دروازے پر دستک ہورہی تھی۔ میں نے نماز پڑھنے کے بعد سلام پھیرا، دروازہ ابھی تک بج رہا تھا۔ میں نے غصے سے چھوٹی بہن کو پکارا: ’’فریدہ بہری ہو، دروازے پر دیکھو کون ہے؟‘‘
طوعاً و کرہاً وہ اٹھی اور کچھ دیر کے بعد واپس آئی : ’’آپا! کوئی نیلی لڑکی آپ سے ملنے آئی ہے۔‘‘
’’تو آنے دو۔‘‘ میں نے تیزی سے کہا۔ کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سترہ اٹھارہ سال کی نیلے چہرے والی لڑکی میرے سامنے تھی۔ وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔’’بڑی مشکل سے میں نے سیڑھیاں چڑھی ہیں۔ آپ دوسری منزل پر رہتی ہیں نا۔‘‘
فریدہ نے جلدی سے اس کے لیے کرسی بڑھادی۔’’بیٹھو۔‘‘
’’شکریہ! میرے لیے سیڑھیاں چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘ وہ کرسی پر بڑی مشکل سے بیٹھنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کی ایک ٹانگ اکڑ گئی تھی اور دایاں بازو جھول رہا تھا۔
ایک نہ معلوم اندیشے سے میرا دل کانپ گیا۔ کہیں جسمانی طور پر یہ معذور تو نہیں؟
’’میرا نام مصباح ہے، میں معذور ضرور ہوں مگر آپ سے تعلیم کے سلسلے میں کچھ مدد چاہیے۔ میں میٹرک پاس ہوں اور انٹر کی تیاری کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے نفسیات کا مضمون رکھا ہے۔ مجھے پتا چلا تھا کہ آپ بی اے میں پڑھتی ہیں۔ مجھے انٹر نفسیات کے نوٹس اور پریکٹیکل کی کاپی چاہیے۔‘‘
’’میں یہ چیزیں تمہیں دے دوں گی مگر یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تم معذور کیسے ہوئیں؟‘‘
’’باجی دو سال پہلے میں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ رزلٹ کا انتظار تھا۔ میں ایک دوپہر کپڑے استری کررہی تھی۔ اس دوران پتہ نہیں کیسے اچانک شاید استری کی تار کہیں سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ میرا ہاتھ وہاں لگ گیا۔ لمحے بھر میں میرے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی… اگر میں چمٹی رہتی تو شاید بجلی میری جان لے کر ٹلتی۔‘‘
’’پھر چھ ماہ تک میں اسپتال میں رہی۔ ڈاکٹروں نے بے شمار ادویہ اور علاج آزمائے تاکہ میری ٹانگیں اور بازو دوبارہ کام کرنے لگیں۔ میرا منہ دیکھیں ابھی تک خون جمنے سے نیلا ہے۔ میں نے تو آئینہ بھی کئی ماہ بعد دیکھا تھا۔ لگتا تھا میں کوئی اور مخلوق ہوں۔ فزیوتھراپی اور دیگر علاج کے بعد مجھے اسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ حالانکہ میں ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ ابو کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بیٹی کی زندگی دوبارہ دی ہے۔ میرے پانچوں بھائی میری گھر واپسی پر بہت خوش تھے۔ اس اثنا میں میرا میٹرک کا رزلٹ آیا تو میرے آٹھ سو میں سے ساڑھے چھ سو نمبر تھے۔ ایک طرف میرے پڑھنے کا شوق، دوسری طرف میری معذوری، امی نے کہہ دیا کہ بس اتنی تعلیم کافی ہے۔ ایک سال سوچ بچار میں گزرگیا۔ ڈاکٹروں کے علاج معالجے سے زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔ میرا زیادہ وقت دن کو وہیل چیئر پر اور رات بستر پر گزرتا۔ میں اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش کرتی مگر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ کالج میں داخلے کا زمانہ گزرگیا۔ میری زندگی کا ایک سال ضائع ہوگیا۔ میرے آنسو راتوں کو تکیہ بھگودیتے۔ اپنی بے بسی اور مجبوری کا احساس مجھے اندر ہی اندر جلاتا جس کے نتیجے میں تیز بخار نے آلیا۔ ڈاکٹروں کی آمد ورفت شروع ہوگئی۔ میرے اندر پتہ نہیں کیسی جنگ تھی۔ اچھی سے اچھی خوراک اور ادویہ مجھے کمزور کررہی تھیں۔ بخار اترنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ امی نے گھر کے کاموں کے لیے نوکرانی رکھ لی اور ہر وقت میری چارپائی سے لگی اللہ تعالیٰ سے میری صحت یابی کی دعائیں مانگتیں۔ کئی ڈاکٹر آئے اور چلے گئے۔ مجھ پر بخار کی حالت میں ہذیانی کیفیت طاری رہتی اور میرے منہ سے یہی نکلتا: ’’میں کالج جاؤں گی میں پڑھوں گی۔ مجھے جانے دو مجھے جانا ہے۔‘‘ ایک روز ڈاکٹر شفیع نے پوچھا: ’’بیگم رحمان آپ بیٹی کو پڑھنے کیوں نہیں دیتیں؟‘‘ تب امی نے بتایا: ’’ہماری بیٹی نے میٹرک بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ اس کی معذوری کی وجہ سے ہم اسے آگے نہیں پڑھا سکتے۔ بھلا یہ کالج کیسے جاسکتی ہے؟‘‘
’’بچی کو موقع دیں اور معاملہ اس پر چھوڑ دیں۔ یہ خود فیصلہ کرلے گی کہ کیسے پڑھنا ہے۔ اسے کچھ کرنے دیں۔ یہ کچھ نہ کرنے کی گھٹن کا شکار ہے۔ یہ کچھ کرے گی تو آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ میں اسے کچھ ورزشیں بتاتا ہوں۔ یہ اپنی کوشش سے جسمانی معذوری سے نجات حاصل کرلے گی۔‘‘
’’دوسری دفعہ اسپتال سے رخصت ہوتے ہوئے میں خوش تھی۔ اگرچہ میں ابھی وہیل چیئر پر تھی مگر میں وہاں سے ایک نئے عزم سے نکلی تھی۔‘‘
’’گرمیوں کا موسم گزرا۔ کالجوں میں پھر داخلے شروع ہوئے۔ اخباروں میں اشتہار دیکھ کر میں دل تھام کر اداس ہوجاتی۔ سال ختم ہوا۔ میرا دل پودوں میں نکلتی ہوئی ننھی کونپلوں، شاخوں پر نکلے نئے پتوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا۔ ابو نے میرے شوق کے لیے بے شمار پھولوں کے پودوں سے بھرے گملے منگوا دیے۔ میں پھولوں اور پودوں کو حسرت سے دیکھتی۔ میرا دل چاہتا اپنے ہاتھ سے ان کی آبیاری کروں۔ اب میں مشکل سے گھسٹ کر باتھ روم تک جاتی۔ امی میری مدد کرنے کی کوشش کرتیں تو میں سختی سے کہتی، نہیں میں خود جاؤں گی۔ یوں اپنی زبردست قوتِ ارادی سے میں نے گھر سے باہر نکلنے کا تہیہ کرلیا اور نعمان بھائی سے کتابیں منگوائیں اور بستر پر یا وہیل چیئرپر بیٹھ کر مطالعے کے ساتھ الٹے ہاتھ سے لکھنے کی پریکٹس کرتی۔ پتہ نہیں میرا دایاں ہاتھ کب ٹھیک ہوگا یا ہوگا بھی کہ نہیں؟ ‘‘
’’دیر تک بیٹھنے سے میرے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھتیں۔ میں سوچتی پتہ نہیں کون لوگ صحت مند ہوتے ہیں، چین کی نیند سوتے ہیں۔ ‘‘
’’بھائی اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ کوئی نوکری کرتا، کسی کو ابو نے کپڑے کی دکان بنادی۔ بڑے بھائی امریکہ چلے گئے۔ امی گھر کے کاموں سے جتنا وقت ملتا میری ٹانگوں اور بازو پر مالش کرتیں۔ کبھی حکیموں سے دوائی لاتیں، کبھی کسی جراح سے لاتیں۔‘‘
’’امی مجھ سے بہت سی باتیں کرتیں، دین کی، مذہب کی، صبر و استقامت کی کہ دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے، بشرطیکہ خلوص دل سے کی جائیں۔ میں چپ چاپ ان کی باتیں سنتی رہتی، مگر کبھی کبھی چلااٹھتی:
’’امی میری تکلیف کی دوا اس زمین پر کیوں نہیں۔ میں اپنے پاؤں پر نارمل لوگوں کی طرح کب چلوں گی؟‘‘
’’صبر کرو بیٹی ہم تمہارے لیے امکانی حد تک کوشش کرتے رہیںگے۔ تم دعاؤں کے ساتھ اپنی ہمتوں کو آزماؤ۔ رب ِ کریم کا وعدہ ہے وہ کسی کی ہمت سے بڑھ کر امتحان نہیں لیتا اور کوشش کرنے والے کی کوشش رائیگاں نہیں کرتا۔‘‘
’’بس وہ دن اور آج کا دن میری زبان پر درود شریف اور ربِّ زدنی علما کا ورد ہوتا ہے۔ یہ اسی درود اور ورد کا نتیجہ ہے کہ میں اپنے قدموں سے چل کر آپ تک پہنچی ہوں۔ میرا نام یاد رکھیں مصباح ہے۔ میں آپ سے دو گلیاں چھوڑ کر پچاس نمبر مکان میں رہتی ہوں۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔‘‘
’’چلو میں تمہیں ہاتھ پکڑ کر نیچے چھوڑ آؤں۔‘‘
’’نہیں باجی مجھے لمبا سفر طے کرنا ہے۔ آپ کے گھر کی سیڑھیاں اللہ جانے مجھے کتنی بار چڑھنی اور اترنی ہیں۔ آپ سے کچھ سیکھنا اور مددلینا ہے۔ میں نے امی کو آپ کے حسنِ سلوک کے بارے میں بتایا تھا۔ کسی دن ہمارے گھر آئیں۔ امی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔‘‘
’’تم جیسی باہمت لڑکی کی امی بھی یقینا اچھی ہوں گی، مجھے جس دن فرصت ملی ضرور آؤں گی۔‘‘ اس طرح ہفتہ دس دن کے بعد شام کے وقت وہ آجاتی۔ کورس سے متعلق سوالات اس نے ایک ڈائری میں لکھے ہوتے۔ آدھ گھنٹہ مجھ سے پوچھتی اور چلی جاتی۔ اس کے کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہوتے، بالوں میں کنگھی کی ہوتی حتیٰ کہ پاؤں میں پہنے جوتوں پر پالش کی ہوتی۔
اس نے انٹر کا فارم پرائیویٹ بھرا تھا۔ پھر امتحان کا زمانہ آیا۔ اس نے آنا بند کردیا۔ میں نے صدق دل سے دعا مانگی، اس کا امتحانی مرکز زیادہ دور نہ بنے۔ کاش اس کے تمام پرچے اچھے ہوجائیں۔ وہ لڑکی جو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے درود شریف اور ربِّ زدنی علما کا ورد کرتی تو اس کی تکلیف میں کمی ہوجاتی۔ اس کے چہرے پر نیلے دھبے رگوں میں خون منجمد ہوجانے کی وجہ سے تھے۔ بازو بھی ابھی تک نیلا تھا، جب وہ ٹانگ گھسیٹ کرچلتی تو مجھے تکلیف ہوتی۔ مصباح تم ایک بیساکھی کیوں نہیں لے لیتیں۔‘‘
’’کبھی نہیں باجی‘‘۔ وہ عزم سے بولی۔
’’میں پانچ بڑے بھائیوں کی بہن ہوں۔ میرے ابو معزز تاجر ہیں۔ میرا دل کٹ کر رہ جائے گا جب لوگوں کی رحم بھری نگاہیں مجھے دیکھیں گے۔ میں ٹھیک ہوجاؤں آپ میرے لیے دعا کریں۔‘‘
کئی مہینوں تک مصباح نہیں آئی۔ ایک دن ادھر سے گزرتے ہوئے میں نے ان کے گھر کا رخ کیا۔ اس کی امی اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ بچوں کی طرح کھل اٹھی: ’’میرے پرچے بہت اچھے ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ میری فرسٹ پوزیشن نہ آئی تو سیکنڈ ضرور آجائے گی۔‘‘
پھر میرے بی اے کے امتحان ہوئے اور رزلٹ آنے تک میں نے ایک رسالے میں کام شروع کردیا۔ تقریباً دو ماہ بعد مصباح نے میرے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا۔ ’’باجی میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی ہوں۔ اور پریزیڈنسی کالج میں داخلہ مل گیا ہے۔‘‘ وہ اپنی ٹانگ اور بازو کی تکلیف کے باوجود بڑی پرجوش تھی۔
’’بہت خوب تمہاری محنت رنگ لارہی ہے۔‘‘
’’ہاں تعلیم کے علاوہ میں لائبریری سے تاریخی اور دینی کتابیں بھی پڑھتی ہوں۔ جب ہم اچھی کتابیں پڑھتے ہیں تو ہم پر بہت سی مسرتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ کتاب سے دوستی رکھنے والے کبھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے۔‘‘
ستمبر کے مہینے میں، میں نے ایم اے میں داخلہ لیا۔ میں بہت مصروف ہوگئی۔ اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی شام کو آجاتی۔ اس کی ٹانگ اور بازو میں کچھ قوت آگئی تھی۔ سلام کرتے ہوئے وہ اپنا دایاں ہاتھ آگے نہیں بڑھا سکتی تھی۔ اس کی ٹانگ بھی اس کا بوجھ اٹھانے کی اہل نہیں تھی۔ مگر اس کے چہرے پر اب اصلی رنگت آگئی تھی۔ ’’باجی ابو نے مجھے رکشہ لگوادیا ہے، جو صبح چھوڑ آتا ہے اور ڈیڑھ بجے کالج سے لے آتا ہے۔ پرنسپل نے مجھے اجازت دی ہے کہ میں رکشے میں کالج کے کمپاؤنڈ تک آجاؤں۔‘‘
ایم اے کرنے کے بعد میں نے ایک ریسرچ پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کرلی اور شہر سے باہر مجھے جانا پڑا۔ کئی ماہ کے بعد میں گھر آئی تو فری نے بتایا: ’’میری غیر موجودگی میں مصباح دو مرتبہ آئی تھی۔‘‘
’’خدا اسے صحت و تندرستی کے ساتھ علم کی دولت سے مالا مال کرے۔‘‘ میں نے دل میں دعا مانگی۔
اس دن میں حیران رہ گئی۔ مصباح اپنے قدموں سے صحیح طرح چل کر میرے گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر آئی۔ اپنے عزم اور حوصلے سے اس نے اپنی معذوری کو پرے دھکیل دیا تھا۔ اس نے مٹھائی کا ڈبہ پکڑ رکھا تھا۔ باجی وہ چھوٹتے ہی بولی: ’’میں بھی ایم اے سائیکالوجی کروں گی۔ میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے۔‘‘
’’بہت مبارک ہو۔ اللہ تمہیں کامیاب و کامران کرے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’باجی میرے والدین اور بھائیوں نے میرا ساتھ دیا۔ یہ ان کی ذمہ داری تھی مگر آپ نے اگر پہلے دن مجھ معذور لڑکی کو ڈانٹ دیا ہوتا تو میں دوبارہ آپ کے گھر کی سیڑھیاں چڑھنے کی ہمت نہ کرتی، لیکن آپ کی حوصلہ افزائی نے میرے دل میں زندگی سے محبت اور علم کی لگن پیدا کی اور آج میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔‘‘
’’شاباش مصباح اپنی صحت یابی اور یونیورسٹی میں داخلہ ملنے پر ڈبل مبارکباد قبول کرو۔ مجھے تم پر فخر ہے۔’’ویل ڈن مصباح‘‘ کہتے ہوئے پہلی بار میں نے اسے گلے لگالیا۔
——