ہمارے محلے ہی میں ایک خاتون ہیں، نہایت سگھڑ اور ہوش مند، مگر کام کی زیادتی کا شکار ہیں اور یہ زیادتی کیا ہے؟ یہی کہ ایک مرتبہ کوئی کام مکمل نہیں کرسکتیں اور درمیان ہی میں دوسرا کام شروع کردیتی ہیں۔ کمرے کا فرش صاف کرتے کرتے یکایک موصوفہ کو خیال آتا ہے کہ باورچی خانے میں برتن بغیر دھلے پڑے ہیں۔ چنانچہ پہلا کام چھوڑ کر وہ برتن دھونے میں لگ جاتی ہیں۔ ابھی برتن پورے دھلے نہیں کہ بچے اسکول سے واپس آگئے، اس لیے ان کو سنبھالنے اور کھانا دینے میں مصروف ہوگئیں پھر یاد آیا کہ شوہر شام کو ایک تقریب میں جائیں گے۔ ان کی قمیص پر استری کرنی ہے۔ جھٹ پٹ قمیص دھوکر سوکھنے کے لیے ڈالی گئی۔ ظاہر ہے جب کوئی کام ترتیب سے نہ ہوگا اور اس قسم کی بھاگ دوڑ جاری رہے گی، تو تھکن کی شکایت فضول ہے۔
ایک اور خاتون ہیں جو گھر میں پاگلوں کی طرح پھرتی ہیں، چائے تیار کرکے ٹرے میں پیالیاں وغیرہ سجا دیں اور لے گئیں مہمانوں کے پاس۔ مگر فوراً ہی چینی لینے کے لیے باورچی خانے میں دوڑتی ہیں۔ واپس آتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چمچے بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ چمچے لینے کے لیے بھاگتی ہیں۔ یہی کیفیت دوسرے کاموں کی ہے۔ وہ روزانہ کپڑے دھونے، کھانے پکانے اور گھر صاف کرنے کی عادی ہیں۔ حالانکہ یہ کام ایک ہی دن میں مسلسل کرنا حماقت ہے۔ طے کرلیجیے کہ جس روز آپ کو کپڑے دھونے ہیں، اس روز کھانے میں صرف ایک ہی سالن پکائیے۔ دو دو ہنڈیاں پکانے کی ضرورت نہیں تاکہ آپ کو آرام کرنے کا موقع بھی مل سکے۔ یا جس روز گھر کی صفائی کرنی ہے، اس روز کپڑے دھونے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔
گھریلو سائنس کے ماہرین نے ایسی ہی خواتین کے لیے جو گھرکے دھندوں میں ہر وقت جتی رہتی ہیں چند ایسے مشورے دیے ہیں جن پر عمل کیا جائے تو گھریلو کام عذاب کے بجائے راحت اور آرام کا سبب بن سکتا ہے:
۱- اپنے ہفتے بھر کی مصروفیات کا چارٹ بنالیجیے اور اس میں ہر روز کے کام کی تفصیل درج کیجیے کہ آج کیا کرنا ہے۔ ۲- ہر کام کے لیے جتنا وقت آپ مقرر کر نا چاہتی ہیں کرلیجیے۔ ۳- بازار میں شاپنگ کے لیے ہفتے میں جتنی بار آپ کو جانا پڑتا ہے ، اس کا اندازہ بھی اس چارٹ پر درج کیجیے۔ ۴- گھر کے افراد کو بھی آہستہ آہستہ اس امر پر رضا مند کیجیے کہ ان فرائض میں خلل انداز نہ ہوں، بلکہ آپ کی مدد کریں۔ ۵- گذشتہ ہفتے کی مصروفیات کا کڑا جائزہ لے کر نئے چارٹ میں اس کے مطابق ترمیم کیجیے۔ ایک ماہ کے اندر ہی اندر آپ کو علم ہوجائے گا کہ وقت کہاں ضائع ہوتا ہے اور آپ پر کام کا بوجھ کدھر سے پڑتا ہے۔ ۶- جو کام آپ کے بجائے گھر کے دوسرے افراد کرسکتے ہیں وہ نہ کیجیے۔ چھ دن میں اپنا گھریلو کام اس انداز میں نمٹائیے کہ ساتواں دن آپ سے مزید کام کا مطالبہ نہ کرے۔
——