حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ بے حد خوبصورت تھیں۔ اس وجہ سے آپ کا لقب زہرا ہوا۔ جس کے معنی سفیدی اور حسن کے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ شکل و صورت، عادت، چال ڈھال اور بات چیت کرنے میں رسول کریم ﷺ سے بہت مشابہ تھیں۔ آپ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔ جب حضور ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آپؐ پر ایمان لائیں اور ان کے ساتھ ہی حضرت سیدہ فاطمہؓ اپنی بڑی بہنوں کے ساتھ حضورؐ پر ایمان لے آئیں۔
حضرت فاطمہؓ بچپن سے ہی نہایت سمجھ دار اور نیک تھیں۔ آپ حضورؐ سے بے انتہا محبت کرتی تھیں اور حضورؐ بھی آپ کو دل و جان سے پیار کرتے تھے اور آپ کی دلداری کا ہمیشہ خیال فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘حضرت فاطمہؓ جب بڑی ہوئیں تو حضور ﷺ نے آپ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ کردیا۔ آپؓ کی شادی نہایت ہی سادہ طریقے سے انجام پائی۔ حضرت علی ؓ کی مالی حالت اس وقت ٹھیک نہیں تھی۔ اس لیے آپ کوبہت سی تکلیفوں کا سامناکرنا پڑا۔ آپ تنہا گھر کا سارا کام کاج کرتیں، خود چکّی پیستی تھیں، پانی بھرتیں اور شوہر کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ اپنے گھر بھی آپ کو اکثر فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر آپ کبھی شکایت نہ کرتی تھیں۔
ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے اپنے ایک دوست ابن عبدالواحد سے فرمایا: میں تم سے رسول اللہﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے متعلق ایک بات بتاتا ہوں، فاطمہؓ نے اتنی چکی پیسی ہے کہ ہاتھوں میں گٹھے پڑگئے اور پانی کی مشک اٹھاتے اٹھاتے گردن پرنشان پڑگئے۔ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ کے پاس کچھ لونڈی غلام آئے۔ حضرت علیؓ نے فاطمہؓ سے کہا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاؤ اور ایک خادم مانگ لو۔ فاطمہ گئیں مگر وہاں ہجوم بہت تھا، مل نہ سکیں۔ اگلے روز رسول خدا خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا ضرورت تھی؟ فاطمہؓ تو چپ ہوگئیں حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھوں میں گٹھے اور مشک اٹھاتے اٹھاتے گردن پر نشان پڑگئے ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ حضورؐ کے پاس کچھ لونڈی غلام آئے ہیں تو میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ حضورؐ کے پاس جاؤ اور کام کاج کرنے کے لیے کسی کو مانگ لو۔ تاکہ اس تکلیف سے بچ جاؤ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ! تقویٰ اختیار کرو۔ فرائض الٰہی ادا کرو۔ اپنے خاندانی طریقے پر چلو اور رات کو سوتے وقت ۳۳ بار سبحان اللہ ، ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: ’’میں اللہ اور رسول ﷺ سے ہر حال میں خوش ہوں۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی عادت اور سیرت و صورت اور گفتگو سے اس قدر مشابہت کسی کی نہیں دیکھی جتنی حضرت سیدہ فاطمہؓ کی تھی۔ جب وہ آپؐ کے پاس آتی تھیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کا ہاتھ یا ماتھا چومتے اور اپنے پاس بٹھاتے تھے اور جب آپؐ ان کے پاس جاتے تھے تو وہ بھی کھڑی ہوجاتی تھیں اور آپ کا ہاتھ چومتیں اور آپؐ کو احترام سے بٹھاتی تھیں۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی آخری بیماری کے زمانے میں ہم سب بیویاں آپؐ کے پاس تھیں کہ اس اثنا میں سیدہ فاطمہؓ آئیں۔ ان کی رفتار میں ہو بہوآنحضرت ﷺ کی رفتار تھی۔ جب ان پر حضورؐ کی نظر پڑی تو آپؐ نے فرمایا۔ آؤ بیٹی مرحبا! پھر ان کو آپؐ نے بٹھایا۔ اس کے بعد چپکے سے ان کے کان میں کچھ فرمایا جس کی وجہ سے وہ رونے لگیں، آپؐ نے ان کو رنجیدہ دیکھا تو دوبارہ آہستہ سے (ان کے کان میں) کچھ فرمایا۔ وہ اچانک مسکرانے لگیں۔ بعد کو میں نے دریافت کیا بتاؤ آنحضرت ﷺ نے تم سے آہستہ سے کیا فرمایا تھا؟ حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ ہاں بتاتی ہوں پہلی مرتبہ آپؐ نے فرمایا تھا کہ دنیا سے میرے کوچ کا وقت قریب آگیا ہے لہٰذا تم اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا۔ کیونکہ میں تمہارے لیے پہلے سے جانے والوں میں سب سے بہتر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی۔ جب آپؐ نے میرا رنج دیکھا تو دوبارہ آہستہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی اور گھر والوں میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکر ملو گی۔ یہ سن کر مجھے اطمینان اور مسرت ہوئی۔
حضرت فاطمہؓ کے چار اولادیں ہوئیں۔ حسنؓ، حسینؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ، آپؓ جب تک زندہ رہیں حضرت علیؓ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ حضرت فاطمہؓ کو حضور نبی کریم ﷺ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی۔ جب آنحضرتؐ کا انتقال ہوگیا تو حضرت فاطمہ ؓ پر رنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آپ کی والدہ ماجدہؓ کا سایہ پہلے ہی سر سے اٹھ چکا تھا بہنیں بھی دار فانی سے کوچ کرچکی تھیں۔ ایک باپ کے دم سے ہی دنیا باقی تھی سو وہ بھی اجڑ گئی۔ آپؓ کا دکھ بے انتہا تھا۔ آپ اس سانحہ عظیم کے بعد صرف چھ ماہ اور زندہ رہیں۔ لیکن اس مدت میں کسی نے آپ کے ہونٹوں پر تبسم نہ دیکھا۔ ۳؍رمضان ۱۱ ہجری کو اس دارِفانی سے کوچ فرمایا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی وہ پیش گوئی جو آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے کی تھی کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی آکر مجھ سے ملوگی، پوری ہوگئی۔
یہ تھی اللہ کے پیارے رسولﷺ کی پیاری بیٹی کی زندگی۔ جنھوں نے اپنے لیے معمولی غذا اور سادہ زندگی ہی کو پسند فرمایا۔ اس لیے کہ وہ آخرت کی شیدائی تھیں۔ ان کی نظریں اخروی زندگی میں ملنے والی نعمتوں اور راستوں پر تھیں۔ اس لیے انھوں نے ہمیشہ رہنے والی زندگی کی نعمتوں کے مقابلے میں اس چند روزہ زندگی کی نعمتوں و فائدوں کو ٹھکرادیا تھا۔ کیا ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہیں؟