خدمت اور صلہ

عفت گل اعزاز

ساجدہ نے دفترسے واپسی پر گھر میں قدم رکھا تو سامنے صحن میں تخت پر اماں جی بیٹھی نظر آئیں۔ پان کی گلوری منہ میں رکھنے کے بعد پاندان بند کرتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی پڑ رہی تھی۔ ساجدہ نے سوچا ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے۔

’’السلام علیکم اماں جی!‘‘ ساجدہ سلام کرتی ہوئی اندر آگئی اور برقعے کے بٹن کھولنے لگی۔

’’وعلیکم السلام میری بچی۔ جیو ، خوش رہو!‘‘ اماں جی نے مزید خوش ہوکر دعا دی۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ ساجدہ نے پوچھا

’’خالد نے کہلوایا ہے کہ لڑکے والے آرہے ہیں شام کو…‘‘

’’آپا کو دیکھنے؟‘‘

’’ہاں— بس خدا کرے رشتہ طے ہوجائے۔ مجھے وہ لڑکا بہت پسند ہے۔‘‘

’’اللہ بہتر کرے!‘‘ ساجدہ نے دل میں مسرت کی لہریں سی ابھرتی محسوس کیں۔ کتنا اچھا ہو جو آپا کا رشتہ جلد ہی کہیں طے ہوجائے۔ وہ دلہن بن کر اپنے گھر رخصت ہوں تو اماں جی کو کتنی بے فکری ہوجائے۔ مگر پھر بھی ہم دونوں چھوٹی بہنوں کی ذمے داری تو باقی رہے گی۔ بس خدا تعالیٰ ہی ان ذمے داریوں کو پورا کروائے گا۔

’’کوئی تیاری کرنی ہے اماں جی؟‘‘

’’گھر تو صاف ستھرا ہی ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں آجائیں گی اور کیا تیاری کرنی ہے!‘‘ اماں جی نے کہا اور اٹھ کر اندر چل دیں۔ آپا باورچی خانے میں بیٹھی کچھ کام کررہی تھیں۔

’’کوئی آرہا ہے! آپا کون آرہا ہے؟‘‘ ساجدہ نے انہیں چھیڑا تو وہ مسکراہٹ نہ چھپا سکیں۔

’’چل ہٹ پرے۔ مجھے کیا پتہ کون آرہا ہے؟‘‘

’’خدا کرے وہ اچھے سے ہوں۔ اگر اچھے ہوں جبھی یہ شادی ہو، ورنہ نہ ہو!‘‘ ساجدہ نے محبت سے کہا۔

’’کہتی تو ٹھیک ہے تو!‘‘ آپا کے سانولے چہرے پر بڑا نور پھیلا ہوا تھا۔ ساجدہ سوچنے لگی آپا نے آٹھویں کلاس کے بعد سے تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا تھا۔ انہیں پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہاں تک بھی روتے پیٹتے ہی آسکی تھیں۔ گھریلو کام کاج میں اُن کا بڑا دل لگتا تھا۔ شکل صورت بھی واجبی تھی، اس لیے اماں جی بلکہ سب ہی گھر والے چاہتے تھے کہ ان کا رشتہ طے ہوجائے۔ ان کے برعکس ساجدہ کے دل میں علم حاصل کرنے کی لگن تھی۔ وہ میٹرک پاس کرنے کے بعد ایک اسکول میں ملازمت کرنے لگی تھی تاکہ گھر کے خراب حالات کو تھوڑا سا سنوارسکے۔ اس کے والد کی تنخواہ نہایت قلیل تھی۔ اور سات بہن بھائی، ابھی سب چھوٹے تھے۔ دونوں بڑے بھائی کچھ عجیب سے مزاج کے تھے۔ بس ابا جی سے جھگڑتے۔ اماں جی سے صلواتیں سنتے، کھاتے پیتے اور آوارہ گردی کرتے تھے۔ ایسے میں ساجدہ کا دل چاہتا کہ وہ سیدھے سادے خاموش طبع ابا جی کا سہارا بن جائے۔ ان کا ہاتھ بٹائے اور یوں وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر انٹر کی تیاری بھی کررہی تھی۔

اس نے سوچا کہ وہ بہت عرصے تک اپنی ذات کے بارے میں کچھ نہ سوچے گی بلکہ آپا کی شادی ہوگی، پھر بھائیوں کی شادیاں ہوں گی، پھر چھوٹی بہن ریحانہ کی شادی کروں گی … پھر کہیں… کوئی ایسا سلسلہ ہو تو مناسب بھی ہے۔

مگر ہوا یوں کہ لڑکے والوں نے اسی شام کہہ دیا کہ ہمیں توساجدہ پسند آئی ہے۔ اگر آپ لوگ اس کا رشتہ کردیں تو عید کے چاند میں شادی ہوجائے۔

’’بھئی وہ تو حمیدہ کے بعد ہے۔ پہلے ہمیں اس کی بڑی بہن کی شادی کرنی ہے۔‘‘ اماں جی نے جواب دیا۔

’’اب تو زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی — اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کو تو دونوں ہی لڑکیوں کی شادی کرنی ہے۔ بس آپ ہاں کردیں!‘‘

’’ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے— دیکھیں — اچھا اس کے اباجی سے بات کروں گی!‘‘ اماں جی نے انھیں ٹالا۔

اور یہ بات سن کر ساجدہ کو ان عورتوں پر غصہ آگیا۔واہ یہ بھی کوئی بات ہے۔ میرے تو اتنے اتنے لمبے چوڑے پروگرام ہیں۔ میں اور بھلا شادی کروں؟ ہونہہ!!

حمیدہ کا چہرہ اتر گیا۔ اماں جی اداس ہوگئیں۔ ابا جی نے ہمت بندھائی:

’’کوئی بات نہیں۔ تم انہیں منع کردینا۔ یہ رشتے ناتے تو سب تقدیر سے ہوتے ہیں۔ نہیںتھا حمیدہ کے مقدر میں! اور کہیں طے ہوجائے گی بات! فکر نہ کرو۔‘‘

مگر فکر تو سب ہی کی جان کو لگ گئی تھی کیونکہ اب بار بار یہ ہوتا کہ رشتے آتے اور بڑی کے بجائے منجھلی بیٹی یعنی ساجدہ کو پسند کرجاتے۔ یہ بات طے شدہ تھی کہ پہلے حمیدہ کی شادی کا نمبر تھا۔ بھلا پہلے ساجدہ کس طرح بیاہ دی جاتی؟ جبکہ ساجدہ ملازمت کے ذریعے تھوڑا بہت سہارا بھی دے رہی تھی اور وہ خود شادی کے ذکر سے کوسوں دور بھاگتی تھی۔اس صورتِ حال کا ذکر اماں جی نے اپنی دوچار قریبی سہیلیوں اور پڑوسنوں سے کیا تو ان میں سے کچھ نے مشورہ دیا کہ اب جو کوئی رشتہ آئے تو تم ساجدہ کو سامنے نہ کرنا، بلکہ صرف حمیدہ ہی کو دکھانا۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ جس کا مقدر کھل رہا ہے تم اسی کے ہاتھ پیلے کردو۔ تمہیں تو جلد یا بدیر دونوں ہی لڑکیوں کو رخصت کرنا ہے۔

’’نہیں… پہلے حمیدہ کی شادی ہو… اس کو بعد میں رخصت کروں گی…اور پھر یہ کہ ساجدہ شکل صورت میں اچھی ہے۔ اسے بھلا رشتوں کی کوئی کمی ہوگی! جب وقت آئے گا تو دیکھ لینا تم!‘‘ اماں جی نے فخریہ کہا… ساجدہ ناک نقشے میں حمیدہ سے کہیں بہتر تھی اور رنگت بھی صاف تھی۔ پڑوسن خالہ اختری نے کہا:

’’ایک بات کہے دیتی ہوں بہن! رشتے بھی مقدر ہی سے آتے ہیں۔ان کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ جب لڑکی کی عمر پکی ہوجاتی ہے تو کوئی نہیں پوچھتا۔ میری مانو تو جس کے اتنے رشتے آرہے ہیں، اس پر ظلم نہ کرو۔ کسی اچھی جگہ دیکھ کر بات پکی کردو! ایسا نہ ہو کمائی اور پڑھائی کے چکر میں عمر اتنی ہوجائے کہ تم بعد میں اچھے رشتے کو بھی ترسو!‘‘ ان کی بات سن کر اماں جی کی پیشانی پر بل پڑگئے۔

’’ارے ہٹو بھی… چھوٹی کا کردوں اور بڑی بیٹی گھر میں بیٹھی رہ جائے… یہ مجھے منظور نہیں… بعد میں ہر کوئی کہے گا کہ بڑی بیٹی کا رشتہ کیوں نہ ہوا۔ کیا عیب تھا جو یہ بیٹھی رہ گئی؟… بعد میں اسے کوئی نہ پوچھے گا۔ پھر میں کیا کروں گی…؟ کہاں زبردستی دھکا دوں گی اسے؟‘‘

’’میں نے تو اپنے دل کی … ایمان کی بات کہہ دی تم سے … آگے تمہاری مرضی!‘‘ خالہ اختری نے کہا۔

’’ابھی بہت عمر پڑی ہے اس کی۔‘‘ اماں جی نے اطمینان سے جواب دیا۔

کافی دن گزرگئے، کہیں سے کوئی پیام نہ آیا۔ پھر سنا کہ ابا جی کے ساتھ کام کرنے والے فرید چاچا نے اپنے بیٹے کے لیے بات کی ہے۔ ابا جی نے بتایا کہ دو چار روز میں ان کے گھر کچھ لوگ آئیں گے۔ گھر میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ اماں جی نے ساجدہ سے کہہ دیا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کے گھر چلی جائے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے آپا کے رشتے میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس کا سامنے نہ جانا ہی بہتر ہے۔ وہ سامنے نہ گئی مگر پھر بھی ان کا وہاں رشتہ طے نہ ہوا۔ گھر میں ایک عجیب اداسی چھاگئی۔

انہی دنوں یہ ہوا کہ اچانک بڑے بھیا نے دھماکہ کردیا۔ انھوں نے کسی لڑکی سے اکیلے ہی اکیلے شادی رچالی اور ایک دن دلہن کو گھر لے آئے۔ اماں جی کا غصے سے برا حال ہوگیا۔ ابا جی نے بھی کسی خوشی کا اظہار نہ کیا۔

’’اتنی جلدی تھی تمہیں اپنا گھر بسانے کی؟‘‘ اماں جی نے کہا۔

کچھ دنوں تک گھر میں تناؤ رہا پھر سب نے بہو کو قبول کرلیا۔ مریم نے اپنے حسنِ اخلاق سے جلد ہی سب کے دل میں جگہ کرلی۔ کچھ دن بعد آپا کی شادی کا مرحلہ بھی طے پاگیا اور وہ گھر سے رخصت ہوگئیں سب نے اطمینان کا سانس لیا۔

ساجدہ اب انٹر کرچکی تھی۔ اس نے ایک دفتر میں ملازمت حاصل کرلی جہاں تنخواہ بھی زیادہ تھی اور سہولتیں بھی تھیں۔ فرصت کے اوقات میں وہ بی اے کی کتابیں پڑھتی تھی اور سوچتی تھی کہ بی اے کے بعد وہ اور بہتر نوکری حاصل کرسکتی ہے۔ انہی دنوں اس کے لیے چند پیام آئے۔ اماں نے اس سے ذکر کیا مگر اس کے انکار پر وہ بھی مطمئن ہوگئیں۔ اس کی تنخواہ سے گھر کی حالت کافی سدھر گئی تھی۔ اس کو ابھی اور چند سال گھر میں رہنا چاہیے۔ اس کی ذات اماں جی کو بہت پیاری ہوگئی تھی۔ وہ گھر کے ہر فرد کی ضرورت کا خیال کرتی تھی۔ مہینے کی تنخواہ کا کافی حصہ وہ اماں جی کو دے دیتی اور اس کے بعد بھی چھوٹے بھائی بہن کی کتاب کاپیوں کی ذمے داری، اماں جی کے پاندان کا خیال، ابا جی کی دوا، مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے، اور جہاں کہیں بھی ضرورت پڑتی، ساجدہ آگے بڑھ کر، جو کچھ اس کے پاس ہوتا، پیش کردیتی۔

اباجی ریٹائر ہوچکے تھے۔ آپا اپنے گھر میں خوش تھیں اور ادھر چھوٹی بہن ریحانہ بھی میٹرک کرچکی تھی اور اب اس کے رشتے بھی آنے شروع ہوگئے تھے۔ ابا جی کا خیال تھا کہ اب ساجدہ کو رخصت کرنا چاہیے مگر اماں جی یہ مناسب سمجھتی تھیں کہ ریحانہ کی شادی پہلے کردی جائے تاکہ پھر ساجدہ کی شادی شایانِ شان طریقے سے ہو۔

ریحانہ کی منگنی کردی گئی۔ ساجدہ، ریحانہ کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مسرور ہوجاتی۔ اسے اپنے وجود پر فخر ہوتا کہ اس نے ماں باپ کو اپنی خواہش کے مطابق سہارا دیا ہے۔ اس کی روح مطمئن تھی۔ وہ بڑی محبت سے ریحانہ کے لیے کپڑے، برتن اور زیورات کی خریداری کررہی تھی۔

ایک دن دفتر سے چھٹی پر وہ بازار گئی اور کچھ کپڑے خریدے۔ واپسی پر خاصی شام ہوگئی۔ وہ بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ کافی دیر ہوگئی اور بس نہ آئی۔ وہ سوچنے لگی کہ پیدل ہی چل پڑے مگر گھر اتنا بھی قریب نہ تھا۔ اسے کچھ خوف بھی محسوس ہونے لگا۔

’’آپ یہاں کیسے؟‘‘ اچانک کسی نے کہا۔ ساجدہ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو سعید اس کے سامنے کھڑا تھا جو دفتر میں اس کے ساتھ ہی کام کرتا تھا اور اچھی شہرت کا مالک تھا۔

’’میں بازار آئی تھی، کچھ کپڑا خریدنا تھا مگر اتنی دیر ہوگئی۔ ابھی تک بس نہیں آئی۔‘‘

’’اچھا! میں یہاں ایک دوست کے پاس آیا تھا تو آپ نظر آگئیں۔‘‘

’’اللہ کرے جلدی سے بس آجائے!‘‘ ساجدہ نے کہا۔

سعید کے آجانے سے اسے کافی ڈھارس ہوگئی۔ اس کے دل میں خیال آیا، بس چاہے دیر ہی سے آئے، مجھے اب اتنی فکر نہیں۔

’’آپ کو جلدی ہے تو ٹیکسی میں چلتے ہیں۔ میں آپ کو گھر اتار دوں گا۔‘‘

’’ٹیکسی میں؟‘‘ ساجدہ سوچنے لگی کہ گھر پر وہ ایک غیر مرد کے ساتھ کس طرح ٹیکسی سے اترے گی؟ کسی نے دیکھ لیا تو خدا جانے کیسی باتیں بنیں۔

’’آئیے نا چلتے ہیں… اس طرح میں آپ کا گھر بھی دیکھ لوں گا۔‘‘

’’میرا گھر دیکھ کر آپ کیا کریں گے؟‘‘ ساجدہ نے پوچھا۔

’’کام ہے۔ اپنی امی کو بھیجنا چاہتا ہوں۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا؟‘‘

ساجدہ شرما کے مسکرادی! کچھ بول نہ سکی۔ اس نے دیکھا بس اسٹاپ پر ان دونوں کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا۔

’’میں بہت عرصے سے آپ سے واقف ہوں… بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ سعید نے سادگی سے پوچھا۔

’’دیکھیے، ابھی تو میری بہن کی شادی ہے… میں کیا کہہ سکتی ہوں؟‘‘

’’چلیے انتظار کرلیتے ہیں؟‘‘ سعید نے کہا: ’’جب آپ لوگ مناسب سمجھیں گے… پھر دو ایک دن میں امی آئیں گی آپ کے ہاں!‘‘

اتنے میں بس آگئی۔ ساجدہ نے سعید سے کہا: ’’اچھا میں چلتی ہوں!‘‘

’’ٹھیک ہے… مگر آپ اس موضوع پر سوچیے ضرور۔‘‘ سعید نے کہا۔ وہ بس میں جابیٹھی اور سارے راستے ایک خوشگوار کیفیت اس پر چھائی رہی۔ سعید بہت اچھا انسان ہے، بہت نیک اور خوش اخلاق، ایسے شخص کے ساتھ زندگی بڑی آسانی اور سہولت سے کٹ سکتی ہے۔ اماں جی نے اگر اب شادی کے لیے پوچھا تو وہ بالکل منع نہ کرے گی۔ غیر محسوس طریقے سے وہ سعید کی امی کا انتظار کرنے لگی تھی۔ شاید خوشیاں اس کے دروازے پر دستک دینے والی تھیں۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ سعید کی والدہ اور بہن اس کے گھر آگئیں۔ انھوں نے ساجدہ کو محبت سے اپنے پاس بٹھایا، مگر چائے بناتے ہوئے اس کا دل دکھ کر رہ گیا جب اماں جی نے ان کے جواب میں صاف انکار کردیا: ’’ابھی ہمارا اس کی شادی کا خیال نہیں ہے۔‘‘

’’ان کی چھوٹی بہن کی شادی کے بعد آپ ان کی شادی کریں گی نا … ہمیں کوئی اتنی جلدی نہیں… ہم انتظار کرلیں گے!‘‘ سعید کی بہن نے نرمی سے کہا: ’’آپ جتنی دیر رکنا چاہیں… ہم ٹھہر جائیں گے۔ ساجدہ ہمارے بھائی کو پسند ہیں اور ہمیں بھی۔ آپ ہمیں مایوس نہ کریں۔‘‘

’’بعد کی تو بعد میں دیکھی جائے گی۔ شادی کا خود اسے شوق نہیں۔ وہ ہمیشہ ہی منع کردیتی ہے۔ پھر میں بھلا زبردستی کرنے والی کون؟‘‘ اماں جی نے کہا۔

ساجدہ کا دل چاہا کہ اماں سے وہیں کہہ دے کہ اب میں انکار نہیں کروں گی۔ آپ ان کا رشتہ قبول کرلیں! مگر وہ یہ سب نہیں کہہ سکتی تھی۔ کیا اماں جی کو اس کے احساسات کا واقعی کوئی اندازہ نہ تھا۔

اس رات وہ بہت اداس رہی۔ اس کی توقعات کے برخلاف فیصلہ ہوا تھا۔ اماں جی اسے بہت ظالم لگ رہی تھیں۔ کیوں کیا انھوں نے منع؟ انھیں روک تو لیتیں… کہہ دیتیں ابھی نہیں مگر سال، دو سال، پانچ سال بعد ہم شادی کریں گے۔ کیا میں روپیہ کمانے کی مشین بنی سدا اسی گھر میں پڑی رہوں گی؟ بڑی بہن کے بعد چھوٹی بہن بھی رخصت ہوجائے گی۔ ریحانہ جو مجھ سے چھ سال چھوٹی ہے۔ اور اماں جی میری زندگی سے اس قدر بے نیاز بنی رہیں گی۔ کیا یہی ہے میرا قصور ہے کہ میں نے اس گھر کی ضرورتوں کے لیے ہمیشہ اپنی خواہشوں کی قربانی دی ہے؟

اداسی اس کے وجود میں اتر آئی۔ وہ اپنے آپ کو سمجھاتی کہ اماں جی تو اس کی ماں ہیں۔ پیار کرنے والی اور بہت مہربان… مگر مصلحتیں انسان کو بعض اوقات مجبور کردیتی ہیں… اماں جی بھی مجبور ہیں۔ ابا جی ریٹائر ہوچکے ہیں۔ بھائی کو کسی کا خیال نہیں… اس کی شادی سے تو گھر بکھر کر رہ جائے گا۔ واقعی اماں جی کس طرح میری شادی کی ہامی بھرسکتی تھیں۔ خالہ اختری نے کیسی درست بات کی تھی۔ کاش اماں جی نے ان کی بات پر کان دھرے ہوتے! ایسا نہ ہو کہ وقت اتنی خاموشی سے پھسل جائے کہ بعد میں کوئی مجھے قبول کرنے کو تیار نہ ہو؟ کیا یہی ہوگا میرا انجام؟

اس اداسی کا اثر کئی دن تک اس کی طبیعت پر چھایا رہا۔ ہونٹ جیسے مسکرانا بھول چکے تھے۔ ہر شے بے معنی لگتی تھی۔ پتہ نہیں اماں جی کو اس اداسی کا پس منظر معلوم نہ تھا یا وہ جانتے بوجھتے انجان بنی ہوئی تھیں۔ اور انہی دنوں ایک رات ابا جی سوئے تو صبح نہ جاگے۔ رات ہی کے کسی پہر وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

ساجدہ نے ہمت نہ ہاری، وہی شب و روز کی مصروفیت اور ریحانہ کی شادی کی تیاریاں ہوتی رہیں۔ ایک دن وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی۔ ساجدہ نے جس محنت اور محبت سے کام کیا اماں جی اس کی تعریف کرتے نہ تھکتیں۔ انھوں نے اب یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ بس سال کے اندر ساجدہ کو بھی بیاہ دینا ہے۔ دو ایک جگہ بات ہوئی تو ان لوگوں نے کہہ دیا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے۔ ہمیں تو کم عمر لڑکی چاہیے… اور پھر کئی سال گزرگئے… پہلے جہاں آئے دن رشتے آتے رہتے تھے لگتا تھا اب ساری دنیا اس بات کو جان گئی ہے کہ ساجدہ کو شادی نہیں کرنی ہے۔ اس لیے کوئی ادھر کارخ نہ کرتا۔ پہلے جو لوگ اس کے طلب گار تھے، تقریباً سب ہی کسی نہ کسی جگہ شادی کرچکے تھے۔

اماں جی نے اب پڑوسنوں، رشتے داروں اور واقف کاروں سے کہنا سننا شروع کیا: ’’اے بہن! ہماری ساجدہ کے لیے کوئی رشتہ تو بتاؤ!‘‘ اگر کسی کے بہت زور لگانے سے کوئی رشتہ آیا بھی تو کسی ایسے شخص کا جس کی پہلی بیوی مرچکی تھی اور چھ بچے اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ ایک اور رشتہ آیا تو وہ صاحب ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ ساجدہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتی۔ اب میری یہ اوقات رہ گئی ہے! ایک خاتون آئیں اور اس سے پوچھا: ’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘ اماں جی نے بتایا اسی کی شادی کرنی ہے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں:’’نہیں بھئی! ہم تو سمجھے لڑکی کی عمر مناسب ہوگی۔‘‘ اور ساجدہ کا دل ڈوب کر رہ گیا۔

وقت گزرتا جارہا تھا۔ اب دونوں بھائیوں کی شادی ہوچکی تھی اور وہ لوگ الگ گھر میں رہتے تھے۔ آپا اور ریحانہ اکثر آتی رہتی تھیں۔ ساجدہ، ریحانہ کو دیکھ کر سوچتی اس کا مقدر کتنا اچھا ہے، کتنے آرام و سکون سے رہ رہی ہے۔ نہ نوکری کی مصیبت پالی نہ دفتروں میں عمر گنوائی۔ ایک ہم ہیں جیسے کسی گھڑی کی چابی ختم ہوجائے تو گھنٹوں گزریں، مہینے یا سال گزر جائیں وہ سوئیاں وہیں جمی کھڑی رہتی ہیں۔اسی طرح ہم بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں برسوں پہلے کھڑے تھے۔ بھائی اپنی اپنی غرض کے تھے، گھر بسا کے بیٹھ گئے۔ اب اس کی تنخواہ کافی بڑھ چکی تھی۔ اس نے گھر پر نظر ڈالی۔ کونے میں رکھا ہوا ڈبل ڈور فرج، کلر ٹی وی، ٹیپ ریکارڈر، مسہری، صوفے اور الماریاں، سارا گھر بھرا ہوا تھا، آباد تھا… ایک اس کا دل بس ویران رہ گیا تھا۔ اماں جی آرام سے تخت پر بیٹھی پان کھا رہی تھیں۔ بھائی کے بچے اسماء اور سہیل صحن میں بیٹھے کھیل رہے تھے اور وہ بستر پر لیٹی سوچ رہی تھی کہ یہ ماحول کس قدر یکساں ہے۔ غیر تبدیل شدہ … اسی طرح… میرے لیے کیا ساری زندگی یہی ایک ساکت اور منجمد ماحول رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے اس طرز سے اب میں بیزار ہوگئی ہوں۔ تھک گئی ہوں اس یکسانیت سے… یہاں کوئی نیا پن نہیں… تبدیلی آئی ہے تو میرے وجود میں… کہ اب بالوں میں جابجا سفید بال نظر آنے لگے ہیں۔ چہرہ بھی تھکا ہوا اور اداس دکھائی دیتا ہے۔ شگفتگی اور تازگی جیسے غائب ہوگئی ہوں۔ یا اللہ …! ایسا کیوں ہوا؟ ریحانہ کی شادی کو بھی اب سات سال ہوچکے تھے۔

اور سعید اب کہاں ہوگا۔ اس نے سنا تھا کہ وہ شادی کے بعد خلیج کی کسی ریاست میں چلا گیا تھا۔ کاش اس کے ساتھ جانے والی ہستی وہ خود ہوتی! دل میں ایک پھانس کی سی چبھن جاگ اٹھی۔

بھابھی نے آج اس سے ذکر کیا کہ اماں جی کہہ رہی تھیں کہ اخبار میں ضرورتِ رشتہ کا اشتہار دیں۔ شاید اسی طریقے سے کوئی بات بن جائے! ‘‘

’’ضرورتِ رشتہ کا اشتہار!‘‘ ساجدہ زیرِ لب بڑبڑائی۔

’’ارے اس طرح بھی اچھے رشتے مل جاتے ہیں۔ جب خدا کو کوئی کام کرانا منظور ہوتا ہے تو وہ کسی بھی طرح کرادیتا ہے۔‘‘ بھابھی نے کہا: ’’آج کل تو اخبار ان اشتہاروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔‘‘ اور بھابی کمرے سے باہر چلی گئیں۔

اس کے سارے وجود میں جیسے زلزلہ سا آگیا ہو۔ اس کا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھالے۔ اماں جی سے پوچھے آپ کو واقعی میرے لیے رشتہ چاہیے؟ اگر ایسا تھا تو بیسیوں اچھے رشتے آنکھیں بند کرکے کیوں لوٹا دئیے۔ بڑی بیٹی کے بعد سب سے چھوٹی بیٹی بھی رخصت ہوگئی۔ آپ کو میرا خیال کبھی نہ آیا۔ کیا مجھے ہمیشہ بیس بائیس سال ہی کا رہنا تھا۔ میری زندگی کیا اسی نو خیز عمر پر آکر ٹھہر جانی تھی جو آپ نے کبھی نہ سوچا کہ آگے کیا ہوگا؟

وہ لڑکیاں جو نوکری کرکے خاندان کو سہارا دیتی ہیں، ان کو یہی صلہ ملنا چاہیے کہ جب ان کی شادی کی عمر ہو تو یہ کہہ کر رشتے لوٹا دیے جاتے ہیںکہ ابھی ہمیں اس کا بیاہ نہیں کرنا ہے۔ اور جب گھر کی ضرورتیں جونک بن کر ان کی نو عمری اور تازگی کا رس چوس لیتی ہیں… گزرتے ہوئے ماہ و سال ان کے بالوں میں سفیدی اور چہرے پر پژمردگی بچھا دیتے ہیں،تب گھر والوں کو خیال آتا ہے کہ اب گھر سامان سے بھر چکا ہے چلو اس کو رخصت کرنے کی تدبیر کریں… محلے والوں، رشتے داروں سے کہا جاتا ہے کہ ہماری لڑکی کی شادی کرادو… بار بار منتیں کی جاتی ہیں… جب لوگ آکر اس بردبار… عمر رسیدہ عورت کو دیکھتے ہیں اور انکار کرکے چلے جاتے ہیں تو کیسے کیسے کوڑے احساسات پر پڑتے ہیں، کسی نے اس کا اندازہ کیا ہے؟ ہمیں کیوں ادھیڑ عمر ہونے دیا گیا؟ ہمیں کیوں میکے کی دہلیز پر روک لیا گیا؟ کیوں ہمیں وقت پر رخصت نہیں کیا گیا؟ بتائیں اماں جی… ؟ اور اب آپ اخبار میں ضرورتِ رشتہ کا اشتہار دے کر مجھے مزید رسوا کرائیں گی… کیا ابھی کوئی کسر رہ گئی ہے؟ عورتیں آتی ہیں اور مجھے بڑی عمر کی ہونے کا طعنہ دے کر، میرا کلیجہ چھید کر چلی جاتی ہیں، نہیں بننا مجھے تماشا… نہیں چاہیے مجھے رشتہ… نہیں کرنی مجھے شادی… میری ذات جو ادھوری ہے اسے ایسا ہی رہنے دیں۔

… جو تنہائی میرا مقدر ہے… میرے لیے وہی کافی ہے… تھے کچھ خواب میرے بھی… ٹوٹ گئے… بکھر گئے… دم توڑ گئے… اب نہ چھیڑیں اس قصے کو … یہ خوشی میرا مقدر نہیں… تب گرم گرم آنسوؤں کا ریلا اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔ دیر تک وہ بیٹھی روتی رہی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں