خدا کا وجود جدید سائنس کی تحقیقات اب اس کو ثابت کررہی ہیں (۲)

اے کریزی ماریسن/ ریاض الدین احمد

چوتھا سبب
انسان کے اندر عقل کا مادہ موجود ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی دوسری مخلوق میں کبھی یہ صلاحیت نہیں رہی کہ وہ ایک سے دس تک گنتی بھی گن سکے یا دس کے معنی بھی سمجھ سکے۔ بقیہ مخلوق فطری رجحانات (Instinct) سے مزین کی گئی ہے۔ ان کی مثال ایسے ساز کی ہے جس سے ایک ہی آواز نکل سکتی ہے۔ برخلاف اس کے، انسانی دماغ اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ اس میں ساز کے بھی پردے موجود ہیں اور ہر ہر ساز پر وہ اپنی اپنی آواز نکالتا ہے اور کمال ہنر مندی کے ساتھ نکالنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ آج ہم جو کچھ ہیں وہ صرف اس وجہ سے ہیں کہ ایک ابدی اور لازوال خزینہ نور سے ہم کو شعائیں نصیب ہو گئیں ہیں۔
پانچواں سبب
زندگی کے آثار ان تمام ظواہرات (Phenomena) میں موجود ہیں جن سے آج ہم پوری طرح واقف ہیں اگرچہ ڈارون ان سے ناواقف تھا مثلاً وراثتی خصائل کے حامل ذرات (Genes) کے عجائبات۔ یہ ذرات اس قدر نا گفتنی حد تک باریک ہوتے ہیں کہ اگر ان کے صرف اسی حصے کو جمع کیا جائے جن پر دنیا کی تمام آبادی کا انحصار ہے تو وہ سب کے سب ایک انگشتانے سے کم جگہ میں اکٹھے کیے جاسکتے ہیں۔ پھر بھی یہ باریک ذرات جن کو صرف طاقت در خردبین سے بھی بڑی مشکل سے دیکھا جاسکتا ہے اور ان کے ساتھی کروموسومز (Chromosomes) ہر جاندار خلیہ (Cell) میں بھی ہوتے ہیں اور انسان و حیوان کے عادات و خصائل پر کماحقہ روشنی ڈالتے ہیں۔ لاکھوں آباء و اجداد کے توارثی تاثرات اور ایک ایک کی نفسیات کو حد درجہ چھوٹی جگہ میں کس طرح محفوظ کر لیتے ہیں؟
یہی خلیہ ارتقاء کی پہلی منزل ہے۔ اس کے اندر وہ (Genes) پنہاں ہیں جن سے انسان کا وجود ہے۔کیا محض چند لاکھ ذرات کا باریک ترین جراثیم کی شکل میں ایک چھوٹے سے مقام کے اندر بند ہو کرروئے زمین کے ہر ہر گوشہ زندگی پر حکمرانی کرنا ایسی تخلیقی ذہانت کی کار فرمائی کا ثبوت نہیں جس کے اکمل ہونے سے انکار نہ کیا جاسکے؟
انسان بہت سے خلیوں سے مل کر بنا ہے۔ ہر خلیہ میں بہت سے کر موسومز ہوتے ہیں اور کروموسومز میں لاکھوں کی تعداد میں مورثے (Genes) نظر آتے ہیں۔ انسان کے آباء و اجداد کی ہر خصلت کا ایک ایک جین ان میں موجود ہوتا ہے۔ ان میں سے جو جین زیادہ طاقت ور ہوتا ہے وہ غالب آجاتا ہے اور اس کے مطابق انسان کے عادات و اطوار شکل و رنگ وغیرہ مرتب ہوتے ہیں۔ خلیہ ایک مجتمع مادہ ہے جو پودوں، درختوں، جانوروں اور دیگر موجودات میں پایا جاتا ہے اور دوسرے مجتمع مادوں سے مل کر ایک اعلیٰ مخلوق وجود میں لاتا ہے۔
چھٹا سبب
فطرت کا محتاط تصرف ہمیں یہ یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور کسی ایسی عقل کاملہ کا وجود ہے جو اپنی دور اندیشی اور ذکاوت کو محیر العقول طریقے سےاستعمال کرتی ہے۔
کچھ مدت ہوئی آسٹریلیا میں ناگ پھنی کا استعمال جھاڑی کے طور پر شروع ہوا۔ اس وقت آسٹریلیا میں ناگ پھنی کے کیڑے موجود نہ تھے اس لیے یہ بے تحاشا بڑھنے اور پھیلنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے اتنی لمبی چوڑی زمین پر قبضہ جما لیا جس پر اس وقت انگلستان بسا ہوا ہے اور کھیتوں کو تباہ کرکے انسانوں کو دیہات اور قصبوں سے باہر نکال دیا۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کیڑوں کے ماہرین نے ایک ایسا کیڑا تلاش کر لیا جس کی غذا ناگ پھنی ہے اور وہ سوائے ناگ پھنی اور کچھ کھاتا ہی نہیں۔ وہ افزائش نسل میں محتاط بھی بہت ہے۔ آسٹریلیا میں یہ کپڑے موجود نہ تھے اس لیے انہیں باہر سے لانا پڑا۔ ان کیڑوں نے آکر جلد ہی فتح حاصل کرلی اور ناگ پھنی کی لائی ہوئی مصیبت کا ازالہ ہو گیا۔ اب صرف احتیاطی تدابیر سے ناگ پھنی کو قابو میں رکھا جاتا ہے جس کے لئے تھوڑے ہی کیڑوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ زندگی میں توازن قائم رکھنے کے لیے ایسے ہزار رہا اسباب دنیا کے گوشے گوشے میں فراہم کیے گئے ہیں۔ بہت سے کیڑے ایسے ہیں جن میں حد درجہ سرعت کے ساتھ بڑھنے کی طاقت پائی جاتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ روئے زمین پر چھا نہیں جاتے۔
قدرت نے توازن کو قائم رکھنے کا یہ انتظام کیا ہے کہ ان کے جسم کے اندر اس طرح کے پھیپھڑے موجود نہیں جیسے کہ انسان کے اندر پائے جاتے ہیں اور وہ نلکیوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں۔ یہ کیڑے جب بڑھنے لگتے ہیں تو نلکیاں اسی نسبت سے نہیں بڑھتیں اس لیے کیڑے بڑی جسامت کے کبھی نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک فطری کمزوری ہے جو ان کو قابو میں رکھتی ہے اور ان کی لامحدود افزائش پر بھی پابندی عائد کرتی ہے۔ اگر یہ رکاوٹ فطرت کی طرف سے مہیا نہ کی گئی ہوتی تو انسان کا دنیا میں وجود نا ممکن ہو جاتا کیونکہ ایسی صورت میں ایک حقیر ترین کیڑا بھی جسامت کے لحاظ سے شیر کے برابر ہو جاتا اور افزائش نسل میں تیز رفتاری کی وجہ سے تمام روئے زمین پر چھا جاتا۔
ساتواں سبب
یہ حقیقت که انسان خدا کے تصور کا حامل بھی ہے اور خود ہی خدا کے وجود کی زبردست دلیل بھی ہے۔ انسان میں خدا کا تصور ایک ایسی خداداد صلاحیت کا نتیجہ ہے جسے دنیا میں سوائے انسان کے کوئی دوسرا نہیں حاصل کرسکتا۔ اس صلاحیت کو غوروفکر کے بعد آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہی نادیدہ چیزوں کے ثبوت مہیا کرتی ہے اور اسی کی زبان سے انسان پر صدہا شاہراہوں کا ظہور ہوتا ہے اور اسے صاف صاف معلوم ہونے لگتا ہے کہ آسمان کے نیچے جہاں جہاں جو کچھ بھی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ ہر ہر جگہ اور ہر ہر چیز کے اندر خدا موجود ہے اور وہ خود ہمارے دلوں سے اتنا قریب ہے کہ اس سے قریب تر کوئی چیزنہیں۔
غرضیکہ سائنس اور عقل دونوں ہی کا فتویٰ ہے کہ ہمارا یہ کارخانہ حیات ہی خدا کی وجہ سے ہے اور اس کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس کی ربوبیت کا اعلان کر رہا ہے بلکہ یہ آسمان اور چمکنے والے ستارے بھی اس کی جلالت و عظمت اور اس کی عدیم المثال کاریگری کا ڈنکا بجارہے ہیں۔ (بشکریہ ’’ المنبر‘‘، فیصل آباد)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146