تحریکی حلقہ کی معروف شخصیت اور مشرقی یوپی کیجانے پہچانے حکیم جناب محمد ایوب صاحب کا ۲۲؍اکتوبر کی شام انتقال ہوگیا۔مرحوم حکیم ایوب صاحب گذشتہ کئی سالوں سے صاحب فراش تھے اور ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔
بلریاگنج کے حکیم صاحب نے ابتدائی تعلیم وہیں کے مکتب میں حاصل کی اور پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہوئے اس کے بعد لکھنؤ سے تکمیل طب کا کورس کرنے کے بعد ۱۹۴۴ء میں بلریاگنج ہی میں مطب شروع کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے زبردست ترقی دی اورآج ایک بڑے اور جدید ہاسپٹل کی شکل میں لوگوں کی خدمت کررہا ہے۔
حکیم ایوب صاحب ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور تقریباً نصف صدی کا طویل عرصہ انھوں نے ایک اچھے کارکن تحریک کی حیثیت سے گزارا۔ اپنے ابتدائی دور میں وہ کمیونزم سے بھی متاثر رہے، جمعیۃ العلماء سے بھی وابستہ رہے اور آزاد ہند تحریک میں بھی شرکت کی۔ لیکن زندگی بھر کا ساتھی انہی نے جماعت اسلامی ہی کو بنایا۔
مرحوم حکیم ایوب صاحب ایک اچھے طبیب کی حیثیت سے معروف تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ ہزاروں خطرناک امراض کے شکار لوگوں کو شفا دی۔ حکیم ایوب صاحب نے اپنے معالجاتی تجربات کو ایک کتاب کی شکل میں بھی ترتیب دیا ہے جس میں عجیب و غریب قسم کے مریضوں کی مرض کی حالت میں تصویریں ہیں۔ پھر صحت یابی کے بعد کی تصویریں بھی اس کتاب میں ہیں۔ مذکورہ کتاب میں ایک بچہ کی تصویر ہے جس کا سر عام انسانی سر سے کئی گنا بڑا ہے اس کے بعد ۱۷، ۱۸ سال کی عمر کا ایک فوٹو ہے جس میں اس کا سر بالکل نارمل ہے۔ مذکورہ کتاب جہاں ڈاکٹروں کے لیے مفید ہوسکتی ہے وہیں عام قارئین کے لے بھی دلچسپی کا سامان ہے۔
حکیم صاحب کی زندگی بڑی مثالی زندگی ہے۔ وہ عام ڈاکٹروں کی طرح علاج کرنے والے ایک حکیم ہی نہ تھے بلکہ ایک اچھے داعی بھی تھے۔ انھوں نے کتنے ہی افراد کو اللہ کے فضل سے جہنم کی آگ سے بچالیا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت و خوشحالی سے بھی خوب نوازا تھا مگر جس قدر انہیں خوشحالی دی تھی اسی قدر وسیع دل اور سخاوت کا جذبہ بھی دیا تھا۔ غریبوں اور ناداروں کی کفالت، حاجت مندوں کی مدد، بے سہاروں کا سہارا بننا اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کی طبیعت تھی۔
حکیم صاحب بڑے جرأت مند اور حق گو انسان تھے۔ جس بات کو وہ حق سمجھتے اسے بلا فکر لومۃ لائم علی الاعلان کہہ دیتے۔ انھوں نے بہت سے نو مسلم افراد اور نوجوانوں کی سرپرستی کی اور ان کی کفالت کی۔ انفرادی زندگی میں ان کا دعوتی کردار اور تحریکی زندگی میں نظم و ضبط کی پابندی قابل تقلید ہے۔ ایمرجنسی کے درمیان جرم بے گناہی میں وہ بھی گرفتار ہوئے تھے۔
مرحوم حکیم ایوب صاحب جامعۃ الفلاح کے بانیاں اور اس کو سینچنے والوں میں سے اہم فرد تھے۔ انھوں نے اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں ہر طرح سے اپنا کردار ادا کیا۔
ان کے جنازے میں عوام الناس کا سیلاب امڈ پڑا تھا جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ اگرچہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا نام ان کی گراں قدر خدمات کے لیے ہمیشہ باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور نیکیوں کے بدلے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔