’’ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔‘‘ فرمان نبوی ﷺ (مؤطا امام مالک)
حیا ایک خاص فطری وصف ہے۔ جو انسان کے اندر بہت سی خوبیوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ مثلاً عفت و پاکبازی، گناہوں سے بچنا، اللہ کی نافرمانیوں پر غیرت کھانا اور حرام سے پرہیز، کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرنا اور سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا، احسان مندی کرنا، حق تلفی نہ کرنا۔دوسروں کی غلطیوں پر چشم پوشی کرنا، سب اسی وصف کے مختلف مظاہر ہیں۔
٭…حیاایسا وصف ہے جسے خود مالک و خالقِ کائنات نے بھی اختیار فرمایا ہے۔ قرآن میں جابجا اس کا تذکرہ ہے اور احادیث میں بھی اللہ کے اس وصف کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عزت اور جلال والے خدا کے آگے جب کوئی بندہ ہاتھ پھیلا کر کچھ بھلائی مانگتا ہے تو وہ اس کو نامراد لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے۔‘‘ (بیہقی)
اللّٰہ کے لیے حیا کے معنیٰ
سید سلمان ندویؒ، سیرت النبی ﷺ جلد ششم میں رقم طرازہیں کہ ’’اللہ کے لیے حیا کے معنیٰ وہی ہوں گے جو اس کی ذاتِ اقدس کے لائق ہیں، مثلاً یہ کہ وہ اپنے بدکار بندوں کو برائی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں۔ اور اس کے آگے جو ہاتھ پھیلاتا ہے اس کو نامراد لوٹاتا نہیں۔‘‘ (صفحہ ۳۸۳)
٭… اللہ کی حیات مثبت حیا ہے اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا :
ان اللّٰہ لا یستحیی ان یضرب مثلاً ما بعوضۃ۔ (البقرۃ:۲۶)
٭… اللہ حق کے اظہار سے نہیں شرماتا۔ فرمانِ نبوی ہے:
ان اللّٰہ لا یستحیی من الحق۔ (بخاری)
٭…حدیث ہے کہ ’’اللہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے اور اسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
غور کیا جائے تو حیا کی یہی صفات مسلمان مردوں میں بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہیں مثلاً اعلیٰ ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوں کے سدِ باب کے لیے کمربستہ ہوناوغیرہ۔
حیا اور نبی کریم ﷺ
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے۔ (بخاری: باب الحیا)
صحاح میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپﷺ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ کبھی کسی کے ساتھ بدزبانی نہیں کی، بازاروں میں جاتے تو چپ چاپ گزرجاتے۔ تبسم کے سوا کبھی لبِ مبارک خندہ وقہقہہ سے آشنا نہ ہوئے۔
٭… بھری محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ متنبہ ہوجاتے۔
٭… آپ ﷺ بچپن سے ہی بہت حیادار تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت اینٹیں اٹھا اٹھا کرلارہے تھے۔ اپنے چچا عباسؓ کے کہنے پر تہبند اتار کر کندھے پر رکھنا چاہا تو حیا کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آیا تو زبان پر تھا میرا تہبند، میراتہبند۔ (بخاری)
٭… بعض مواقع پر آپ ﷺ کو صحابہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺ حیا کی وجہ سے خاموش رہتے۔ جیسے حضرت زینبؓ کے ولیمہ کے روز صحابہ دیر تک بیٹھے رہے۔ آپﷺ کو ناگوار محسوس ہوتا رہا لیکن منع نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی حکم نازل فرماکر ان امور سے منع فرمایا۔
حیا اور صحابہ کرامؓ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے، جن کی تربیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم ﷺ نے کی۔ ان کے فطری اوصاف کو پروان چڑھایا ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تاریخ کے بہترین انسان بناکر اٹھا کھڑا کیا۔
٭… خلفائے راشدین میں حضرت عثمانؓ سب سے زیادہ حیادار تھے۔ اور نبی کریم ﷺ بھی ان کی اس صفت کا لحاظ رکھتے تھے۔ باقی صحابہ کرام کے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو حضرت عثمانؓ کی آمد پر ڈھانپ لیتے تھے کہ ان کی حیا پسند طبیعت پر یہ ناگوار نہ گزرے۔
٭… حضرت عمرؓ کی حیا غیرتِ مردانہ کا روپ رکھتی تھی۔ اللہ کے دین کے بارے میں وہ بہت باغیرت تھے اور بے شمار تاریخی واقعات ہیں کہ جب انھوں نے چاہا کہ کسی دشمن خدا کی گردن تن سے جدا کردیں تو رسول اللہﷺ کے حلم نے اس سے روکا۔
٭… پردہ کے احکام آنے سے قبل حضرت عمرؓ کئی مرتبہ نبی کریمﷺ سے اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ آپؐ کے گھر میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، بہتر ہو کہ امہات المؤمنین پردہ کیا کریں۔
٭… پردے کے بغیر کوئی عورت پہچان لی جاتی تو ان کو ناگوار ہوتا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا۔
٭… ان کی حیا نے انھیں ہر طرح کی بے حیائی، فحاشی اور عریانی سے روکے رکھا۔ معاشرے کو پاکیزہ رکھا۔
٭… حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا۔ وہ احسان کی قدر کرنے والے، سائلین کو نہ لوٹانے والے تھے۔
٭… وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معاشرے میں کسی کو کھلے عام گناہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔
٭…لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی، اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق بات کرنے سے شرما جائیں۔
٭… جابر وظالم حکمرانوں کے سامنے اللہ کی کبریائی نہ بیان کرسکیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ اللہ کے دین کے دفاع میں وہ بہت غیرت مند تھے۔
صحابہ کرامؓ کو حیا نے ان مواقع پر بھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنادیا دیا تھا جہاں دین سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حتی کہ صحابیات بھی سوال کرنے سے نہ شرماتیں اور احسن طریقے سے سوال کرتیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں ہیں کہ دین کا علم حاصل کرنے سے ان کو حیا نہیں روکتی ۔‘‘ (مسلم کتاب الطہارۃ)
٭… اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں۔ اور مسلمان مرد بھی بدرجہ اتم اس صفت سے متصف تھے۔ سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نافرمانی اور فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کرتے تھے۔
مردوں میں غیرت بدرجہ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں کوئی بہن، بیٹی، بیوی اور کوئی عورت بے حیائی کے ساتھ باہر نکلنے کی جرات نہ کرسکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبادہؓ جیسے جری اور غیرت مند انسان معاشرے میں حیا کی ترویج کے لیے موجود ہوتے تھے۔
’روایتی مسلم معاشرے میں حیا‘
آج سے چند سال پیشتر تک ہمارے دیہات اور چھوٹے شہر اگرچہ مکمل دیندار معاشرے کی تصویر نہ تھے لیکن روایتی مسلم معاشرے ضرور تھے۔ مردانہ حیا اور غیرت زندہ تھی۔گھروں کے اندر بھی عورتیں دوپٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں۔
٭… مرد کھانس کر یا آواز دے کر اندر داخل ہوتے اور گھر کی تمام خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کرلیتیں۔
٭… بھائی غیرت مند تھے۔ بہنوں کو بے پردہ ساتھ باہر لے جانے پر معترض ہوتے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجکتے تھے۔ گھروں میں زنان خانے اور مردان خانے الگ تھے۔ عموماً مردانہ بیٹھکیں باہر ہوتی تھیں۔
خاندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہوتا تھا، جس سے سب حیا کرتے تھے اور اس کے سامنے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کام کرنے سے جھجکتے تھے۔
بڑوں کے سامنے حیا کی جاتی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔ ناگوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔
شادی بیاہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے تھے۔ ’دلہن اور حیا‘ لازم و ملزوم تھے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت باپ اور بھائی ملتے تھے ،تو حیا کی وجہ سے اس کو پورا ڈھک دیا جاتا تھا۔ باغیرت باپ اور بھائی دلہن کے ننگے سرپر ہاتھ نہ پھیرتے تھے۔
بسوں میں سفر کرتے ہوئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہوجاتے۔ گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پرٹوکا جاتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کبھی بچپن میں بھی سر سے دوپٹہ اترا تو والد اور چچا کی آنکھوں میں ناگواری کی جھلک نظرآئی۔ گویا مسلمان مرد کی حیاو غیرت، گھروں میں شرم و حیا کی قوت نافذہ تھی۔ ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے۔ جو بیویوں کو بے پردہ باہر لے جانے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے۔ بلکہ صاف کہا جاتا تھا کہ فلاں بہت بے غیرت ہے۔ اس کی بیوی اور بہن ایسے بازاروں میں گھومتی ہے۔
——