خاندان اور انسان

شاہنواز فاروقی

انسان کی زندگی میں خاندان کے ادارے کی اہمیت کسی بھی دوسرے ادارے سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا ایک بڑا خاندان ہے، اور خاندان ایک چھوٹی سی دنیا ہے۔ اس چھوٹی سی دنیا کے اپنے سورج، چاند اور ستارے ہیں، اس کی اپنی آب و ہوا اور فضا ہے، اس کے اپنے موسم ہیں، اس کا اپنا ماحول ہے… اور یہ تمام چیزیں انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
عربوں میں نسب کی اہمیت بنیادی تھی۔ عرب معاشرے میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ کوئی شخص آزاد ماں باپ کی اولاد ہے یا غلام ماں باپ کی۔ عربوں کے لیے نسب اتنا اہم تھا کہ وہ انسانوں کیا گھوڑوں کے بھی نسب نامے تیار کرتے تھے اور ان کو نسل در نسل یاد رکھتے تھے۔ انسانوں میں سب سے اعلیٰ نسب انبیاء و مرسلین کا ہوا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیا و مرسلین کے نسب کی خود حفاظت فرماتے ہیں۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نسب پر فخر کیاہے اور کہا ہے کہ میرے نسب میں اوّل سے آخر تک کہیں زنا نہیں ہے، ہر طرف نکاح ہی نکاح ہے۔ لیکن یہ خاندان کی اہمیت کا جینیاتی Genetic پہلو ہے۔ خاندان کی اہمیت کا روحانی، نفسیاتی اور سماجی پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن بچے کے ماں باپ اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
انسان کی شخصیت پر خاندان کے ادارے کے غیر معمولی اثر کی یہ سب سے بڑی مثال ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ خاندان اتنا اہم ہے کہ انسان خدا اور مذہب کے ساتھ بھی خاندان کے وسیلے سے رابطے میں آتا ہے۔ کسی خاندان کا جو مذہب اور جو معتقدات ہوتے ہیں بچے کا مذہب اور اس کے معتقدات بھی وہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان مالک بھی خاندان ہی کے زیر اثر منتخب کرتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف مذہب تک محدود نہیں، انسان کی خواہشات ، آرزوئیں اور تمنائیں بھی خاندان کی خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ بچہ تہذیب و ثقافت بھی خاندان ہی سے ورثے میں پاتا ہے۔ اس کا ذوق و شوق اور عادات و خصلات بھی ’’عموماً‘‘ خاندان ہی کی دین ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کا ذہن تجزیاتی یا تنقیدی نہیں ’’تقلیدی‘‘ ہوتا ہے۔ بچہ ہر چیزتقلید ہی کے ذریعے سیکھتا ہے۔ یہ اس کی ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی مجبوری ہے۔ بچہ اگر ابتداہی سے تجزیاتی اور تنقیدی روش اختیار کرے تو وہ کچھ بھی سیکھنے کے قابل نہیں ہوسکے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تقلید بچے کے لیے علم اور تفہیم کا سب سے بڑا بلکہ واحد ذریعہ ہے، اور تقلید کے حوالے سے خاندان کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ اس لیے کہ بچے کی ابتدائی زندگی کا ۹۰ فیصد خاندان کے زیر اثر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خاندان کا روایتی اسلامی تصور کیا ہے؟
بلا شبہ خاندان کا ادارہ شوہر اور بیوی کے تعلق سے وجود میں آتا ہے، لیکن یہ محض خاندان کی ابتدا ہے۔ اس سے اگلے مرحلے پر خاندان میں دادا دادی ہیں، نانا نانی ہیں، تایا، چاچا، ماموں ہیں، خالائیں اور پھوپھیاں ہیں، عم زاد یعنی کز نز ہیں۔ یہ خاندان کا دوسرا دائرہ ہے۔ خاندان کے تیسرے دائرے میں دور دراز کے عزیز اور رشتے دار ہیں۔ خاندان میں چوتھا دائرہ پڑوسیوں پر مشتمل ہے۔ اسلام میں پڑوس کا تصور یہ ہے کہ چالیس گھر دائیں جانب اور چالیس گھر بائیں جانب … ان تمام لوگوں کی خبر گیری مسلمان کے لیے لازم ہے۔ ہماری محبت، توجہ اور وسائل میں معاشرے کے کمزور طبقات، مہمانوں اور مسافروں کا بھی حصہ ہے۔ ہم ان لوگوں کو کچھ دیتے ہیں تو ان پر کوئی احسان نہیں کرتے، ہم انہیں ان کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو ان کے وسیلے سے ہمیں عطا کیا گیا ہوتا ہے۔ یہ خاندان کا پانچواں دائرہ ہے۔ خاندان کا چھٹا دائرہ امت کے تصور پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دراصل پوری امتِ مسلمہ ایک خاندان ہے۔ پوری امت کے دکھ درد ہمارے ہیں، اس کی تمام خوشیاں ہماری ہیں، اس کے تمام وسائل ہمارے اور ہمارے تمام وسائل اس کے ہیں۔ خاندان کا ساتواں دائرہ یہ ہے کہ پوری انسانیت ایک خاندان ہے۔ ہم سب حضرت آدم اور اماں حوّا کی اولاد ہیں اور اس حوالے سے ایک دوسرے پر ہمارا حق ہے۔ یہ خاندان کے ادارے کا وہ تصور ہے جس پر مسلمان صدیوں تک عمل کرتے رہے ہیں اور ان کے تربیتی نظام میں اس تصور کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ غور کیا جائے تو خاندان کے اس تصور میں بے پناہ روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی گہرائی ہے۔ بے پناہ روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی تنوع ہے۔ بے پناہ روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی وسعت ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر نشو نما پانے والی شخصیت کی روح ہی نہیں دل و دماغ بھی بڑے ہوجاتے ہیں اور اس میں ایک صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ تصور خاندان کا محض ایک تصور ہے خاندان کا جو اب مروج ہے اس سے ’’انسانیت‘‘ غائب ہے، اس میں ’’امت‘‘ موجود نہیں، اس میں معاشرے کے کمزور طبقات، مہمانوں اور مسافروں کے لیے کوئی جگہ نہیں، اس میں پڑوس ایک غیر ضروری چیز ہے، اس میں دور پرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حیثیت ’’اضافی‘‘ ہے، اس میں تایا، چاچا، ماموں، خالہ، پھوپھی اور عم زاد ایک ’’بوجھ‘‘ ہیں۔ اس میں دادا دادی اور نانا نانی ایک ’’مجبوری‘‘ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کا تصور شوہر، بیوی اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے۔ مغربی دنیا میں صورت حال اور بھی ہولناک ہے۔ وہاں کہیں شوہر ہے تو بیوی نہیں، اور بیوی ہے تو شوہر نہیں۔ یہ Single Parent خاندان ہے۔ مغرب میں یہ بھی غنیمت محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں کروڑوں بچے ایسے ہیں جنہوں نے نہ اپنی ماں کو دیکھا ہے نہ باپ کو۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب انسانیت کی تعلیم و تربیت کیسی روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی عسرت اور تنگ دستی میں ہو رہی ہے اور ہم اپنی نئی نسلوں کو کیا ’’ورثہ‘‘ منتقل کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری معاشرت میں خاندان کے ادارے کی اس صورت حال کی وجہ کیا ہے؟
ایک زمانہ تھا کہ شادی کے لیے لڑکے کا انتخاب کرتے ہوئے تین چیزیں دیکھی جاتی تھیں:
(۱) دین داری
(۲) خاندان یعنی نسب
(۳) روزگار
لیکن فی زمانہ لڑکے کی صرف ایک اہلیت اہم رہ گئی ہے اور وہ ہے اس کی معاشی حیثیت۔ لڑکے کی معاشی حیثیت جتنی مستحکم ہوگی، دین داری اور شرافت و نجابت کا سوال اتنا ہی غیر متعلق ہوتا چلا جائے گا۔
کسی زمانے میں شادی کرتے ہوئے لڑکی میں چار چیزیں دیکھی جاتی تھیں:
(۱) دین داری
(۲) خاندان
(۳) ہنر مندی اور سلیقہ شعاری
(۴) خوب صورتی
لیکن اب صرف لڑکیوں کی خوش شکلی اور ان کے خاندان کی معاشی صحت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب متوسط خاندان کی لڑکیاں بھی فخر سے کہتی ہیں کہ ہمیں تو انڈا بنانا بھی نہیں آتا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے لوگ کس طرح کا خاندان بناسکتے ہیں اور بچوں کو کس طرح کی تعلیم و تربیت فرا ہم کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور مسئلہ اہم ہے۔ فی زمانہ فلموں اور ڈراموں کے زیر اثر شادی کے سلسلے میں ’’محبت‘‘ وغیرہ کا بڑا شہرہ ہے۔ لیکن ہماری نئی نسل کو محبت توکیا ہو، کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔ محبت لینے کے بجائے ’’دینے‘‘ پر یقین رکھتی ہے اور ہمارے یہاں محبت کی اکثر شادیاں اسی لیے ناکام ہوتی ہیں کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کا اصرار دینے کے بجائے ’’لینے‘‘ پر ہوتا ہے۔ توجہ کی سطح پر بھی، نفسیاتی سطح پر بھی، جذباتی سطح پر بھی اور ذہنی سطح پر بھی۔ تجزیہ کیا جائے تو لینے پر اصرار کرنے والی نفسیات مفاد پرستی کی نفسیات ہے، اور مفاد پرستی محبت کی ضد ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146