میں، اس کی صلاحیتوں و لیاقتوں کے بارے میں، اس کے کردار و اخلاق کے بارے میں، اس کے رول کے بارے میں ، فتنوں و آزمائشوں سے اس کی حفاظت کے بارے میں، دین و دنیا میں اس کی کامیابی کے بارے میں، غرضیکہ اس کے بارے میں ہر ممکن پہلو سے اچھے سے اچھا سوچیں اور دعاؤں کی فہرست بنالیں۔ اسی طرح اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔
قرآن مجید نے اولاد کے بارے میں بعض انتہائی خوبصورت و موثر دعائیں سکھائی ہیں۔ ان میں سے اکثر دعائیں اللہ نے اپنے عظیم رسولوں کو سکھائی تھیں اور انہی کے حوالوں سے قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ ان دعاؤں کا کثرت سے اہتمام کریں۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے۔‘‘(آل عمران 38)
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْن’’اے پروردگار، مجھے ایک اولاد عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔‘‘ (الصافات100)
رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِين ’’اور یاد کرو زکریّاؑ کو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے۔‘‘(انبیاء 89)
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘ ( الفرقان 74)
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ’’ ا ے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں) پروردگار، میری دعا قبول کر۔‘‘ (ابراہیم: 40)
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ’’جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘(آل عمران:35)
آخری دعا مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا ہے جنہوں نے اپنے بچے کو اللہ کے حضور نذر کرنے کی دعا مانگی تھی۔ ایک مسلمان خاتون کا بھی یہ ارادہ اور نیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو اللہ کے دین کی خدمت کے لیے تیار کرے گی وہ جہاں بھی رہے گا یا رہے گی اللہ کے دین کی نصرت کا کام کرے گا۔
حاملہ عورت کو خود طرح طرح کی تکالیف پیش آتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل طرح طرح کے اندیشے، خوف، گھبراہٹ وغیرہ کی پریشانیاں ہیں جو بعض عورتوں کو بہت پریشان کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض انبیاء کی دعائیں بیان کی ہیں جو انہوں نے پریشانی و مصیبت کے وقت مانگی تھیں۔ ان آیتوں کا ورد کیا جاسکتا ہے۔
یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ بیشک میں ہی قصور وار ہوں۔‘‘(الانبياء: 87 ) رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کریمہ کو پڑھ کر دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (سنن الترمذی)
ایوب علیہ السلام مصیبت کے وقت ان الفاظ میں دعاء کرتے تھے۔ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ’’میں سخت تکلیف میں مبتلا ہوں اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے!‘‘ (الانبياء: 83)
نبی کریم ﷺ نے تکلیف و مشکلات کے ازالے کے لیے کچھ خصوصی دعائیں سکھائی ہیں۔ ان کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔
اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في الدُّنْيا وَالآخِرَة ، اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في ديني وَدُنْيايَ وَأهْلي وَمالي ، اللّهُمَّ اسْتُرْ عوْراتي وَآمِنْ رَوْعاتي ، اللّهُمَّ احْفَظْني مِن بَينِ يَدَيَّ وَمِن خَلْفي وَعَن يَميني وَعَن شِمالي ، وَمِن فَوْقي ، وَأَعوذُ بِعَظَمَتِكَ أَن أُغْتالَ مِن تَحْتي . [ابن ماجه 2/332]
ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے دنیاو آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میرے پوشیدہ امور پر پردہ ڈال اور میری گھبراہٹوں میں مجھے امن دے، اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک ہلاک کردیا جاؤں۔)
(2)حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مصیبت کے عالم میں یہ کلمات دہراتے تھے:
لَا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظيمُ الْحَلِيمْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهْ رَبُّ السَّمَوّاتِ ورّبُّ الأَرْضِ ورَبُّ العَرْشِ الكَريم۔(متفق علیہ)
ترجمہ:اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں عظمت والا، بردبار ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں عرش عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا رب ہے، عرش کریم کا رب ہے۔
سورہ ضحی اور سورہ شرح کی تلاوت خاص طور پر دل کے سکون کے لیے نہایت مفید ہے۔ اور اللہ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود اطمینان قلب کا ذریعہ بتایا ہے۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ’’جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (الرعد :28)
حمل کا یہ پورا دورانیہ ایک مقدس فریضے کی تکمیل کا عرصہ ہے۔اس عرصے میں عورت، اللہ کی ایک عظیم امانت کو انسانیت کے حوالے کرنےکے مشن پر ہوتی ہے۔اس دورانیہ کا اہتمام ، ایک عظیم عبادت اور ایک مقدس سفر سمجھ کر کرنا چاہیے اور کسی بھی گھبراہٹ، بے چینی اور پریشانی میں اسی سے مدد مانگنی چاہیے کیونکہ یہی اہلِ ایمان کا رویہ ہوتا ہے اور ہم تو اللہ پر ایمان رکھنے والے اور اسی سے مدد مانگنے والے ہیں.
حمل کا مرحلہ اور اس کے نفسیاتی تقاضے