خاندانی نظام کی بحث سے جڑا ہوا ایک سوال گزشتہ دنوں محترمہ ڈاکٹر عابدہ شریف نے اٹھایا کہ آج مغربی سماج میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے والدین پر اس کے باقاعدہ حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے ایسے بچے کی ولدیت وراثت کے حقوق صرف ماں سے ثابت ہوتے ہیں، یعنی بچے کا باپ اس کی پرورش، اخراجات اور وراثت وغیرہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں بدکاری کے مواقع عام ہو جانے کی وجہ سے مائیں، یک طرفہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے ایسے بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کر کے پھینک دیتی ہیں۔ تو کیا حالیہ معاشرتی بگاڑ کے تناظر میں ایسے بچوں کی شناخت کو والد کے ساتھ نتھی کر کے اسے بچے کی جملہ ذمہ داریوں میں شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے؟
اس کے جواب میں عرض کیا گیا کہ ثبوت نسب کے لیے شریعت کا واضح قانون یہ ہے کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، اس کے لیے رشتہ نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں شریعت میں اہم تر مصلحت کو زیادہ اہمیت دینے کا اصول اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کے ادارے کی مجموعی مصلحت ایسے بچوں کی انفرادی مصلحت سے مقدم ہے۔ زنا سے نسب ثابت مانا جائے تو خاندان کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تجویز کہ ایسے بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے ان کی ولدیت قانونا مان لی جائے، مسئلے کا حل نہیں۔ بچے کا قتل یقیناً گناہ اور جرم ہے، لیکن کیا زناکار عورت اس لیے ایسا کرتی ہے کہ اس کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں بنا ہوا؟ وہ تو اس لیے کرتی ہے کہ اس سے زنا ثابت ہو جائے گا اور یا تو سزا ملے گی یا بدنامی ہوگی اور زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ایک ایسا ماحول جس میں زنا بھی ایک جرم رہے اور ماؤں کو سزا بھی ملتی رہے، لیکن مائیں بچے کے حق زندگی کا احترام کرتے ہوئے پھر بھی اسے زندہ رہنے دیں، انفرادی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ اس میں معاشرتی قوانین کو یک طرفہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور یہ تجویز کہ چونکہ زنا عملا عام ہو گیا ہے، اس لیے اس کو قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے، تو بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔
مثال کے طور پر بچوں کی پرورش والد اور والدہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی معاشرے میں خود غرضی اتنی عام ہو جائے کہ والد اور والدہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے روادار نہ ہوں تو کیا ریاست کو یہ قرار دینا چاہیے کہ آج سے بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری میں شامل نہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ ریاست ایک ’’مسئلے‘‘ کے طور پر یقیناً ان بچوں کی پرورش اور کفالت کا انتظام کرے گی جن کے والدین اس ذمہ داری سے فرار اختیار کیے ہوں، لیکن ایک معاشرتی واخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اس اصول کو کالعدم قرار نہیں دے گی کہ بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہے۔
یہی نوعیت ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ ان کو قانونی لحاظ سے نکاح کے تحت پیدا ہونے والے بچوں جیسا قرار دینا ولدیت کے رشتے کے ساتھ وابستہ تقدس اور زنا کے ساتھ وابستہ تنفر کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ یقینا ایسے بچوں کا کوئی قصور نہیں اور ان کے ساتھ ازروئے شریعت، عام سماجی معاملات میں کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا، لیکن ولدیت کی شناخت حاصل نہ ہونا ایسے ہی ایک تقدیری معاملہ ہے جیسے مثلا کچھ بچوں کا معذور پیدا ہو جانا۔ یہاں یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایسے بچوں کو انفرادی طور پر جس محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں اور خاندانی نظام کی مجموعی مصلحت میں سے کس کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ مغربی معاشرے بچوں کے انفرادی حقوق کو جبکہ اسلامی شریعت خاندان اور معاشرے کی مجموعی مصلحت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ہم بطور مسلمان اسی ترجیح کو قبول کرنے کے پابند ہیں جو شریعت نے قائم کی ہے۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ولدیت کے رشتے کے علاوہ، باقی معاشرتی وقانونی امور میں اگر ایسے بچوں کے ساتھ ناانصافی یاامتیاز برتا جاتا ہے تو اس کی اصلاح میں مذہب واخلاق اور ریاست کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ اس پہلو کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور دراصل اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم وتربیت اور ریاستی اقدامات سے ایسا ماحول بنا دیا جائے جس میں ایسے بچوں کے ساتھ باقی تمام افراد کی طرح ہی برتاو کیا جائے تو ولدیت کی شناخت کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں رہے گا۔ اسی طرح مثال کے طور پر بچے کے اخراجات زانی پر بطور تعزیر اجتہادا لازم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد حق ولدیت پر نہیں، تعزیر کے اصول پر ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر زنا اور نکاح کو ایک ہی قانونی درجے پر لے آیا جائے تو اس کے مضمرات واضح طور پر مہلک اور تباہ کن ہوں گے۔