خاندان میں ساس، بہو اور شوہر کے فرائض

مولانا عمر اسلم اصلاحی

ساس اور بہو بھی ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کے تعلقات کی سازگاری کا خاندانی نظام پر نہایت سازگار اثر پڑتا ہے اور ان کے تعلقات کی ناسازگاری پورے خاندانی نظام پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
ہمارے موجودہ سماج میں دو طرح کے خاندانی نظام پائے جاتے ہیں۔ ایک علاحدہ خاندانی نظام ہے جس میں آدمی شادی کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ دوسرے افرادِ خاندان سے الگ ہوکر زندگی گزارتا ہے اور دوسرا مشترکہ خاندانی نظام ہے جس میں ایک ماں باپ کی تمام یا بیش تر نرینہ اولاد ایک ہی ساتھ رہتے اور ایک ہی انتظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ ایشیا کی آبادی کے معتد بہ حصہ میں یہی دوسرا خاندانی نظام رائج ہے۔ یہاں صرف وہی افراد علاحدہ خاندانی نظام رکھتے ہیں جو تجارت یا ملازمت سے وابستہ ہیں اور روزانہ ان کے لیے گھر آنا اور وہاں سے اپنے کام پر جانا دشوار ہے۔ باقی سارے لوگ مشترکہ خاندانی نظام سے جڑے ہوتے ہیں۔ اسی لیے عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ شہروں کا نظام بالعموم علاحدہ خاندانی نظام کا ہے اور دیہات کا مشترکہ۔
علاحدہ خاندانی نظام میں ساس بہو کا کوئی جھگڑا نہیں کیوں کہ اس میں دونوں کے اجتماع کی صورتیں بہت کم پیدا ہوتی ہیں اور اگر پیدا بھی ہوتی ہیں تو عملاً دونوں میں سے کسی ایک کی حیثیت مہمان کی ہوتی ہے، اس لیے اختلاف و تصادم کی نوبت خال خال ہی آتی ہے۔ اس کے برعکس مشترکہ خاندانی نظام کا ایک بہت بڑا مسئلہ ساس بہو کے تعلقات ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ دونوں طرح کے نظاموں کے کچھ فوائد بھی ہیں، لیکن اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ مشترکہ خاندانی نظام کی جتنی برکتیں ہیں، اس سے کہیں زیادہ زحمتیں ہیں۔ اس کی ایک برکت یقینا یہ ہے کہ گھریلو عصمت وعفت عام طور سے خارجی یلغار سے محفوظ رہتی ہے۔ اور دوسری برکت یہ ہے کہ پریشانی اور مصیبت کے وقت افرادِ خاندان ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور برکتیں ہیں، لیکن وہ بہت زیادہ قابلِ لحاظ نہیں ہیں۔ لیکن اس کی کئی زحمتیں ہیںجو بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتی اور ہر ایک کے امن و سکون کو غارت کرتی ہیں۔
ایک زحمت تو یہ ہے کہ دوسرے گھر سے آنے والی لڑکی شوہر کی عدم موجودگی میں داخلی حملہ سے بہت زیادہ محفوظ نہیں رہتی اور بسا اوقات وہ انتہائی قدم اٹھالینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
دوسری زحمت یہ ہے کہ اگر گھر کا کوئی ایک فرد یا چند افراد اتنا کمالیتے ہوں کہ باقی افراد کی بھی کفالت ہوجائے تو یہ باقی افراد تلاش معاش کے لیے بے چین اور سرگرم دکھائی نہیں دیتے بلکہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کی کمائی پر جیتے ہیں وہ زیادہ بے دردی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔
تیسری زحمت یہ ہے کہ نندیں عام طور پر اپنے حقوق تو جتاتی ہیں لیکن اپنے فرائض سے یکسر چشم پوشی کرتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک ان کے ماہ و سال مائیکے ہی میں گزرتے ہیں۔ اس مشترک خاندانی نظام میں شادی کے بعد نندوں کی بھی اور اگر وہ اولاد والی ہوجائیں تو ان کی اولاد کی بھی خدمت بالعموم بھائیوں کی بیویوں کی ہی ذمہ داری تصور کی جاتی ہے۔
چوتھی بڑی زحمت یہ ہے کہ اس خاندان کی قوامیت کا مسئلہ بھی انتہائی پیچیدہ رہتا ہے۔ عام طور پر بڑے بھائی یا مستقل طور پر گھر ہی پر بے کار پڑے رہنے والے بھائی کو گھر کا قوام سمجھا جاتا ہے، اس وجہ سے بھائیوں کی بیویوں کے درمیان سرد جنگ چھڑی رہتی ہے۔
اور سب سے بڑی زحمت یہ ہوتی ہے کہ معاشی لحاظ سے کمزور بیٹے کی طرف ماں کا فطری جھکاؤ ساس اور بہوؤں کے درمیان ایک مستقل تصادم کو جنم دے دیتا ہے اور پھر پورا گھر جہنم زار ہوجاتا ہے۔
حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی ایک نظام کو قبول کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ہر شخص اپنی اور اپنی اولاد و ازواج کی ذمہ داری خود اٹھائے اور علاحدہ خاندانی نظام کے تحت زندگی گزارے۔ البتہ اپنے وسائل کی حد تک اپنے دوسرے کمزور بھائیوں کی مدد بھی کرتا رہے اور والدین کے حقوق سے ہرگز غافل نہ ہو۔ ان کے سلسلہ میں اپنے فرائض پوری طرح ادا کرتا رہے۔ اگر اس نظام کے تحت والدین کے حقوق کی پوری طرح ادائیگی ہو تو والدین اپنی اولاد کے لیے رحمت ثابت ہوں گے اور ان کی پیرانہ سالی بھی خود ان کے لیے عذاب نہیں بننے پائے گی۔
قوام کا فرض
علاحدہ خاندانی نظام میں بھی والدین کے ساتھ ہونے کا امکان زیادہ ہے بلکہ اگر والدین اولاد کے سہارے کے محتاج ہوں تو ان کی خدمت کا حق ہی ادا نہیں ہوسکتا جب تک والدین ساتھ نہ ہوں۔ بایں صورت اس بات کا اندیشہ ہے کہ ساس بہو کا جھگڑا برقرار رہے اس لیے اس پہلو کی قدرے وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
اس نظام میں توافق اور سازگاری کے لیے ساس اور بہو کے علاوہ اس مرد کا کردار بھی بہت اہم ہوگا جس کے ساتھ اس کی بیوی، اولاد اور والدین ہیں بلکہ سب سے اہم کردار اسی مرد کا ہوگا کیونکہ اسے اس گھر کے قوام کی حیثیت حاصل ہے۔ ایسے مردوں کے مطلوبہ کردار کی جانب یہ آیت واضح ہدایت دیتی ہے:
’’اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادئیے اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم باہم دیگر طالب مدد ہوتے ہو اور ڈرو قطعِ رحم سے۔ بے شک اللہ نگرانی کررہا ہے۔‘‘
اس آیت میں اگر ایک طرف عورت کو کم زور سمجھ کر اس کے حقوق کی پامالی سے روکا گیا ہے تو دوسری طرف رشتہ رحم کے تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے کی تلقین بھی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نہ تو رفیقۂ حیات اور اولاد کی بے جا ناز برداری والدین کی حق تلفی پر مجبور کرنے پائے اور نہ اولاد و ازواج پر والدین کی ستم رانی کی کوئی شکل پیدا ہونے پائے۔ ظاہر ہے کہ اس قوام کو اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ تمام افرادِ خانہ کے حقوق ادا ہوں اور کسی کو کسی پر زیادتی یا اس کی حق تلفی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس سلسلے میں اگر اسے درشتی سے بھی کام لینا پڑے تو اس کا یہ اقدام نہ تو اولاد و ازواج سے بے اعتنائی پر محمول کیا جائے گا اور نہ والدین کی اطاعت سے گریز پر ہی کیوں کہ اس کے فرائض میں اگر یہ بات شامل ہے کہ :
’’ان (عورتوں) کے ساتھ معقول طریقے کا برتاؤ کرو۔‘‘ (النساء: ۱۹)
تو یہ بھی اس کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ:
’’ والدین کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۔‘‘
(بنی اسرائیل: ۲۳)
اور قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ:
’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یہ بڑی عمدہ بات ہے، جس کی نصیحت اللہ تمھیں کررہا ہے۔‘‘ (النساء: ۵۸)
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان قانون عدل کے مطابق فیصلہ کرو۔ اللہ قانون عدل پر عمل کرنے والوں کو ہی دوست رکھتا ہے۔‘‘ (المائدہ:۴۲)
قرآن کے اس حکم کی اللہ کے رسول ﷺ نے اور وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے اور خدائے رحمان عزوجل کے سیدھے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ سیدھے ہیں انصاف کرنے والے وہ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اور اہل و عیال کے معاملے میں اور جن کے وہ والی اور نگراں بنائے جائیں ان سب کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو اپنے خاندان کا دفاع کرے جب تک کہ وہ دفاع کے سلسلے میں گناہ کا مرتکب نہ ہو۔‘‘
اس دفاع میں خارجی حملہ سے دفاع کے ساتھ ساتھ داخلی حملہ سے دفاع بھی شامل ہے۔ چنانچہ اہلِ خانہ کے ساتھ کسی خارجی حملہ یا ناروا سلوک کی صورت میں جس طرح قوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے روکے اور اہلِ خانہ کا دفاع کرے، اسی طرح اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اگر اولاد و ازواج کی طرف سے والدین پر زیادتی ہورہی ہے تب بھی اور والدین کی طرف سے اولاد و ازواج پر زیادتی ہورہی ہے تب بھی وہ مدافعت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔
امام نوویؒ نے اس حدیث کی وضاحت اس طرح کی ہے:
’’جہاں تک بیوی بچوں کی طرف سے مدافعت کا تعلق ہے تو یہ تو واقعی واجب ہے۔‘‘
ان آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو بحیثیت قوام تمام افراد خانہ کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کر نا ہے خواہ کسی کے لیے اس کا یہ رویہ قابلِ قبول ہو یا نہ ہو۔ اگر گھر یا خاندان میں یہ عدل نہ ہو تو اس کے نظام کو ابتری اور انتشار سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔
ساس کا فرض
دوسرا اہم کردار ساس کا ہے۔ ساس کا فرض یہ ہے کہ جس طرح وہ اپنی صُلبی اولاد کو خصوصی عنایت کا مستحق سمجھتی ہے اسی طرح صلبی اولاد کی لازمۂ حیات یعنی بہو کو بھی اپنی خصوصی عنایت سے نوازے۔ یہ لڑکی بہو بن جانے کے بعد اب پرائی لڑکی نہیں رہی، بلکہ اس کے بیٹے کی زندگی میں داخل ہوکر اس کو راحت و سکون اور تحفظ فراہم کرنے والی ایک گراں قدر رکن خانہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ وہ گھر کے قوام کی معاون خصوصی بن کر آئی ہے۔ جس طرح بیرونِ خانہ کے امور کا انچارج اس کا بیٹا ہے اسی طرح امورِ خانہ کی ذمہ دار بہو ہے۔ باہر سے کما کر لانے کی ذمہ داری اگر اس کے بیٹے کی ہے تو اس کمائی کی حفاظت و نگرانی کی ذمہ داری اصلاً بہو کی ہے۔ اس لیے خاندانی نظام میں اسے یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ساس کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ دو جواں سال ابھی ابھی ایک دوسرے سے وابستہ ہوئے ہیں۔ ان کی اس وابستگی میں طوفان کا زور ہے اور طوفان سے ٹکرانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ جن درختوںمیں لچک نہیں ہوتی وہ آندھی کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور ٹوٹ جاتے یا اکھڑ جاتے ہیں، لیکن جن درختوںمیں لچک ہوتی ہے وہ آندھی کے آگے جھک جاتے ہیں اور طوفان کا زور ٹوٹنے پر پھر اسی آن بان اور شان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ساس کو بھی چاہیے کہ طوفان کا زور ٹوٹنے تک ہر بات اور ہر ادا کا نوٹس نہ لے۔ ضروری نہیں کہ بیٹا اور بہو کے درمیان کی بے پناہ محبت کا لازمی نتیجہ والدین سے دوری یا ان کے سلسلے میں لاپرواہی ہی نکلے۔ بلکہ اگر حکمت سے کام لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ ان دونوں کے درمیان کی بے پناہ محبت کل والدین کے لیے مزید راحت کا سبب بنے۔
اسی طرح ساس کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بہو ابھی عمر کی اس منزل میں ہے جہاں اس کی ضروریات اور لوازم حیات دیگر افرادِ خانہ سے زیادہ ہیں۔ ان ضروریات و لوازم کی تکمیل میں اگر دوسرے افرادِ خانہ سے زیادہ اس پر رقم صرف ہورہی ہے تو ابھی یہ اس کا حق ہے بس خیال صرف اس بات کا رکھنا چاہیے کہ یہ ضروریات و لوازم ناجائز حدوں میں داخل نہ ہونے پائیں۔ یقین رکھنا چاہیے کہ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد خود بہو کا احساس جاگ جائے گا، اور خود سمجھ جائے گی کہ گھر کے شاندار اور روشن مستقبل کے لیے اسے اپنی خواہشات پر کس حد تک لگام دینے کی ضرورت ہے۔ محض ان ضروریات و لوازم کی وجہ سے بدگمانی، تجسس اور دوسری خواتین سے بہو کی شکایتیں مناسب نہیں ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بیماریاں ہیں، ان سے اجتناب لازم ہے۔ قرآن مجید کا یہ حکم صرف مردوں کے لیے نہیں ہے:
’’اے ایمان والو! بہت زیادہ گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگور اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔‘‘
اسی طرح بہو کے تمسخر، استہزا اور اسے برے نام اور القاب دینے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ قرآن کا صاف حکم ہے:
’’اے ایمان والو! مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور عورتیں بھی دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں بہت ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب چسپاں کرو۔ ایمان کے بعد توفسق کا نام بھی برا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا سکھائی ہے کہ:
’’اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے او رمیرے والدین کو عطا فرمائیں اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری اولاد میں بھی میرے نیک بخت وارث اٹھا۔‘‘
اس دعا کا ہر پہلو غورطلب ہے۔ سب سے پہلے تو نعمتوں پر شگر گزاری کی تلقین ہے۔ بیوی بھی دنیا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اسی طرح ساس کے لیے بہو بھی ایک نعمت ہے اور اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ پھر عمل صالح کا ذکر ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اور بہو کے ساتھ اچھا سلوک بھی عمل صالح ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگا اور تیسری چیز اولاد کی نیک بختی کی دعا ہے اور اس دعا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جس کے ساتھ عمل نہ ہو۔ اولاد کی نیک بختی کی دعا کے ساتھ ساتھ نیک بخت بننے میں اس کا تعاون بھی ضروری ہے اور بیٹے کی نیک بختی میں ماں کا سب سے بڑا تعاون بحالت موجودہ اسے خانگی ذہنی سکون کی فراہمی ہے جو بہو کے ساتھ حسنِ سلوک کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ان پہلوؤں کو سامنے نہ رکھا جائے تو بیٹے کی نیک بختی کا تقاضا خود والدین سے اس کو دور کرسکتا ہے۔
اسی طرح اللہ کی سکھائی ہوئی اس دعا کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے:
’’اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔‘‘
اگر شوہر اپنی بیوی اور والدین اپنی اولاد کی راحت و سکون کا خیال نہیں رکھیں گے تو بیوی شوہر کے لیے اور اولاد والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کیسے بن پائے گی؟
بہو کا فرض
تیسرااہم کردار بہو کا ہے۔ بہو کا فرض صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا رویہ درست رکھے اور اس کے ساتھ اپنی مکمل صالحیت کا مظاہرہ کرے۔ بلکہ اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ شوہر کے اہلِ خانہ کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور اچھا برتاؤ کرے، اہلِ خانہ میں شوہر کے والدین سرِ فہرست ہیں۔ قرآن نے جو یہ کہا ہے کہ:
’’نیک بیبیاں وہ ہیں جو فرمان برداری کرتی ہیں۔‘‘
تو ظاہر ہے کہ اس فرماں برداری میں صرف انہی احکام کی فرماں برداری نہیں ہے جو شوہر کی اپنی ذات سے متعلق ہیں بلکہ وہ سارے احکام اس میں شامل ہیں، جو معروف کے دائرہ میں آتے ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اولاد کو والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور والدین کے بڑھاپے میں ان کی طرف اسی اعتنا کی ہدایت کی ہے جو والدین کی طرف سے وہ اپنے بچپن میں حاصل کرچکے ہیں اور یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ والدین نے اولاد کی ناتوانی کے زمانہ میں انھیں یک طرفہ طور سے آرام پہنچایا ہے اور اب وہ بھی اپنے بڑھاپے اور ناتوانی کے زمانہ میں یک طرفہ اولاد کی توجہ اور خدمت کے مستحق ہیں۔ اور یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ والدین اور بالخصوص والدہ کی خدمت کا بیوی کے تعاون کے بغیر حق ہی ادا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیوی بھی والدین کی خدمت میں شوہر کی شریک کار ہو۔
اگر بیوی جو شوہر کے والدین کی بہو ہے اپنی ان ذمہ داریوں کا بھی احساس رکھے اور شوہر کے والدین کو اپنے والدین کا سا مقام دے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ساس کی سوچ اور اس کے رویہ میں مثبت تبدیلی آئے اور وہ بھی اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے۔
بہو کو ساس کی اس نفسیات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ گھر میں اس کے آنے سے پہلے ماں اپنے بیٹے کی تمام تر توجہ کا مرکز رہی ہے اور اس کے آجانے کے بعد اس توجہ میں فطری طور سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے وہ غلط فہمی کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔ اب بہو کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو دور کرے اور اپنے سلوک سے یہ باور کرائے کہ اس کے ہمدردوں، غم گساروں اور خدمت گزاروں میں ایک اور ہمدرد، غم گسار اور خدمت گزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر بہو ساس کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے تو یقینا ساس کے رویہ میں مثبت تبدیلی آئے گی اور یہ تبدیلی دونوں کے لیے باعث سکون و راحت ہوگی۔
یہ سہ گو نہ فرائض ساس اور بہو کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں، اس لیے خاندانی نظام کے اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ ہیں خاندانی نظام کے وہ اصول و آداب جن کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یہی خاندان دوسرے خاندانوں کے لیے قابلِ صد رشک بن جائے اور پھر دنیا اس نظام سے متاثر اور مستفید ہو، ہمارا اپنا خاندانی نظام اگر ان قرآنی ہدایات کا پابند ہو جائے تو پھر دیکھئے کہ کس طرح سے اس کی برکتوں اور اللہ کی رحمتوں کا ظہور ہوتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146