خاندان

حمیرا خالد

’’آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں ماما! مجھے یہ پروپوزل پسند نہیں۔‘‘ ماریہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سہمی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔
ماں نے مزید گفتگو کرنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے یہ کہتی ہوئی اٹھ گئیں کہ ’’بیٹا سوچ کر جواب دیا جاتا ہے۔ بول کر سوچنے والے ہمیشہ پچھتاتے ہیں۔… تمہاری پسند اور مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا… اس کا اطمینان رکھو۔‘‘
سالک کے رشتہ میں اگرچہ کوئی قابلِ اعتراض بات تو نہ تھی۔ اچھی خاصی صورت شکل، تعلیم یافتہ اور خاندان بھی جانا پہچانا تھا۔ لیکن یہ ڈھیر سارے بہن بھائی اور ددھیال اور ننھیال کے رشتہ دار… ان سب سے کون نبٹے گا! بس یہی بات ماریہ کو ہضم نہیں ہورہی تھی! لیکن یہ ماما کو کیسے سمجھائے۔ کیسی بے تکی بات ہے۔ ایسی احمقانہ دلیل کیا وہ ماں کو دے سکتی ہے، انھی خیالوں میں غلطاں تھی کہ ثانیہ نے اسے ٹہوکا دیا ’’کیا مسئلہ ہے، کچھ ہم بھی تو جانیں۔‘‘ بہن نے شکل پر بارہ بجتے دیکھے تو سب کچھ سمجھ گئی۔ ماما کی زبانی تفصیل تو اسے بھی خوب معلوم تھی۔ ساری الجھن جان کر ثانیہ نے زور کا قہقہہ لگایا۔ ’’بہت خوب! تو گویا آپ کو یہ پریشانی ہے کہ اتنی بڑی فیملی میں اپنی من مانی کیسے کریں گی…!‘‘
’’من مانی کی بات نہیں…‘‘ ماریہ نے چڑ کر کہا’’ثانیہ تم سمجھتی کیوں نہیں، ماما کو دیکھا ہے اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اب تک غیروں کی طرح ہیں۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے دس دفعہ دیکھتی ہیں۔ دادی جان کو ناپسند نہ ہو، دادا جان کے معمول میں کوئی رکاوٹ نہ آئے… وغیرہ وغیرہ۔‘‘
اس کے تصور میں ماما کی تصویر گھوم گئی۔ متفکر اور پریشان چہرہ…
’’ماما! آپ دادی جان سے ڈرتی کیوں ہیں…؟‘‘ اور ماما چونک اٹھتیں اور خفگی سے اسے جھڑک دیتیں۔ وہ دیکھا کرتی کہ جب کبھی دادی جان اچانک ان کے بیڈ روم میں آجاتیں اور بڑی بے تکلفی سے ماما، پاپا کے بیڈ پر لیٹ کر چاروں طرف گہری نظروں سے کمرے کا جائزہ لیا کرتیں، یوں جیسے نظروں ہی نظروں میں کونے کونے کی ویڈیو بنا رہی ہوں، اس دوران ماما جلدی جلدی بکھری ہوئی چیزیں سمیٹ رہی ہوتیں اور سانس روکے ان کے جانے کی منتظر دکھائی دے رہی ہوتیں، کہ دادی جان بات تو کم ہی کیا کرتیں البتہ اپنے تاثرات سے بہت کچھ کہہ دیا کرتیں تھیں، اور پھر دادا جان کے ساتھ اچھے اور برے تبصرے ہوا کرتے۔ ان کے بڑھاپے کی یہ بہترین مصروفیت تھی کہ یوں آمنے سامنے بستر پر لیٹے سارا وقت کہانیاں بناتے رہتے یا فرضی تانے بانے بنتے رہتے۔ ان کے خیال میں اڑتی چڑیا کے پرگننے والے ہوشیار لوگوں میں سے وہ ایک تھے۔
’’لگتا ہے دلہن کے میکے سے کوئی آرہا ہے۔‘‘ وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ’’تیاری تو یہی بتارہی ہے، بچے بھی خوب صاف ستھرے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ اور ساتھ ہی ماما کی چلت پھرت پر خصوصی دوربین نصب ہوجاتی۔ یہی توشیش رہتی کہ ماما پتا نہیں کیا کیا خاطر مدارات کرڈالیں گی۔ ماریہ کو یہ بات سمجھ میں نہ آتی کہ آخر مہمانوں کی آمد یا ان کی تواضع پر ان کو اعتراض کیوں ہوتا ہے!
ماما تو خاموشی سے اپنے کام سے کام رکھتیں اور حتی الامکان کوشش کرتیں کہ کسی کے آنے سے دادا دادی کے معمولات میں کوئی خرابی نہ آئے۔
اسے اپنی ننھیال والوں کا فنکشن یاد آیا۔کس طرح ماما نے چپکے چپکے تیاری کی۔و ہ بہت خوش تھیں، مگر اپنی خوشی کا اظہار بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ کسی کی آمد کی چاپ بھی سن لیں تو روز مزہ کے کھانے میں خوشبوؤں کی مہک کچھ زیادہ ہی آنے لگ جاتی، اور اگر کسی تقریب میں ماما کو جانا ہوتا تو دادی جان کی طبیعت خراب ہوجایاکرتی۔ یہاں تک کہ پاپا کو جانے سے روک دیا جاتا۔ ماما صبرکا گھونٹ پی کر رہ جاتیں۔
’’کتنا اچھا ہوتا اگر ماما انڈی پینڈنٹ ہوتیں… یوں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے انھیں سب کے ناگوار رویے توبرداشت نہ کرنا ہوتے۔‘‘ وہ سوچ رہی تھی کہ کل کو اسے بھی اسی طرح گھٹ گھٹ کر جینا ہوگا۔ اس نے دبے لفظوں میں اپنے خدشے کا اظہار ثانیہ سے کرہی دیا:
’’ثانیہ تم نے ماما کو نہیں دیکھا کیا…!‘‘ اس نے اشارہ دینا ہی کافی سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ ثانیہ بھی ضرور تائید کرے گی۔ لیکن ثانیہ نے بات کاٹتے ہوئے اس کے لاشعور میں چسپاں اس سارے نقشے ہی کو الٹ کر رکھ دیا۔’’بے وقوف‘‘ ثانیہ نے جھلا کر کہا ’’یہ سارے مسئلے اور ماما کی یہ مظلومیت جو تمھیں دکھائی دے رہی ہے، اس کی وجہ ہماری جوائنٹ فیملی نہیں بلکہ مختصر فیملی کا ہونا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘ ماریہ نے حیرانی نے بہن کو دیکھا۔
’’بھئی ہمارے گھر تھا ہی کون … بے چارے دادا، دادی جان… اور ان کی اولاد ایک بیٹا اور ہم دو پوتیاں… نہ ان کا کہیں آنا جانا… کریں تو کیا کریں! پاپا گھر میں اور نہ ہم … ایک ماما ہی رہ جاتی ہیں، ان پر نظر نہ رکھیں تو کیا کریں!‘‘
’’میری بہن سوچو ذرا، جب گھر میں بہت سارے لوگ ہوتے ہیں تو کیمرہ ایک جانب نہیں رہتا، بلکہ سب طرف گھومتا رہتا ہے۔ یوں کسی ایک پر زیادہ نکتہ چینی کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ خالہ امی کا کنبہ دیکھا ہے؟‘‘ ثانیہ نے توجہ دلائی ’’اتنے بیٹے اور بہوئیں ہیں کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ ہر عمر کے بچے الگ دھماچوکڑی مچائے رکھتے ہیں۔ گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی دھندے میں مصروف ہی رہتا ہے۔‘‘
ماریہ کو ذہن کی گرہیں کھلتی محسوس ہورہی تھیں۔ ثانیہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی، ماما کتنی اکیلی تھیں، کوئی بھی تو ان کا ہاتھ بٹانے والا نہیں تھا۔ شاید اسی لیے گھر کی فضا بوجھل بوجھل تھی۔ خالہ امی کے گھر کتنا مزا آتا تھا۔ ماموں، ممانیاں، ہر عمر کے بہن بھائی، چھوٹے بڑے سب آپس میں گھل مل کر رہ رہے تھے۔ ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ، بحث مباحثہ، ڈانٹ ڈپٹ… سب کے سب آپس میں لگے رہتے۔ یہاں پریشانی کسی ایک کی تھی نہ خوشی تنہا تھی۔
اسے ماما کے الفاظ یاد آئے ’’بیٹا رشتے میں خوبی کی بات یہی ہے کہ سالک اکیلا نہیں… بہن بھائیوں کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔ بھرے پرے کنبہ میں پلنے والے بچے دینا لینا جانتے ہیں۔ خدمت لینا ہی نہیں خدمت کرنا بھی آتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو بہت سکھ ملے گا تجھے۔ یہ بہن بھائی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ یہ تو شاک آبزرور ہوتے ہیں، زندگی میں آنے والی ساری پریشانیاں اور حادثے بڑھ کر تھام لیتے ہیں۔ مشکل سے نکالنے والے اللہ کے بعد اگر کوئی ہیں تو یہی، ورنہ انسان احساسِ تنہائی سے ہی ادھ موا ہوجائے۔‘‘
اس کے اندر ایک تقابلی جنگ جاری تھی، جس میں ماما کا فلسفہ اور تجربہ غالب ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ ماما کی فراست اور تجربے کے مقابلے میں واقعی وہ ابھی بچی تھی جب ہی تو ایسے کاموں کے لیے اللہ نے ولی کی شرکت کو ضروری رکھا ہے۔ آج اس پراللہ کی حکمتوں کے راز کھل رہے تھے۔
’’ماما میں آپ سے فیصلے کا یہ حق چھیننا نہیں چاہتی…‘‘
اس نے ماں کے فیصلے پر مطمئن ہوکر مہر ثبت کردی اور ماما کو سکینت اور اطمینان کے فرحت بخش احساس نے محسوس کردیا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146