یہ سوا گزکا کپڑا نئی تہذیب کے علم برداروں پر خوف بن کر سوار ہوگیا ہے۔۔۔!! بار بار بحثیں اور نئی نئی پابندیاں۔ وہ اس کو ظلم سمجھتے اور جبر سمجھتے ہیں، عورت کی قید سمجھتے ہیں اور اس ’کمزور‘ وجود کے حق میں ’’توانا‘‘ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔
اگر سوال محض اتنا ہو کہ اسلام میں عورت کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ اور اگر وہ حدود عورت کے حق میں ظلم ہیں (معاذ اللہ) تو خود مسلمان عورت احتجاج کرے؟ چاہے وہ اسلامی حدود اور قوانین ہوں، آدھی شہادت کا معاملہ ہو، چار شادیوں کی بحث ہو یہ مسائل ہمیشہ سیکولر دانش دروں کی طرف سے اٹھتے ہیں۔
اگر سوال عورت کے چہرہ کھولے یا نہ کھولنے کا ہے تو یہ فقہا کی تعبیرات کی روشنی میں اختلافی مسئلہ ہے، کیوں کہ اس حوالے سے دونوں طرح کی آرا پائی جاتی ہیں اور چہرہ کھولنا یا ڈھانپنا، مسلمان عورت کا ذاتی معاملہ ہے، لیکن مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں اور حقیقت میں یہ معاملہ چہرہ کھولنے اور سر ڈھانپنے سے بہت آگے کا ہے۔ یورپ کو تو نہ صرف ’پردہ‘ بلکہ ’خاندانی نظام‘ حدود قوانین اور تصور حیا، سب کا مخالف ہے۔ ان کے دانش ور تواسلام کے اسی پورے نظام ہی کے خلاف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ’آزادی‘ حاصل کرنے کے بعد ذہنی غلامی کی خو تو ہم میں بھی اب تک باقی ہے۔ ہم میں سے ایک گروہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ مغرب کی خواتین کی طرح آرائش و زیبائش اور لباس اختیار کر کے ہم بھی ترقی کی دوڑ میں ان کے شانہ بشانہ چل سکتے ہیں۔ ’آزادیِ نسواں‘ اور ’مساوات مرد و زن‘ کے نعرے ہمارے روشن خیالوں کو بھی بھلے لگتے ہیں۔
عورتوں کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ وہ گھر سے باہر نکلیں یا نہ نکلیں؟ یہ اسلامی سوسائٹی کے متنازع امور ہیں ہی نہیں، کیوں کہ احکامات بہت واضح ہیں۔ عورتیں ضرورت کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہیں۔ ملازمت کرسکتی ہیں۔ مخلوط سوسائٹی سے بچتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے سماج کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ ہم اگر مخلوط سوسائٹی سے بچنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے پھر خواتین کے ادارے خواتین ہی چلائیں گی۔ پھر اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ استاد، ماہرین طب، ادارتی صلاحیتوں کی حامل خواتین پیدا کرنا ہوں گی اسلامی سوسائٹی کو۔ اگر سماج میں عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے جائیں اور ہم چاہیں کہ امراض نسواں کے لیے خواتین ڈاکٹر ہوں، تعلیمی اداروں میں بہترین خواتین اساتذہ ہوں تو ظاہر ہے عورت کے گھر میں بیٹھنے سے تو اسلامی معاشرے کی تشکیل و تکمیل نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلم سماج اور اسلام پسندوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس کی عملی مثال پیش کریں۔ عورتیں اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر کے ہی ادارے سنبھالنے کی اہل ہوں گی اور صلاحیتوں کے حساب سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی ’’صنفی تخصیص‘‘ نہیں رکھی ہے۔ طب، تعلیم، تجارت کسی بھی شعبے میں اسلام نے خواتین کے عمل دخل کو ناپسند نہیں کیا ہے، بلکہ بعض اصحاب رسولؐ کی اس خواہش پر کہ عورتیں گھروں سے نہ نکلیں، مسجدوں میں نہ آئیں ضرب لگائی گئی اور اللہ کے رسولؐ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کے گھروں میں آنے سے نہ روکو۔‘‘ خود ازواج مطہرات نے جنگی خدمات انجام دیں اور علم سیکھا اور سکھایا۔
اب اس آزادی کو بنیاد بنا کر ہم نظریاتی اعتبار سے یہ دعویٰ کر دیں کہ اسلام میں عورت پوری طرح آزاد ہے اور حقیقت میں وہ آزاد ہے۔ اسلام کوئی پابندی ہی نہیں لگاتا عورت کی ان سرگرمیوں پر… اور ایک مسلمان عورت اپنے نظام معاشرت میں گویا ان طریقوں کی پوری پیروی کرسکتی ہے۔ رہا مغرب کے اعتراضات کا معاملہ تو مغرب کا اپنا الگ ایک تصور آزادی ہے جو ہمارے نزدیک اس کے استحصال کا ذریعہ ہے۔ کیوں کہ مغربی تہذیب مادی ترقی کے پردے میں عورت پر ذمہ داریوں کا دوہرا بوجھ ڈال رہی ہے اور مخلوط سوسائٹی ایک جذبابی ہیجان بپا کیے رکھتی ہے اور عورتوں کو گھر کی ’قید‘ سے آزادی دلا کر مردوں کے لیے لطف و لذت کا جو سامان پیدا کیا جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشرے میں بن باپ کے بچوں کی نرسریاں قائم کرنا پڑتی ہیں جن کی سرپرستی حکومت اور ریاست کرتی ہے۔ اس لیے ہم اس آزادی کے خلاف ہیں۔
اسلام کسی مادی ترقی کا مخالف نہیں البتہ وہ کسی ترقی کی آڑ میں ’’پاکیزہ اور صالح تمدن‘‘ کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اسلام اور مغربی تہذیب کے تمدنی اصولوں اور نظام معاشرت میں اصولی اختلافات ہیں۔ اسلامی سوسائٹی میں عورت سماج کی ترقی میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ ضرور لے گی مگر صنفی کمالات سے معاشرے میں ہیجان برپا نہیں کرسکتی۔ اور اہل مغرب اسی مخلوط تمدن کے متمنی ہیں جو یورپ کا خاصہ ہے کیوں کہ ان کا گمان ہے کہ شرم اور حیا کا تعلق دل سے ہے۔ گویا یہ دلوں کے بادشاہ ہیں۔ خواہ شرم و حیا کی کوئی جھلک ہمارے کردار میں نظر نہ بھی آئے، پھر بھی وہی معتبر ٹھہریں گے۔
کون نہیں جانتا کہ انسانی تہذیب کا تو آغاز ہی شرم و حیا کے ساتھ ہوا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھانپنے لگے کہ یہی ’معراج آدمیت‘ ہے اور یہی ’شرفِ انسانیت‘۔
دنیا بھر کے کروڑوں انسان جن کا نصف شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، وہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب کو دنیا پر مسلط کرنے کی کوششوں پر خاموش نہیں بیٹھ سکتیں۔ وہ تہذیب جہاں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ نشہ کا رسیا معاشرہ جہاں خود کشی اور جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ’’گلوبل ورلڈ‘‘ اسی تہذیب کے غلبے کا خواب ہے۔
ہم خواتین کو کیوں کر پراڈکٹ بننے دیں، جن سے جی این پی میں اضافے کا ریٹ ناپا جائے۔ ہمارے پاس حیا، حجاب، ستر کی حدود، غض بصر کے عظیم احکامات ہیں جو نہ صرف سماج کو فکری پاکیزگی عطا کرتے ہیں بلکہ ہر فرد کو جواب دہ بناتے ہیں۔ حیا اسلامی معاشرے کی صرف پاکیزہ صفت ہی نہیں بلکہ اس کا ’’شعار‘‘ ہے اور احکامات ستر و حجاب نہ صرف نسوانیت بلکہ انسانیت کی شرف و عزت کے ضامن ہیں۔
مغربی کلچر کے بہت نقصانات انسانیت نے بھگت لیے۔ اس لیے اکیسویں صدی ان شاء اللہ حیا اور حجاب کی صدی ہے۔lll