حوصلہ افزائی کی اہمیت

قاضی جاوید احمد

۲۶؍برس کی عمر میں نوید کئی بیماریوں اور ڈیپریشن کا شکار تھا۔ اس کو مدد درکار تھی۔ مدد آخر کار اس کو اپنے قصبے کی لائبریری میں ونسٹن چرچل کی تقاریر کے ایک مجموعہ سے ملی۔
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کو شکست دینے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اس برطانوی وزیر اعظم او رمدبر نے ایک تقریر میں کہا تھا : ’’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، اور نہ ہی ناکام ہوں گے۔ ہم فرانس میں لڑیں گے، سمندروں میں لڑیں گے، اور بھی زیادہ حوصلے اور قوت سے ہم فضاؤں میں مقابلہ کریں گے۔‘‘
نوید نے مجھے بتایا کہ چرچل کی یہ تقریر پڑھ کر اس کو یوں لگا جیسے وہ خود بھی جون ۱۹۴۰ء کے اس مایوس کن دن برطانیہ میں موجود تھا، جب ڈنکرک کی لڑائی میں انگریزوں کی شکست کے بعد چرچل نے یہ ولولہ انگیز تقریر پارلیمنٹ میں کی تھی۔ اس کے الفاظ نپے تلے اور زوردار تھے۔ ان الفاظ نے لاکھوں کروڑوں انگریزوں کو ناقابلِ شکست توانائی اور عزم عطا کیا تھا۔ برسوں بعد یہ تقریر پڑھ کر نوید میں بھی ایک نیا جذبہ سرسرانے لگا تھا۔
چرچل نے کہا تھا’’ہم ہر قیمت پر مادرِ وطن کی حفاظت کریں گے۔ ہم ساحلوں پر لڑیں گے، پہاڑوں پر لڑیں گے۔ ہم کبھی شکست قبول نہ کریں گے۔‘‘
جہاندیدہ چرچل کو اپنی قوم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں مکمل یقین تھا۔ اس نے قومی جذبے کو ابھارا۔ اپنی قوم کو نیا ولولہ دیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز مادرِ وطن کے لیے پہلے سے زیادہ سرشاری کے ساتھ ہٹلر کے مقابلے میںڈٹ گئے۔ ان کو فتح نصیب ہوئی۔ بہت سی قربانیاں دے کر انھوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کرلی۔
ایک دانا دوست کے لفظ میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ ’’نرم دلی اور مہربانی سے کام لیا کرو۔ اس دنیا میں ہر فرد زندگی کی بے رحم جنگ لڑرہا ہے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو اپنے خوابوں اور امیدوں کو سہارا دینے کی خاطر اچھے لفظوں اور حوصلہ افزا تعریف کی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
تو آئیے، اس باب میں ہم آپ کو دوسروں کو حوصلہ افزائی کے سچے الفاظ دینے کے چار طریقے بتاتے ہیں:
(۱) سادگی اور خلوص سے کام لیجیے
مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوئین نے ایک بار کہا تھا کہ وہ سچی تعریف کے چند لفظوں پر دو مہینے زندہ رہ سکتا ہے۔ واقعی یہ کس قدر سچی بات ہے! کوئی شخص ہمارے لیے چند اچھے الفاظ کہہ دے تو کیا ہم دل ہی دل میں ان کو نہیں دہراتے؟ کیا ہم اس شخص کے لیے شکر گزاری کا جذبہ محسوس نہیں کرتے؟
تعریف اور خوشامد دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ان کو ایک سمجھنا غلطی ہے۔ کسی منافقانہ تعریف سے زبان تو میٹھی ہوجاتی ہے مگر دل کڑوا ہوجاتا ہے۔ لچھے دار جملے عموماً منافقانہ ہوا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سادہ ترین تعریف گہری اور مؤثر ہوتی ہے۔
میرے ادارے کا سربراہ باتونی نہیں۔ وہ اپنے ماتحتوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی کم ہی زبان کھولتا ہے۔ میرے پاس ایک دفتری نوٹ محفوظ ہے۔ کئی سال پہلے میں نے یہ نوٹ اپنے باس کو بھیجا تھا۔ اس میں ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے چند تجاویز درج تھیں۔ باس نے اس نوٹ پر صرف دو لفظ لکھے تھے۔ ’’بہت خوب!‘‘
صحیح وقت پر محبت اور خلوص کے ساتھ ادا کیے جانے والے دو بول بھی روح میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ جان وڈن باسکٹ بال کا نامور کوچ رہا ہے۔ وہ اپنے کھلاڑیوں سے کہا کرتا تھا کہ وہ جب بھی اسکور کریں تو بال دینے والے کھلاڑی کو مسکراہٹ دیا کریں۔
ایک نوجوان کھلاڑی نے وڈن سے پوچھا: ’’جناب بال دینے والا ہماری طرف نہ دیکھ رہا ہو تو پھر کیا کریں ؟‘‘
’’یقین رکھو، وہ ضرور دیکھے گا۔‘‘ وڈن نے مختصر جواب دیا۔
(۲) وقت اور مقام کا خیال رکھئے
تورات میں حضرت سلیمانؑ کا یہ قول درج ہے کہ ’’صحیح حالات میں بولا ہوا ایک لفظ چاندی کی طشتری میں سنہرے سیبوں کی مانند ہوتا ہے۔‘‘
دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں (بعد میں امریکہ کا مشہور صدر بننے والا) جنرل آئزن ہاور دریائے رہائن کے کنارے چہل قدمی کررہا تھا۔ وہاں اس کی مڈبھیڑ ایک نوجوان فوجی سے ہوئی جو بہت مایوس اور دل شکستہ دکھائی دے رہا تھا۔
’’تم کیسے ہو بیٹا!‘‘ جنرل نے پوچھا۔
’’جنرل صاحب‘‘ فوجی نے جواب دیا’’میں بہت پریشان ہوں۔‘‘
’’اچھا، یہ تو میرے والا حال ہوا۔ میں بھی بہت پریشان ہوں‘‘ آئزن ہاور نے جواب دیا۔ ’’آؤ مل کر سیر کریں۔ شاید اس سے ہم دونوں کو کوئی فائدہ پہنچے۔‘‘
دیکھئے کہ جہاندیدہ جنرل نے نوجوان کو کوئی وعظ نہیں دیا۔ کوئی تلقین بھی نہیں کی۔
(۳) جدوجہد کی ذاتی مثالیں یاد رکھئے
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کامیاب افراد کبھی غلطی نہیں کرتے۔ شاید یہ انداز فکر فطری ہے، لیکن درست بہرحال نہیں ہے۔ عام لوگوں کی طرح وہ بھی خطا کے پتلے ہیں۔فرق بس یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ یوں وہ غلطیاں دہرانے سے بچ جاتے ہیں۔
مشکلات میں مبتلا لوگوں کو جتلانا چاہیے کہ ان کی کیفیت غیرفطری یا غیر معمولی نہیں۔ ہم سب مصیبتوں اور چیلنجوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ زندگی کا چلن ہی ایسا ہے۔ وہ کسی کو سکھ نہیں لینے دیتی۔ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی پریشانی لاحق رہتی ہے۔ اس سے مفر نہیں ہے۔
زندگی کے ایک مرحلے پر میں ایک استاد سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کے مشورے سے میں نے ایک خاص درس گاہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس استاد کا نام عبدالرحیم تھا۔ علم و فضل اور شخصیت کے اعتبار سے وہ ایک ممتاز استاد تھے۔ ہر جگہ ان کی عظمت کے چرچے۔ لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ میرے لیے وہ زندگی کے بہترین استاد ثابت ہوئے۔
خیر، چند روز استاد عبدالرحیم کے لیکچر سننے کے بعد میں مایوس سا ہوگیا۔ مجھے یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ میں کبھی اپنے محترم استاد کی توقعات پر پورا نہ اترسکوں گا۔ میں کبھی ان جیسا نہ بن پاؤں گا۔
استاد عبدالرحیم نے میرے دل کی بات جان لی۔ شاید میرے ہم جماعت بھی اسی احساس میں مبتلا تھے۔ چنانچہ ایک روز استاد لیکچر درمیان چھوڑ کر دل کی باتیں کرنے لگے۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کا ذکر کیا اور بتایا کہ کئی بار دل برداشتہ ہوئے اور تدریس کا پیشہ چھوڑنے کے ارادے بھی کیے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر کبھی ہم مسکراتے اور کبھی رنجیدہ ہوتے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ استاد عبدالرحیم بھی میری طرح، ہم سب کی طرح، عام سے فرد ہیں۔ انھوں نے کئی بار غلطیاں کی ہیں، ٹھوکریں کھائی ہیں۔ استاد نے ہمیں بتایا کہ زندگی کا معاملہ مقابلے کی دوڑ جیسا ہے، جہاں قدم قدم پر ہم کو ٹھوکریں لگتی ہیں۔ کبھی ہم گرتے ہیں، کبھی بھاگنے لگتے ہیں۔
(۴) وقت لیجیے
یاد رکھئے کہ حوصلہ افزائی کے کسی روایتی اور گھسے پٹے جملے سے کام نہیں چلتا۔’’واہ بھئی آپ نے تو کمال کردیا۔‘‘
یا ’’یار تم تو غضب کے اسمارٹ دکھائی دے رہے ہو۔‘‘
جیسے روایتی اور بے روح جملے کسی کی تعریف میں دل سے کہے جائیں تو بھی ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
اپنی شاعری کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے والٹ وٹمین کو برسوں محنت کرنی پڑی تھی۔ یہاں تک کہ ناکامی کے احساس سے وہ دل برداشتہ ہوگیا۔ تب ایک روز وٹمین کو ایک خط ملا۔
’’جناب عالی!‘‘ خط میں لکھا تھا ’’آپ کی کتاب ’گھاس کی پتیاں‘ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ میرے خیال میں امریکہ میں اس سے زیادہ بذلہ سنج اور دانش افروز شاعری ابھی تک نہ لکھی گئی تھی۔ میں شاندار کیرئیر کے آغاز پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘
جانتے ہیں کہ حوصلہ بڑھانے والا یہ خط کس نے لکھا تھا؟
اس خط پر ایک عظیم امریکی ادیب رالف والڈو ایمرسن کے دستخط تھے!
ایمرسن نے روایتی الفاظ استعمال نہ کیے تھے۔ اس نے اپنا پیغام وٹمین کے دل میں اتارنے کی خاطر اس پر محنت کی تھی۔ وہ نہ صرف نئے شاعر کا حوصلہ بڑھانا چاہتا تھا بلکہ یہ بھی چاہتا تھا کہ یہ کام یادگار انداز میں کیا جائے۔
حوصلہ افزائی بہت آسان ہے۔ محض ایک لفظ سے، ذرا سی تعریف سی، تھوڑی سی گفتگو سے یا محض ایک ملاقات سے آپ یہ مہم سر کرسکتے ہیں۔ تو پھر دیر کس بات کی۔ آج ہی اپنے دوستوں میں سے، عزیزوں، ہمسایوں میں سے ایسے افراد چن لیجیے جن کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیجیے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں