حیا کا تصور اور اسلامی ہدایات

عذراء جمال طیباتی

اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یعنی بری باتوں سے انسان کا دل تنگی محسوس کرے اور وہ انھیں چھوڑ دے۔ حیا وہ جذبہ ہے جو انسان کو اچھائیوں پر ابھارتا اور برائیوں سے باز رکھتا ہے۔ اسلام میں حیا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا۔ (یعنی اتنی شرم نہیں کرنا چاہیے)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو، حیا تو ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
ایک حدیث مبارکہ میں حضور پاکؐ نے حیا کو سراپا خیر قرار دیا۔ (ریاض الصالحین)۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک روز اپنے صحابہؓ سے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اور پوری طرح اس بات کا حق ادا کرو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبیﷺ! الحمدللہ ہم اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اس طرح نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں حیا کا صحیح حق ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے (یعنی کان، آنکھ، زبان،منہ) کی نگہبانی کرے اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں ہے (یعنی شرمگاہ) کی حفاظت کرے۔ موت اور ہلاکت اس کے پیش نظر رہے اور جو شخص آخرت کی آرزو رکھتا ہو تو پھر وہ دنیا کی زیب و زینت (میں محو نہیں ہوتا بلکہ اس) سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے اور جو ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا صحیح معنوں میں حق ادا کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ میں پردہ نشین لڑکیوں سے زیادہ شرم تھی۔ جب آپ کو کوئی بات ناپسند ہوتی تو ہم آپؐ کے تیور پہچان لیتے تھے۔ شرم و حیا ہی سے ایمان کی تروتازگی اور بہار ہے۔ یہ مسلمان کا قیمتی زیور ہے اور ایسا زیور ہے کہ جس کی چمک دمک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا ہے۔
سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:’’حیا انسان کا وہ فطری وصف ہے جس سے اس کی بہت سے اخلاقی خوبیوں کی پرورش ہوتی ہے۔ عفت اور پاکبازی کا دامن، اسی (حیا) کی بدولت ہر داغ سے پاک رہتا ہے۔ درخواست کرنے والوں کو محروم نہ پھیرنا اسی وصف کا خاصہ ہے۔
آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مروت اور چشم پوشی اسی کااثر ہے اور بہت سے گناہوں سے پرہیز اسی وصف کی برکت ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو شاہراہوں میں سے ایک کو اپنے لیے چننے کا پورا پورا اختیار دیا ہے۔ ایک شاہراہ ایمان و یقین، سجائی اور راست بازی، استقامت و حق گوئی، شرم و حیا اور اخلاقی خوبیوں کی ہے جو انسان کو جنت تک لے جاتی ہے۔ اس کے برعکس دوسری شاہراہ فحش و منکرات اور ایسی بہت سی برائیوں کی ہے جس کا اختتام جہنم پر ہوتا ہے۔ حیا کا وصف انسان میں بچپن ہی سے فطری ہوتا ہے۔ اگر اس کی مناسب تربیت کی جائے تو یہ نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ بڑھتا جاتا ہے اور اگر بری صحبت مل جائے اور اچھے لوگوں کا ساتھ نہ رہے تو چلابھی جاتاہے۔ اسی لیے اسلام نے اس کی مناسب نگہداشت کے لیے کچھ رہنما ہدایات ہمیں دی ہیں۔ جن میں درج ذیل اہم ہیں:
لباس اور حجاب
’’اے اولادِ آدم! اللہ نے تمہیں لباس سے اس لیے روشناس کرایا کہ تم اپنے جسموں کو ڈھانپ سکو اور یہ تمہارے لیے موجبِ زینت ہو۔‘‘ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی رہیں۔‘‘ (مسند احمد)
لباس کے ذریعے جسم کو چھپانے کے ساتھ ساتھ مردوں اور عورتوں کے لیے ستر کی حدود بھی متعین کی گئی ہیں۔ شرعی اصطلاح میں جسم کے اس حصے کو ’’ستر‘‘ کہتے ہیں جس کا چھپانا فرض ہے۔ مرد کے لیے ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ستر قرار دیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے: ’’جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ چھپانے کے لائق ہے اور جو کچھ ناف کے نیچے ہے وہ چھپانے کے لائق ہے۔‘‘ (دارقطنی عن ابی ایوب انصاریؓ)، عورت کے لیے ستر کی حدود زیادہ ہیں۔ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کو لوگوں سے چھپائیں۔ اس حکم میں باپ، بھائی اور تمام رشتہ دار مرد (سوائے شوہر کے) شامل ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے: ’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اوریوم آخرت پر یقین رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے۔ یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی کلائی کے نصف حصے پر ہاتھ رکھا۔‘‘ (ابن جریر) موطا امام مالکؒ میں ہے کہ حضرت حفصہ بنت عبدالرحمنؓ، حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں وہ ایک باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے اس کو پھاڑ دیا اور ایک موٹی اوڑھنی ان پر ڈال دی۔
مومن عورت کے لباس ہی کا حصہ حجاب ہے۔حجاب، ستر سے بڑھ کر ہے جو نامحرم مردوں سے لازم ہے۔ شریعت کی رو سے نامحرم مرد وہ ہیں جن کے ساتھ کسی عورت کا نکاح جائز ہے۔ اس کے علاوہ وہ مرد جن کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے غیر محرم یا نامحرم ہیں۔ محرم یا نامحرم کی تفصیل سورۃ النور کی آیات 30-31میں موجود ہے۔ حجاب کیا ہے؟اس کی وضاحت سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۹ یوں کرتی ہے: ’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے یہ مقصود ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے۔‘‘
حضرت ابنِ عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جب کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنے چادروں کے دامن لٹکا لیا کریں اور چہروں کو ڈھانپ لیا کریں۔ (تفسیر ابن جریر، جلد۲۲، ص۲۹)۔ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ ایک مسلمان عورت کے لیے کیا چیز بہتر ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ مسلمان عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ نہ مرد کو دیکھے اور نہ مرد اس کو دیکھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں رسول اللہﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ پس جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے اوپر ڈال لیتیں اور جب وہ گزرجاتے تو منہ کھول لیتی تھیں۔(ابوداؤد)
غضِ بصر
اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں ’’دل‘‘ کو بہت اہمیت دی ہے، فرمایا: ’’وہی دراصل کامیاب ہوا جو قلبِ سلیم لے کر آیا۔‘‘ (ق:۳۳) حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے اور جب توبہ کرتا ہے تو مٹ جاتا ہے، لیکن اگر توبہ نہیں کرتا اور دوبارہ گناہ کرتا ہے تو دوسرا دھبہ پڑجاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ دلوں کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ نگاہوں کو نیچا رکھا جائے اور دلوں میں آنے والے خیالات کی حفاظت کی جائے۔ اسی لیے حکم دیا گیا: ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ نظریںنیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘ (النور:۳۰،۳۱) آنکھیں بے حیائی دیکھنے سے جھینپتی ہیں۔ اگر تھوڑی تھوڑی بے حیائی کی جرأت بڑھتی رہے گی تو رفتہ رفتہ انسان پکا بے حیا بن جائے گا۔
آواز اور گفتگو
غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالم گلوچ، چغلی، غیبت اور جھوٹ سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث نبوی ؐ ہے: ’’انسان کوئی بات کرتاہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، مگر درحقیقت وہ بدی ہوتی ہے جس کے بدلے وہ ستر برس کی راہ تک آگ میں گرجائے گا۔‘‘ (ترمذی) مردوں سے بات کرتے ہوئے خواہ وہ ملازم ہوں، ڈرائیور، دکاندار یا اساتذہ ہوں۔ ہدایت ہے کہ ’’دبی زبان‘‘ سے بات نہ کرو، جس سے دل میں (بدنیتی) کی بیماری ہو کہ وہ تم سے کچھ امید وابستہ کرلے۔ بات کرو تو سیدھے سادھے طریقے سے۔ ‘‘ (الاحزاب:۳۲) غیر مردوں سے گفتگو اور دل رجھانے کے انداز اور لوچ دار آوازیں اہل ایمان عورتوں کا شیوہ نہیں۔
خوشبو کا استعمال
اسلامی فلسفہ حیات ایک مسلمان عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ خوشبو لگا کر نامحرم مردوں میں سے گزرے یا محفل میں شریک ہو۔ کیونکہ خوشبو ایسی گفتگو ہے جس کے لیے زبان کا ہونا ضروری نہیں۔ حدیث رہنمائی کرتی ہے کہ جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان میں سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔ (ترمذی)
’’جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں جائے تو خوشبو نہ لگائے۔‘‘ (مسلم، موطا)
اظہارِ زینت کی ممانعت
زینت، جس میں زیورات، سامانِ آرائش، ملبوسات اور بال شامل ہیں کے نامحرم مردوں کے سامنے اظہار کی ممانعت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۳)
تخلیہ اور لمس
کسی مرد اور عورت کو تنہا نہیں ہونا چاہیے خواہ وہ قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ نبی اکرمؓ نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح اجنبی مرد و عورت کو ایک دوسرے کو چھونے سے روکا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی نامحرم شخص تنہائی میں کسی عورت سے ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو۔‘‘ (جامع ترمذی)
دورِ جدید کا فتنہ
موجودہ دور کی خصوصیت یہی ہے کہ اس نے عورت سے حیا کا تصور چھیننے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تعلیم، ترقی، مساوات مردوزن کے نام پر سماج میں بلند اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ اور اس میں مخلوط تعلیمی نظام کے علاوہ فحش لٹریچر اور حیاباختہ تفریحی پروگرام اور لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ میل جول ہے۔
یہ اس دور کا ایسا فتنہ ہے جس نے سماج سے حیا کے تصور کو مٹا دیا ہے اسلامی اقدار اور ہدایات اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور بچنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں