خبیث

حفیظ الرحمن خان

دفتر میں ان دنوں کثرت کار کی وجہ سے سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ جون کی شدید گرمی اور بجٹ کی آمد آمد، کمپنی کی طرف سے مالیاتی اعداد و شمار کے فیکس پر فیکس چلے آرہے ہیں۔ رات کے نو، دس بجے تک دفتر میں بیٹھے رہنا، کئی دن کی سخت دہنی کوفت، اعصابی تھکاوٹ اور مسلسل بے خوابی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بیمار پڑ گیا۔ ڈاکٹر خالد کو فو ن پر بتایا تو اس کاپہلا جملہ یہی تھا کہ ’’اگر روزانہ کچھ وقت آرام کے لیے نہیں نکالو گے تو بیماری کے لیے بہت سا وقت نکالنا پڑے گا۔‘‘

ڈاکٹر خالد اسکول کے زمانے کا ہم جماعت ہے۔ اسے ڈاکٹر بننے کا شروع ہی سے شوق تھا، وہ اس زمانے میں بھی مفید طبی مشورے اور ضروری احتیاطی تدابیر بتایا کرتا۔ تھوڑی دیر میں وہ گھر آگیا۔ معائنے کے بعد اپنا وہی جملہ دہرایا، جو اس نے فون پر کہا تھا۔ دوائیں وہ ساتھ ہی لایا تھا۔ استعمال کی ضروری ہدایات دے کر کہنے لگا: ’’ایک ہفتہ مکمل بیڈ ریسٹ، بیڈ ریسٹ کا مطلب سمجھتے ہو … اور ہاں ہفتہ بعد دفتر جانے سے پہلے تمہیں میرے کلینک آکر دوبارہ چیک اپ کرانا ہوگا۔‘‘

پورا ہفتہ بستر پر لیٹے لیٹے، کڑوی دوائیاں پینے، پرہیزی غذا کھانے، اخبار کی خبریں، اداریے اور کالم پڑھنے، اشتہارات سے بھرے ٹی وی ڈرامے دیکھنے اور اس کروٹ سے اس کروٹ اور اس کروٹ سے اس کروٹ پہلو بلدنے میں گزرا۔ ایک ہفتہ کے بعد صحت بحال ہوگئی۔ میں خود کو پوری طرح چاق و چوبند محسوس کررہا تھا۔ دفتر جوائن کرنے سے ایک دن پہلے صبح نو بجے ڈاکٹر خالد کے ہاں پہنچا۔ خیال تھا کہ ڈاکٹر سے او کے رپورٹ لینے کے بعد پورا دن آزادی کے ساتھ گھومیں گے۔

’’اب ٹھیک لگ رہے ہو۔‘‘ ڈاکٹر خالد نے مجھے دیکھتے ہی کہا: ’’دیکھو روزانہ صبح اور شام کچھ وقت کے لیے پارک میں نکل جایا کرو۔‘‘

’’جو حکم میرے ناصح، میرے ڈاکٹر … لیکن آج تمہارے ہاں چائے ضرور پیوں گا۔‘‘

ڈاکٹر خالد نے اٹنڈنٹ کو اچھی سی چائے لانے کو کہا۔ اس وقت ڈاکٹر کے پاس صرف دو مریض تھے۔ ایک آٹھ سال کا بچہ جسے اس کی ماں دکھانے لائی تھی، اور ایک دوسرا آدمی جو بے تعلق سا کھنچا بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر بچے کی طرف متوجہ ہوا۔

’’ڈاکٹر صاحب! میرے بچے کو کل سے تیز بخار ہے۔ گرمی کی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ ہم سب چند روز میں شملہ جانا چاہتے ہیں، ذرا اچھی طرح دیکھ کر دوا دیجیے۔‘‘ بچے کی ماں نے کہا۔

ڈاکٹر نے بچے کا اچھی طرح معائنہ کیا اور نسخہ لکھتے ہوئے کہا: آپ شملہ جانے کا پروگرام دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیجیے۔ بچے کو ملیریا ہوا تھا، اب ٹائیفائڈ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ باقاعدہ علاج اور مکمل آرام کی ضرورت ہے۔

ماں کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہوئے۔

ڈاکٹر دوسرے آدمی کی طرف متوجہ ہوا۔ دبلا پتلا زرد چہرہ، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پچکے ہوئے گال، وہ شخص سخت نقاہت اور نہایت بیزاری اور اکتاہٹ کے ساتھ کرسی سے اٹھا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا ڈاکٹر کی میز پر جھک کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے جیب سے انجکشن کی ایک شیشی جس میں سفید پاؤڈر نظر آرہا تھا، ایک ڈسٹلڈواٹر کی شیشی اور ایک ڈسپوزیبل سرنج نکال کر میز پر رکھ دی۔

’’ڈاکٹر صاحب! پلیز یہ ٹیکہ لگادیجیے۔‘‘

ڈاکٹر خالد نے ٹیکے کی شیشی اٹھائی، نام پڑھا، دو تین بار شیشی کو گھما گھما کر دیکھا اور قدرے توقف کے بعد کہا: ’’ڈاکٹر کا لکھا ہوا پرچہ دکھائیے۔‘‘

’’اوہو! وہ تو جلدی میں گھر بھول آیا ہوں، اگلی مرتبہ ساتھ لاؤں گا، اس بار مہربانی کیجیے۔‘‘

’’لیکن اگلی مرتبہ تو آپ کسی اور ڈاکٹر کے پاس جائیں گے … بھئی یہ میرے پیشے کے آداب کے خلاف ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ٹیکہ میزپر رکھ کر کرسی سے ٹیک لگالی اور آنکھیں بند کرلیں۔

’’ڈاکٹر صاحب مہربانی کیجیے، دعائیں دوں گا۔‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ کہ تمہاری بیماری کیاہے؟‘‘ ڈاکٹر خالد نے جیسے چہرے پر لاعلمی اوڑھ لی۔

’’بیماری کا مجھے علم نہیں، پرچی پر لکھی ہوئی ہے۔‘‘

’’تو پرچی ساتھ لاتے۔‘‘

’’بھول گیا، ڈاکٹر صاحب! اگلی دفعہ لاؤں گا۔‘‘

ڈاکٹر خالد نے میری طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں پوچھا:

’’تمہارا کیا مشورہ ہے، لگادوں۔‘‘

میں کیا کہہ سکتا ہوں… تمہاری اپنی مرضی پر منحصر ہے۔‘‘ میں نے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے حیرت اور تجسس کی ملی جلی کیفیت میں جواب دیا۔

ڈاکٹر نے کچھ دیر توقف کیا پھر ٹیکے کی شیشی اٹھائی، ڈسٹلڈ واٹر کو سرنج کے ذریعہ شیشی میں داخل کیا۔ اس آدمی کے چہرے پر جیسے بہار آگئی ڈاکٹر نے ٹیکے کی شیشی کو زور سے ہلاتے ہوئے پوچھا:

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’بیمار آدمی کا نام پوچھ کر کیا کریں گے ڈاکٹر صاحب!‘‘

اس نے قریب رکھے ہوئے اسٹول پر پیر رکھا، پائنچہ گھٹنے تک اوپر کو اٹھایا اور پنڈلی پر ٹیکہ لگوانے کے لیے ڈاکٹر کی طرف پشت کرکے کھڑا ہوگیا۔

’’بازو پر کیوں نہیں لگواتے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’’دونوں بازوؤں پر ٹیکے لگ چکے ہیں۔ آج کل پنڈلی پر لگ رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر خالد نے اٹھ کر پنڈلی پر ٹیکہ لگا دیا اور وہ شخص سیدھا کھڑا ہوگیا، جیسے اس کے اندر ایک تازہ روح عود کرآئی ہو۔

’’خدا آپ کو جزائے خیر دے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ڈاکٹر کی نظریں کلینک کے بیرونی دروازے تک جاتے ہوئے اس پر جمی رہیں اور وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کی بیماری کے بارے میں ڈاکٹر سے سوال کرتا، وہ خود ہی میری طرف متوجہ ہوا۔

’’وہ ایڈز کا مریض ہے۔‘‘

’’ایڈز‘‘ — نام سن کر جیسے ایک سنسناہٹ سی میرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔ تو گویا اہل مغرب کا یہ تحفہ بھی ہمارے ملک اور ہمارے شہر تک پہنچ گیا۔

’’ہمارے ملک میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے اور اگر یہی رفتار رہی تو خدانخواستہ…‘‘

’’خدانخواستہ…… خدانخواستہ ‘‘ میں نے ڈاکٹر خالد کی بات کاٹ دی۔

’’لیکن حقیقت ’’خدانخواستہ‘‘ کہہ دینے سے نہیں ٹلتی۔ اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے سماجی حالات او راہل یورپ کی اندھی معاشرتی تقلید کا رویہ اس ’’مہلک تحفے‘‘ کے پھلنے پھولنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ ایڈز کا مریض منافق اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔تم نے نہیں دیکھا کہ وہ پوچھنے کے باوجود اپنے اور اپنی بیماری کے بارے میں کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہوا۔‘‘

’’لیکن ایڈز تو لا علاج مرض ہے۔ پھر یہ ٹیکہ کیوں؟‘‘

’’ایڈز یقینا لا علاج ہے۔ یہ بیماری مریض کی قوت مدافعت کو اندر ہی اندر چاٹ جاتی ہے اور یہ ٹیکہ جو اس نے لگوایا، علاج نہیں بلکہ وقتی طور پر قدرے توانائی بحال کرنے کاایک ذریعہ ہے۔ ہر دوسرے دن لگوانا پڑتا ہے اور بہت مہنگا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خالد قدرے تفصیل میںچلا گیا۔

ڈاکٹر خالد کی ان باتوں نے میرے اندر کی دنیا میں جہاں مزید دہشت پھیلائی وہاں یہ کرید بھی پیدا کردی کہ ایڈز کا مریض اپنا مرض کیوں چھپاتا اور مخصوص رویوں اور نفسیاتی میلانات کا شکار کیوں ہوجاتا ہے۔ یہ شخص ایڈز میں کیسے گرفتار ہوا۔ اس کا پیچھا کرنا چاہیے۔ میں نے ’’ایک ضروری کام‘‘ کا بہانہ کرکے ڈاکٹر خالد سے اجازت لی اور تیزی سے باہر آگیا۔

’’اسلم چائے تو پیتے جاؤ۔‘‘ ڈاکٹر خالد نے پیچھے سے آواز دی۔ ’’شام کو اکٹھے پئیں گے، کلینک بند کرکے میرے پاس آجانا۔‘‘ میں نے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا اور کلینک سے باہر اس بڑی سڑک پر آگیا جو پورب پچھم دور تک سیدھی جارہی تھی۔ وہ شخص جب کلینک سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ وہ فٹ پاتھ پر مشرق کو مڑا تھا۔ سو میں بھی اس سمت چل دیا۔

فٹ پاتھ پر لوگوں کا رش تھا۔ میں آنے جانے والوں سے ٹکراتا ہوا تیزی سے چلا جارہا تھا۔ میری نظریں فٹ پاتھ پر جانے والوں کا دور دور تک تعاقب کررہی تھیں، لیکن اس کی صورت مجھے نظر نہ آئی۔ پھر بھی ذوق جستجو مجھے جیسے اڑائے لیے جارہا تھا۔

کوئی دو فرلانگ اسی طرح چلنے کے بعد مجھے وہ پشت دکھائی دی، جو ڈاکٹر خالد سے ٹیکہ لگواتے وقت میری نظروں میں تھی۔ میں تقریباًبھاگ کر بالکل اس کے قریب پہنچ گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں نے کہا: ’’میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

اس نے میری طرف دیکھا: ’’میں آپ کو نہیں جانتا‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سیدھا چلتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ یہ شخص کسی طرح بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ کچھ دیر میں خاموشی سے یہ سوچتے ہوئے اس کے ساتھ چلتا رہا کہ سلسلہ کلام کیوںکر جاری رکھوں۔ وہ شخص لا تعلقی کے انداز میں چلتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے چہرے پر قدرے سکون اور طمانیت جھلک رہی تھی۔ کچھ دور آگے جاکر وہ بغلی گلی میں مڑگیا، اگرچہ اب اس سے مزید گفتگو کا بظاہر کوئی معقول جواز نہیں تھا اور مجھے قدرتی طور پر اپنی راہ لینی چاہیے تھی، پھر بھی نہ جانے کیوں میں بھی گلی میں مڑکر اس کے برابر چلتا رہا۔ اب وہ کھچا کھچا سا چل رہا تھا اور چہرے پر ناپسندیدگی کی کیفیت چھائی تھی۔

’’آپ اس شہر میں رہتے ہیں یا … نئے آئے ہیں۔‘‘ میں نے ہمت کرکے سوال کر ہی ڈالا۔

’’دیکھئے مسٹر، میں نیا ہوں یا اجنبی، آپ کو اس سے کیا غرض؟ یہ آپ میرا پیچھا کیوں کررہے ہیں۔ آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں، جائیں اپنی راہ لیں۔‘‘

ایڈز کے مریض کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وہ اپنی ذات، ماحول اور سماج کے خلاف منتقمانہ رویہ اختیا رکرلیتا ہے۔ غالباً ڈاکٹر خالد نے بھی یہی بات کہی تھی۔ اس کی اخلاقیات میں ایڈز کی آگے کو ترسیل و اشاعت جزو ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ اس لمحے کو کوستا رہتا ہے، جس لمحے کی لغزش نے اسے زہر حیات قطرہ قطرہ پینے پر مجبور کیا۔ مجھے اس شخص سے ہمدردی سی ہوگئی تھی۔ میں نے کہا: ’’آپ مجھے اپنا دلی دوست اور بھائی تصور کیجیے۔ دراصل میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اس مہلک اور موذی مرض میں کیسے مبتلا ہوئے؟‘‘

اس نے چونک کر میری طرف دیکھا، میرا کوئی دوست نہیں، کوئی بھائی نہیں، خدارا بس میرا پیچھا چھوڑ دیجیے۔‘‘ اس نے بیزاری سے کہا۔

’’دیکھئے مجھے آپ سے کچھ نہیں لینا۔ محض انسانی رشتوں کی بنا پر غم بانٹنا چاہتا ہوں۔ مجھے دوست ہی سمجھئے۔ شایدکچھ دل کا غبار دھل جائے۔‘‘ قریب ہی ایک ریستوران تھا۔ میں نے دوستانہ اپنائیت کے ساتھ اس کا بازو تھاما اور چائے کے لیے کہا، وہ کچھ ٹھٹکا، تلملایا، اور پھر بادل ناخواستہ ریستوران میں آگیا۔ جون کی شدید گرمی کا موسم تھا۔ ریستوران میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا جیسے ایک تازگی رگ و پے میں سما گئی ہو۔ میں اسی طرح اس کا بازو تھامے کونے کی میز پر آیا۔ ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔

’’یہ جانتے ہوئے کہ میں ایڈز کا مریض ہوں، تم نے مجھے چھوا، میرا ہاتھ تھاما‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’میں ایڈز کے پھیلنے اور ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کے اسباب سے آگاہ ہوں۔ محض چھولینے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے کہا۔

پہلی مرتبہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک شگفتہ لکیر ابھری، زندگی کی رمق! زندہ ہونے کی علامت!! میں چائے نہیں پیتا، کوئی مشروب منگالو، اور ہاں دیکھو مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا، مجھے سوالوں سے الجھن ہوتی ہے۔ سرپھٹتا ہے میرا۔ بغیر کسی تمہید کے میں اپنی کہانی کہے دیتا ہوں۔

اس دوران بیرا آیا، میں نے اسے مشروب لانے کو کہا۔

’’حیدرآباد میری جنم بھومی ہے، درمیانے درجے کے زمیندار گھرانے میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں… (قدرے توقف کے بعد) … لیکن اب کہاں …؟ کبھی تھا۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ اپنی روایتی جاگیردارانہ سوچ کے مطابق والد مجھے تحصیلدار بنوانا چاہتے تھے۔ والدہ بیمار رہتی تھیں۔ دوسری ماؤں کی طرح وہ بھی جلد از جلد چاند سی بہو لانا چاہتی تھیں۔ ماں بہنیں گھر میں ہر وقت شادی اور جہیز کی باتیں کرتی رہتیں، چند روز بعد چچا زاد سے شادی طے ہوگئی…‘‘

اس دوران میں بیرا مشروب لے آیا۔ اس نے دو گھونٹ پیے، پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا: ’’انہی دنوں ہمارے گھر کے سامنے والا خالی مکان کرائے پر لگا۔ ایک عورت اپنے دو بچوں کے ساتھ رہنے لگی۔ اس کے ساتھ کبھی کوئی مرد میں نے نہیں دیکھا تھا۔ عمر کوئی تیس پینتیس سال، چہرے کے نقوش نہایت خوبصورت، ہر چند بظاہر تندرست لگتی تھی، لیکن رنگت پیلی زرد، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، کبھی نقاہت سے نڈھال نظر آتی اور کبھی قدرے بہتر… اماں نے میری منگنی والے دن اسے بھی بلوایا تھا۔ وہ عمدہ لباس پہن کر آئی۔ قریب سے گزری تو مجھے یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں کے پیچھے غم کا ایک اتھاہ سمندر چھپا ہے۔‘‘

اس دوران میں وہ رک رک کر مشروب پیتا رہا۔ میںخاموش سامع بن کر اس کی باتیں سن رہا تھا۔ ’’منگنی کے دوسرے دن میں گھر سے نکل رہا تھا، سامنے وہ عورت دروازے پر کھڑی تھی۔ چہرے پر تکلیف اور اذیت کے آثار تھے۔ مجھے اشارہ کرکے بلایا۔ میں قریب گیا تو بڑے عاجزانہ انداز میں کہنے لگی ’’میں آپ کو زحمت دے رہی ہوں‘‘ اور ہاتھ بڑھا کر مجھے ایک پرچی اور پیسے دیے۔ میں سمجھ گیا کہ دوا لانے کو کہہ رہی ہے۔

میڈیکل اسٹور کے مالک نے پرچی پر لکھا پوا ٹیکہ پڑھ کر مجھے ایک نظر دیکھا اور خاموشی سے دے دیا۔ میں واپس آیا تو اب وہ دروازے پر برقعہ اوڑھے کھڑی تھی۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور ٹیکہ لے کر دروازے پر تالا لگایا اور چلی گئی۔ دونوں بچے گھر کے اندر تھے۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔‘‘

اس نے قدرے توقف کیا۔ وہ کچھ دیر انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتا رہا۔ اس دوران میں اس نے مشروب کے دو گھونٹ پئے پھر ایک دم بپھر گیا اور میری طرف تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ’’آخر تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو۔ کہیں خفیہ والے تو نہیں ہو، میری نس نس میں زہر سمایا ہے۔ میں ایک قطرہ آب خوردم و دریا گریستم کی اذیت سے گزر رہا ہوں۔ خدا کے لیے … مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ مجھے احساس ہوا کہ یہ شخص شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتا ہے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ صرف دکھ بانٹنے کی خاطر اس کی بپتا سننا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں غم کے بیان سے بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔‘‘

اس نے مشروب کے آخری چند گھونٹ ایک ہی سانس میں ختم کیے۔ پھر کچھ دیر تک میری طرف یقین و بے یقینی کی ملی جلی کیفیت سے دیکھتے ہوئے بولا:

’’پھر میرا معمول بن گیا کہ ہر دوسرے تیسرے دن میں اسے ٹیکہ لادیتا۔ اسی دوران میں ماں میری شادی کے خواب بنتے بنتے ایک روز بیماری کے شدید دورے میں رخصت ہوگئی اور شادی کچھ عرصہ کے لیے ملتوی ہوگئی۔‘‘ ادھر ٹیکوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ہمسائی کس بیماری میں مبتلا ہے۔ البتہ میں نے دیکھا کہ ٹیکہ لگنے کے بعد جیسے اس میں ایک جان سی آجاتی ہے اور میں محسوس کرتا جیسے اس کی آنکھوں میں کوئی پیغام ہے۔ میں کچھ جھینپ سا جاتا۔

ایک دن وہ دروازے پر کھڑی تھی، میں ٹیکے کے خیال سے اس کے قریب گیا۔ ’’آج ٹیکہ نہیں لانا …‘‘ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئی، بچے دوسرے کمرے میں تھے۔

اندر جاتے ہی اس نے کنڈی لگالی جب میں اس کے گھر سے نکل رہا تھا وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگی: ’’اب تم دو ٹیکے لایا کرو گے۔ ایک اپنے لیے اور ایک میرے لیے۔ ذرا مہنگے ہیں۔‘‘

میں اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ ایک احساس ندامت کے ساتھ جانے لگا تو بولی:

’’ایک خبیث مرد نے میرے وجود میں یہ زہر بھرا ہے۔ میرا سب کچھ برباد کردیا ہے۔ وہ زہر میں نے مرد ہی کی ذات کو لوٹا دیا ہے۔ مرد کی ذات کمینی ہوتی ہے۔ میں آخری سانس تک انتقام لوں گی۔‘‘

میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے کسی نے زمین کھینچ لی ہو … کچھ عرصے کے بعد وہی ٹیکہ میرے وجود کی ضرورت بن گیا۔ یہاں تک کہ اپنے ہی شہر میں میری پہچان کھو گئی۔ میری زمین … میرا گھر سب کچھ بک کر سرنج کی سوئی کے ذریعہ جسم میں منتقل ہونے لگا… اب میں شہر شہر تنہا پھرتا ہوں۔ میرا کوئی نام نہیں، کوئی شناخت نہیں، ہر دوسرے دن نئے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں اور ٹیکہ لگواتا ہوں…‘‘

اور ہاں اس خبیث عورت کا دیا ہوا تحفہ اب میں بڑی ایمانداری سے اسی کی جنس کو منتقل کررہا ہوں۔ کہو کیسی رہی۔‘‘

وہ کرسی سے اٹھا، جاتے ہوئے آخری جملہ کہہ کر تیزی کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکل گیا۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ آدم و حوا کے بیٹوں بیٹیوں نے اپنی ہی نسل کشی کی کیسی کیسی صورتیں ایجاد کرلی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں