میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھی رم جھم بارش کا نظارہ کررہی تھی۔ اپنے اس خستہ حال جھونپڑے سے دور بانس اور پھوس کے سائبان تلے آبنوسی کرسی پر بیٹھے میں ایک سرد شام کا حصہ تھی۔ وہ بہت خوبصورت سرد سی شام تھی۔ اس خستہ حال جھونپڑے کے نیچے بسر ہونے والی میری معصوم سی زندگی — میری معصوم سی مسرتیں — جب بادل خوش آواز بارش کی سوغات لاتے تو وہ بارش بہت خاموش، پرسوز اور مسحور کن ہوتی تھی۔ میں بارش میں اسی آبنوسی کرسی پر بیٹھی اپنی آنکھوں میں مزین خوابوں میں مست و مگن رہا کرتی تھی۔ کتنا خوبصورت تھا وہ سماں — بارش کے ٹپکتے قطروں میں مسرور کن نغمہ — جو بہت دل آویز اور مسحورکن ہوتا تھا۔ بارش کے ان قطروں میں امید اور زندگی کی رنگینیاں پوشیدہ ہوتی تھیں۔ سبز رنگ کی آمیزش والے سیاہ قالین کی دراڑوں سے اٹھنے والی ٹھنڈک دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی تھی۔ دل کی ایسی ٹھنڈک جس کو جسم کا ہر حصہ محسوس کرتا تھا۔ یہ ٹھنڈک جسم کی ہر رگ سے ہوکر دوبارہ دل تک پہنچ جاتی تھی۔ فرحت و نشاط سے لبریز دل میں پیدا ہونے والی سرد آہ بے اختیار نکل آئی — ’’آہ!! سبزہ زار کی آغوش میں میرا خستہ حال جھونپڑا، اور اس جھونپڑے کے باہر میرا کھلا برآمدہ، کتنی حسین تھی میری زندگی!!— کتنا سکون تھا میری اس پاکیزہ فضا میں !! — قدرت کا وہ دلکش نظارہ!!— ‘‘
اپنے بانس پھونس کے سائبان تلے اور گیاہستان کے دامن میں کمزور جھونپڑے کے آس پاس برسنے والی بارش میں گم ہوکر میں اپنے حسین خوابوں کے بارے میں سوچا کرتی تھی۔ فرحت بخش بارش میں انبساط سے بھری زندگی! ایک معیاری زندگی! خوبصورت اور حسین ترین زندگی!
ایک مرتبہ پھر سرد آہ بھر کے میںنے اپنے ہاتھوں کو بارش کے آگے پھیلادیا۔ جواہرات بکھیرتے بادلوں سے ایک موتی میری ہتھیلی پر آگرا — بہت خوبصورت قدرتی تراشیدہ، بناوٹی اور مصنوعی آلائشوں سے پاک — میں اسے چھوکر محسوس کرنا چاہتی تھی۔
لیکن یہ کیا ؟! وہ پاک صاف ننھی زندگی چھوتے ہی غائب ہوگئی۔ میرے اطراف جو کچھ بھی تھا سب ختم ہوگیا۔ سب کچھ ختم ہوگیا— !
اب میں اپنے نفیس ترین کمرے میں رکھی ساگوان کی مضبوط کرسی پر بیٹھی ہوں جس پر ماہر دستِ ہنر کی نزاکتوں سے بھرپور نقاشی ہے۔ اپنی دائیں طرف نصب کھڑکی سے باہر چلچلاتی دھوپ میں وقت کی رفتار کے ساتھ دوڑ لگاتے لوگ ہیں۔ نفیس دیواروں سے ڈھکا میرا کمرہ اے سی کی ٹھنڈک سے بھرا ہوا ہے اور میں بارش میں بھیگے ہوئے اپنے اس جھونپڑے کو اس نفیس ترین دیوار میں آویزاں گلاس فریم میں مقید دیکھ رہی ہوں۔
جدید زیبائش و آرائش سے مزین میرا یہ محل، بانس پھونس کے سائبان تلے آبنوسی کرسی پر بیٹھ کر دیکھا گیا ایک سنہرا خواب تھا۔ اس کمزور دیواروں کے درمیان صرف میری ضروریاتِ زندگی کا سامان تھا۔ میں اپنی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل چاہتی تھی۔ انہیں تکمیل تک پہنچانے کے لیے میںنے بھی وقت کی رفتار کے ساتھ دوڑ لگائی — اوریہاں تک دوڑتی چلی آئی کہ ’آج‘ میرے پاس میری ضروریات، میری خواہشات اور خواب وخیال سے بڑھ کر لوازماتِ زندگی موجود ہیں۔ لیکن میرے پاس فرحت و نشاط سے لبریز دل میں پیدا ہونے والی ’آہ!‘ نہیں ہے۔ ’آج‘ جدید فانوسوں سے منور چھت تلے نفیس قالین پر رکھی ساگوان کی کرسی پر بیٹھے میں سوچ رہی ہوں :
’’ہم خواہشات کی تکمیل کو پرسکون زندگی کیوں سمجھتے ہیں؟!‘‘
’’ہم زر وجواہر کو معیاری زندگی کیوں سمجھتے ہیں؟‘‘
’’ہم قیمتی گاڑیوں، حسین محلات اور اعلیٰ لباس کو خوبصورت زندگی کیوں سمجھتے ہیں؟‘‘
اپنی آنکھوں کے سامنے ساکت اس تاریک شام کا اصل لطف تو مجھے ’آج‘ محسوس ہوا ہے۔ وہ رم جھم بارش، سبز رنگ کی آمیزش والا سیاہ قالین، سبزہ زار تلے خستہ حال جھونپڑا، بارش کا پرسوز نغمہ اور ٹھنڈک سے بھر پور شام کے محسوسات تو ’آج‘ کی پیداوار ہے۔ ان سرد لمحات کا اصل لطف تو میں ’آج‘ محسوس کررہی ہوں۔ اس وقت تو میں بارش میں بدمست اپنے خوابوں کے بارے میں سوچا کرتی تھی۔ اس وقت وہ جھونپڑا اور آبنوسی کرسی میرے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی تھی۔ وہ بارش کا پانی تو میری محدود ضروریاتِ زندگی پر استہزا کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ میں اپنی ضروریاتِ زندگی کو ناکافی سمجھتی تھی۔ میں زمانے کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی تھی۔ میں وقت کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔ اور آج — ؟؟
میری خواہشات سے بڑھ کر اسباب میرے پاس موجود ہیں۔ میں زمانے کے ساتھ کھڑی ہوں۔ میں نے وقت کو ہرا دیا ، لیکن — میں پرمسرت اور مسحور کن شام سے محروم ہوں۔ اگر ہمارے پاس ہماری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے والےاسباب موجود ہیں تو ہم زندگی ’جی‘ سکتے ہیں اور اگر ہمیں ہماری خواہشات سے بڑھ کر وسائل مہیا ہیں تو ہم زندگی ’گزارنے‘ والے بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ’آج‘ علم ہوا۔ نفیس لباس میں ملبوس میرے جسم میں مقید اداس اور ویران دل بے اختیار کراہنے لگا۔
’’ہمیں زندگی میں جن حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ محض ہمارا امتحان ہوتے ہیں۔ صرف ضروریاتِ زندگی کا سامان ہونا سزا نہیں ہوتی، یہ صرف آزمائش ہوتی ہے اور آزمائش کے محدود ایام ہوتے ہیں۔ اگر ہم شکر گزاری کرتے ہیں تو ان محدود وسائل میں بہت لطف اور برکت ڈال دی جاتی ہیں اور اگر ہم ناشکری کرتے ہیں تو ہمیں اس سے بڑھ کر بہت اعلیٰ اور معیاری اسبابِ حیات اور وسائل فراہم کردیے جاتے ہیں جوہماری آرزوؤں کے مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن یہ وسائلِ حیات ہماری ناشکری کی سزا ہوتی ہے جسے معیارِ زندگی سمجھاجاتا ہے۔
آنے والے کل کے بارے میں ہم نہیں جانتے اور گزرا ہوا کل بھی ہمارے اختیار سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ہمارے پا س’ آج‘ ہوتا ہے ، صرف ’آج‘۔ اس آج میں ہمیں بہتر طریقے سے جینا چاہیے اور زندگی جینے کا بہترین طریقہ جو آج میری سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی بے جا خواہشاتِ نفس کے پیچھے اندھا دھند نہ بھاگا جائے، اپنی تمام نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور ناشکری سے بچا جائے۔ جو ملا ہے اس کی قدر کی جائے، جو نہیں ملا اس پر خوبصورت صبر کیا جائے۔
اپنی بے جا خواہشاتِ نفس کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی جستجو میں، میں اپنا ’آج‘ بھی بطورِ سزا ’گزار‘ رہی ہوں۔ تمام آسائشیں مہیا ہوجانے کے بعد میرے اندر ایک خاموش آروز ہے:
مرتی ہوں خاموشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو