خدمتِ خلق اور انسانی صحت

اسماء تزئین

خدمتِ خلق کو اسلام کی تعلیمات میں اہم مقام حاصل ہے اور اسلام کے سماجی اور معاشرتی نظام میں غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لیے خصوصی ہدایات ہیں۔ قرآن مجید بھوکے کو کھانا کھلانے، بے لباس کو لباس فراہم کرنے اور تکلیف زدہ کی تکلیف کو رفع کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے کسی بندے کی کوئی ایک تکلیف دور کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی ستر تکلیف دور کرے گا۔‘‘ اسی طرح اللہ کے رسولؐ نے ایک اور مقام پر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا ہے جب بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘
خدمتِ خلق کے اس ہمہ جہت تصور اور اس پر عمل آوری سے انسان کو ایک فائدہ تو ذاتی طور پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی نیکیاں قیامت کے دن پہاڑ کی صورت میں نمودار ہوں گی اور دوسرا فائدہ خدمتِ خلق میں وقت، سرمایہ اور صلاحیت لگانے والے کو یہ ہوتا ہے کہ نیکی اسے فرحت اور اطمینان قلب عطا کرتی ہے، جبکہ سماج کو بھی اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور وہ فائدہ یہ ہے کہ سماج سے غربت، افلاس اور محتاجی دور ہوتی ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے ایمان کی ایک علامت یہ بھی بتائی ہے کہ انسان نیکی کرکے خوشی اور مسرت کے جذبات سے ہمکنار ہوتا ہے۔ یہ خوشی و مسرت اس کی زندگی اور اس کی صحت دونوں پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ خوشی و مسرت کا حصول اور اس سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات پر موجودہ دور کے سائنس دانوں نے بھی تحقیق کی ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسانوں کی خدمت کرنے والے لوگ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ وہ خوشی حاصل کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹر مینا انڈیاپین اور ان کے ساتھیوں نے ایک سروے کیا ہے۔ ان کے مطابق لوگ خوشی اور تندرستی کے لیے دو طرح کے کام کرتے ہیں، اول وہ جو اپنے اندر جھانکتے ہیں اور اپنے جسم کا خیال رکھتے ہیں، مثلاً خود پر رقم خرچ کرتے ہیں، ناخن پالش لگانا اور اچھے کپڑے وغیرہ پہننا پسند کرتے ہیں۔ دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو دوسروں کے لیے اشیا خریدتے ہیں، ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ہمہ وقت ہمدردی کے جذبات سے لبریز رہتے ہیں۔ اب جو لوگ اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسروں کی مدد کا رویہ رکھتے ہیں ان کی دماغی صحت دوسروں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے اور وہ زیادہ مسرور رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسے لوگوں میں ڈپریشن اور بے چینی بھی کم ہونے لگتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ مصیبت میں گھرے لوگوں سے تعاون کرکے خود اپنی تکلیف کی شدت کم ہوجاتی ہے اور دل کو قرار آجاتا ہے۔دوسری جانب اجنبی لوگوں کی مدد سے آپ کا سماجی دائرہ وسیع ہوتا ہے اور ان روابط کے بڑھنے سے بھی جی خوش ہوتا ہے۔ اس سے مثبت رجحان پروان چڑھتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوسروں کی مدد کے بعد جب وہ شکریہ ادا کرتے ہیں تو طبعیت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کا طویل عرصے تک اثر برقرار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ نفسیات نے رحم دلی، ہمدردی اور مدد کے جذبے کو صحت کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے۔
ذہنی امراض مثلاً ڈپریشن اور تناؤ کے مریضوں کو اب سبھی معالجین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ وقت گزاریں اور سماجی خدمت کے کاموں میں خود کو مصروف کریں۔ اس طرح ان کی ذہنی صحت بہتر ہوگی۔ خدمتِ خلق کا جذبہ انسانوں سے محبت، رب کی رضا اور اپنی ذہنی و جسمانی صحت کا ایسا راز ہے جو موجودہ دور کے انسانوں پر کافی بعد میں ظاہر ہوا جبکہ رسول پاکؐ نے اس کے اثرات سے صدیوں پہلے ہمیں آگاہ فرمادیا تھا۔
تو آئیے ہم بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے بندوں کی خدمت اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ایک طرف ہماری نیکیوں میں اضافہ ہو اور دوسری طرف ہمیں قلبی مسرت اور روحانی سکون بھی حاصل ہو جو صحت انسانی کے لیے اہم بھی ہے اور ضروری بھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں