خدا کے نام خط

ترجمہ:- صابر کلوروی

پوری وادی میں اس چھوٹی سی پہاڑی پر صرف یہی ایک مکان تھا جہاں سے بہتا ہوا دریا، اصطبل اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں صاف طورپر دکھائی دیتی تھیں۔ لوبیے کے پھولوں نے کھیتیوںکی رونق میں اضافہ کردیاتھا۔ لنکو اپنے کھیتوں کی حالت سے باخبر تھا۔ اسے معلوم تھا کہ بہترین فصل کے حصول کے لئے اس کے کھیتوں کو بارش کی اشد ضرورت تھی۔ اسی لئے اس کی نظریں صبح ہی سے شمال مشرق میں آسمان پر لگی ہوئی تھیں۔
’’اب یقینا بارش ہونے والی ہے ۔‘‘
’’ہاں، انشاء اللہ۔‘‘ اس کی بیوی نے جواب دیا۔
بڑے لڑکے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے مکان کے سامنے کھیل کود میں مصروف تھے۔ ان کی ماں نے انہیںآواز دی ’’آئو کھانا کھالو۔‘‘
کھانے کے دوران میں جیساکہ لنکو نے پیشین گوئی کی تھی۔ بارش کے موٹے موٹے قطرے زمین پر گرنے لگے۔ پہاڑوں کے بادل تیزی سے لپک رہے تھے، ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔ لنکو بظاہر اصطبل میں کوئی چیز تلاش کرنے کے لئے چلاگیا۔ لیکن اصل میں وہ بارش میں بھیگ کر لطف اندوز ہونا چاہتاتھا اور جب وہ واپس آیا تو خوشی سے اس کاچہرہ دمک رہاتھا۔
’’آسمان سے بارش نہیں نوٹ برس رہے ہیں۔‘‘
ایک گونہ اطمینان کے ساتھ اس نے پکی ہوئی فصلوںکو دیکھا۔ جن میں لوبیے کی کاشت کی گئی تھی۔ بارش کے قطروں نے مسکراتے ہوئے پھولوں کے چہروں کو ڈھانپ لیاتھا۔ ایسا لگتاتھا کہ جیسے اوس پڑگئی ہے۔ لیکن اچانک بارش کے ساتھ اولے برسنے لگے۔ وہ سچ مچ چاندی کے سکوں کے مانند تھے۔ چھوٹے بچے افراتفری میںانہیں موتی سمجھ کر سمیٹنے لگے۔
’’صورت حال ابتر ہورہی ہے۔‘‘ لنکو نے مایوسی کے لہجے میں کہا۔ ’’لیکن مجھے امید ہے کہ یہ طوفان جلد ہی تھم جائے گا۔‘‘ لیکن طوفان نہ تھما۔ ایک گھنٹے تک مکان، باغ، پہاڑی کے اطراف، کھیتوں غرضیکہ پوری وادی میں ژالہ باری ہوتی رہی۔ اردگرد کی ساری زمین سفید ہوگئی تھی۔ ایسا لگتاتھا جیسے نمک بکھیر دیاگیاہو۔ درختوں کاایک پتہ بھی باقی نہ رہا۔ فصل مکمل طورپر تباہ ہوگئی تھی۔ جب طوفان ختم ہوا تو لنکو نے کھیتوں میںکھڑے ہوکر اپنے بیٹوں سے کہا:۔
’’ہم پر قہرالٰہی نازل ہوا ہے، اولوں کی زد سے کوئی چیز بھی سلامت نہیں بچی۔ اس سال ہم لوبیے اور غلّے سے بالکل محروم ہوگئے ہیں۔‘‘
رات اداس تھی اور گھر کے تمام افراد گہری سوچوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
’’ہماری ساری محنت رائیگاں گئی۔‘‘
’’اب ہماری کوئی مدد کرنے والا نہیں۔‘‘
’’اس سال ہمیں فاقے کاٹنے پڑیںگے۔‘‘
لیکن وادی کے وسط میںاس تن تنہا مکان کے مکینوں کو ایک امید تھی اور وہ تھی ’’خدا کی امداد۔‘‘
’’پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اگرچہ ہمارا سب کچھ تباہ ہوچکا ہے۔ لیکن یقین کرو ایک شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔‘‘
ساری رات لنکو غیبی امداد کے متعلق سوچتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ خدا اس صورت حال سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست ضرور کرے گا۔ اسے بتایاگیاتھا کہ خدا سب کچھ خود دیکھتا ہے۔ اور وہ دلوں کے بھید سے آگاہ ہے۔ اگرچہ لنکو ایک انسان تھالیکن وہ سارا دن بیلوں کی طرح جتارہتا تھا۔ چونکہ وہ لکھناپڑھنا جانتاتھا۔ اس لئے اگلے اتوار کو دن کے وقفے کے دوران میں اس نے ایک خط لکھا……
یہ خط خدا کے نام تھا۔
’’یا بار الہا! اگر تم میری مدد نہیںکروگے۔ تو ہم اس سال بھوک سے مرجائیںگے، مجھے ایک ہزار روپے کی اشدت ضرورت ہے تاکہ میں زمین کی کاشت کے علاوہ فصل تیار ہونے تک اطمینان سے گزراوقات کرسکوں کیوں کہ ژالہ باری نے…‘‘
اس نے لفافے پر خدا کانام لکھا۔ وہ بڑی بے تابی سے شہر میںآیا اور ڈاک خانے سے ٹکٹ خرید کر لفافے پر چپکایا اور اسے لیٹربکس میں ڈال کر واپس اپنے گھر چلاگیا۔
جب ڈاکیے کے ہاتھ میں یہ خط لگا تو وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اس نے خدا کے نام یہ خط اپنے افسر اعلیٰ کو دکھایا۔ پوسٹ ماسٹر بھی بڑی دلآویز شخصیت کا مالک تھا اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا۔ لیکن جلد ہی اس پر سنجیدگی طاری ہوگئی۔ اس نے خط کو ڈیسک پر رکھا اور کہا:
آہ! ا س آدمی کو خداپرکتنا ایمان ہے، اسے پتہ ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے خدا پر یقین کتنا ضروری ہے، خدائے تعالیٰ پر اس کاعقیدہ اتنا پختہ ہے کہ وہ پورے اعتماد سے خدائے تعالیٰ سے خط و کتابت کررہاتھا۔ لہٰذا اسکے اس بے مثال عقیدے کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے۔‘‘
پوسٹ ماسٹر کے ذہن میں اچانک ایک خیال آگیا، کیوں نہ اس خط کاجواب دیاجائے۔ جسے مکتوب الیہ تک پہنچانا ممکن تھا، لیکن جب اس نے خط کھولا تو اسے احساس ہواکہ خط کا جواب اتنا آسان نہیں ہے اور یہ کہ اس کے لئے صرف قلم و دوات ہی کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ہزار روپے کی بھی ضرورت ہے۔
پوسٹ ماسٹر جلدہی تذبذب کی اس کیفیت سے باہر نکل آیا۔ اس نے اپنے ماتحتوں سے اپیل کی کہ وہ ایک ہزار روپے کی فراہمی میںاس کاہاتھ بٹائیں۔ پوسٹ ماسٹر نے خود بھی اپنی تنخواہ سے کچھ رقم چندے میںدی۔ اس کے ماتحت کارکنوں نے بھی اپنی توفیق کے مطابق اس کارخیرمیں حصہ لیا۔
پوسٹ ماسٹر کے لئے ایک ہزار روپیہ جمع کرنا خاصا مشکل تھا۔ چنانچہ اس نے جو کچھ بھی جمع ہوسکا لفافہ میں ڈال کر بند کردیا اور اس پر لنکو کے گھر کا پتہ درج کردیا۔ اس نے اس رقم کے ساتھ ایک خط بھی لکھا جس پر صرف خدا کے دستخط درج تھے۔
اگلے اتوار کو لنکو معمول سے پہلے ہی ڈاک خانے پہنچااور ڈاکیے سے اپنے خط کے متعلق استفسار کیا۔ڈاکیے نے بذات خود وہ خط لنکو کے حوالے کیا۔ پوسٹ ماسٹر اس دوران میں دروازے سے لنکو کے چہرے کے اتار چڑھائو میںکھویا رہا۔ اس کے سامنے ایک ایسا شخص موجود تھا جس کاایمان پختہ اور غیرمتزلزل تھا۔
لنکو نے خط چاک کیا۔ خدائے تعالیٰ کی ذات پر اس کے اعتماد کی یہ حالت تھی کہ اس کے چہرے پر نوٹ پاکر ذرا بھی حیرت کے آثارپیدا نہیں ہوئے لیکن جب اس نے رقم گنی تو وہ اداس ہوگیا۔ رقم پوری نہیں تھی۔
خدائے تعالیٰ سے تو یہ غلطی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ میری درخواست کو ٹھکراسکتا ہے۔ چنانچہ لنکو فوراً کھڑکی کے پاس گیا۔ اس نے قلم اور کاغذ مانگا اور خط لکھنا شروع کردیا اسے اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے میں اتنی محنت کرنا پڑی کہ اس کی بھنویں تن گئیں۔خط ختم کرنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس گیا۔ اس کے لئے ایک ٹکٹ خریدا اور لفافے پر چپکاکر لیٹربکس میں ڈال دیا ۔ چند لمحوں کے بعد پوسٹ ماسٹر نے بذات خود یہ لفافہ نکال کرکھولا۔ اس میں لکھاتھا:
’’بارالٰہا! میں نے ایک ہزار روپے کی درخواست کی اس میں سے مجھے صرف سات سو روپے موصول ہوئے ہیں مہربانی فرماکر باقی رقم جلدروانہ کریں کیونکہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے لیکن رقم منی آرڈر نہ کریں کیونکہ ڈاکخانے کے ملازمین بددیانت ہیں اورکچھ رقم وہ خود رکھ لیتے ہیں۔
(سیارہ ڈائجسٹ مارچ ۱۹۷۳ء)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں