خرابی آئی کہاں سے؟

محمود جمال

سجاد ایک پڑھا لکھا اور روشن خیال نوجوان تھا۔ اس نے طے کررکھا تھا کہ جب بھی اس کی شادی ہوگی، وہ جہیز بالکل نہیں لے گا۔ لیکن جب خوشی کا یہ موقع آیا، تو والدین اور خاندان کے سامنے بے بس ہوگیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بیوی کے ہمراہ جہیز آیا۔

یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جہیز کو نبی اکرمﷺ کی سنت ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس بات کی بڑی شہرت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو جہیز میں چند چیزیں عطا فرمائی تھیں۔ یعنی ایک چٹائی، پانی کا مشکیزہ، ایک آدھ برتن اور چکی وغیرہ۔دورِ جدید کے مجتہدین اسی بات سے دلیل نکال لائے کہ چونکہ اس وقت ضروریات محدود نوعیت کی تھیں اس لیے جہیز بھی محدود تھا لیکن اب وقت بدل چکا ہے، ضروریات متنوع ہوچکی ہیں اور عصری تقاضے کچھ اور ہیں لہٰذا اب جہیز کوٹھیوں، کاروں اور کارخانوں تک بھی ہوسکتا ہے۔ اصل معاملہ کیا ہے؟ یہ قابلِ غور ہے۔

جہیز کی روایت

حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو حضورؐ نے پوچھا: ’’تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟‘‘عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ! میرے تمام حالات آپ کے سامنے ہیں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں سوائے ایک زرہ کے۔‘‘آپؐ نے فرمایا: اسی زرہ سے تم مہر ادا کردو۔‘‘حضرت علیؓ نے وہ زرہ فروخت کی جس سے ۴۰۰ درہم حاصل ہوئے۔ حضرت علیؓ نے وہ درہم لاکر حضور ؐ کی خدمت میں پیش کیے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’اس رقم سے خوشبو اور گھریلو ضروریات کی چیزیں خرید لاؤ۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ سامانِ جہیز تیار کرنے کی ذمہ داری بھی ہونے والے شوہر ہی پر ہے، جبکہ ہم نے بالکل برعکس طریقہ اختیار کرلیا جس کی کہیں کوئی سند نہیں۔

جہیز اور اس قسم کی دوسری باتیں دراصل ہندوپاک کے مسلمانوں میں زیادہ ہیں۔ چونکہ ان کا واسطہ ہندو مت سے پڑا جس کی جڑیں اس سرزمین کے اندر تک تھیں لہٰذا دوسری قوموں اور مذاہب پر اس کا اثر پڑنا لازم تھا۔ مسلمانو ںنے بھی وہ اثر قبول کیا بلکہ اپنی زندگی کے کافی سارے حصے کو اسی رنگ میں رنگ لیا۔ شادی بیاہ کی رسوم تو ہم نے بطور خاص ہندوؤں سے مستعار لیں اور یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کابیشتر حصہ بھی انہی سے اخذ کیا۔ مثال کے طور پر ہندو اپنے مندروں میں بھجن گاتے ہیں، یہ ان کے مذہب کا حصہ تھا اور ہے۔ ہم نے بھجن کے مقابلے میں قوالی ایجاد کر لی۔ لیکن ہم مسجد میں بیٹھ کر گا نہیں سکتے تھے لہٰذا درگاہوں میں بیٹھ کر گانے لگے۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ جہیز کا تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلامی معاشرے نے عورت کو حصولِ معاش اور مالی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہندو مت ہماری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔

کالی کملی والے

کالی کملی کا مطلب ہے کالی چادر اوڑھنے والا۔ ہندو اپنے اوتار کرشن جی مہاراج کو، کالی کملی والا کہتے ہیں۔ ہم نے اندھی تقلید میںحضور نبی اکرمﷺ کو خواہ مخواہ، کالی کملی والا کہنا شروع کردیا حالانکہ حضور اکرمؐ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کالی چادر استعمال نہیں کی، صرف بعض مواقع پر سیاہ عمامہ (پگڑی) استعمال فرمایا ہے۔ البتہ ہندوؤں کے اوتار کرشن کالی چادر استعمال کرتے تھے۔

مرد عورت پر ’قوام‘ ہے

اسلام نے مرد کو عورت پر اگر ’قوام‘ (نگران) بنایا ہے تو اس کی معقول وجہ ہے۔ مرد ہر طرح سے عورت کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ چاہے وہ سو طرح کے جھمیلے، طرح طرح کی مشقتوں سے گزرے، سختیاں اٹھائے، وہ بہر صورت بیوی کو کما کر دے گا۔ اس کی حفاظت اور زمانے کے سرد و گرم سے اسے بچانے کا ذمے دار بھی مرد ہے۔اس صورتِ حال میں اگر مرد کو نگران یا ایک برتر درجہ دیا گیا ہے تو اس کی معقول وجہ ہے۔ لیکن شادی کے وقت عورت (یا اس کے گھر والے) مال خرچ کریں، مرد کو جہیز کی صورت میں پورا گھر بنا کر دیں اور برتری کے سنگھاسن پر پھر بھی مرد ہی بیٹھے، یہ انصاف کی بات یقینا نہیں ہوگی۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔

کیا ہم ایک سلجھی ہوئی قوم ہیں؟

بظاہر تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے کسی اعلیٰ درجے کو پالینا نسبتاً آسان نظر آتا ہے لیکن اپنے انداز و اطوار کو بدلنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دراصل ہم میں سے اکثر ’انا‘ کے زبردست اسیر ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ دوسروں میں تو یہ اور یہ خرابی ہے لیکن ’میں‘ اس سے بچی ہوئی ہوں۔ اسی بنا پر تقریباً ہر کوئی دوسرے سے یہ کہتا ہے ’’تم سدھر جاؤ‘‘ لیکن یہی بات وہ اپنے آپ سے نہیں کہتا۔ ہم قطار سے بس میں سوار ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ سڑک پر، بازار میں، ہر جگہ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اور ہر قیمت پر’میں‘ ہجوم کے اندر سے اپنی گاڑی گزار کر نکل جاؤں، چاہے اس کے نتیجے میں کوئی بے چارہ گاڑی کے نیچے آکر کچلا جائے۔ کیلا کھا کر اس کا چھلکا بازار یا سڑک پر پھینکنے میں ہم کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے،اب اس چھلکے پر سے کوئی بے گناہ پھسل کر اپنی ہڈی تڑوا بیٹھے تو ہماری بلا سے!

ہماری روز مرہ زندگی میں انا پرستی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت انگشت بدنداں رہ جائے۔ بدقسمتی یہ کہ اس جھوٹی انا کی ذہنی بیماری کو ہم ’غیرت‘ کا نام دیتے ہیں۔ ساس اور بہو کا جھگڑا ’انا‘ کے مظاہرے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کے درمیان اصل اختلاف اس بات پر ہوتا ہے کہ گھریا شوہر پر کس کا حق زیادہ ہے۔ انھیں اپنا حق تو یاد رہتا ہے، فرض نہیں!

ہم دوسرے کی خطا معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے جبکہ اپنے آپ کو سات خون بھی معاف کردیتے ہیں۔

شب برات

شب برات کو ہم مسلمانوں کا تہوار سمجھتے ہیں جبکہ یہ تہوار ہرگز نہیں، کتاب و سنت سے اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔ صحابہ کرامؓ کے زمانے بلکہ تابعین، تبع تابعین حتی کہ ائمہ مجتہدینکے دور میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ ذرا غور فرمانے کی زحمت کریں تو پتا چلے گا کہ اس دن حلوہ پکانے، آتش بازیاں چھوڑنے اور دئے جلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ شب برات کے جواز میں اگر کوئی روایت اسلام میں ملتی ہے تو صرف اتنی کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرہویں شب حضرت عائشہؓ حضور نبی اکرم کو بستر پر موجود نہ پاکر آپؐ کی تلاش میں بقیع کے قبرستان پہنچیں تو آپ ﷺ کو وہاں موجود پایا۔

وجہ دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا: ’’اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمان سے دنیا کی طرف متوجہ ہوتے اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔‘‘ لیکن امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس رات کے بارے میں جتنی روایات بھی سامنے آئی ہیں ان میں سند کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی کمی اور کمزوری ضرور موجود ہے لیکن اگر اس کی افادیت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس رات عبادت اور اپنے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔ اس کے سوا جو کچھ ہم کرتے ہیں، اس کی کہیں سے بھی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ آتش بازی اور چراغاں کرنے کی روایت بھی ہم نے حسبِ معمول ہندوؤں کے تہوار دیوالی سے اخذ کی ہے۔

عید میلاد النبیؐ

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضور رحمۃ للعالمینؐ نے نہ تو اپنی حیاتِ مبارکہ میں اپنی سالگرہ منائی اور نہ ہی اس کا حکم دیا۔ خلفائے راشدین اور دیگر اصحابِ رسولؐ نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا حالانکہ صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر آپؐ کی سنت کا عامل اور کون ہوسکتا ہے؟ نجات اور بخشش میلاد منانے سے نہیں بلکہ آپؐ کی سنت اور اسوہ کو اپنانے سے ہوگی۔ اسی لیے قرونِ اولیٰ میں اس دن کو منانے کی کوئی مثال موجود نہیں اور جہاں تک منانے کا سوال ہے، اس میں بھی شائستگی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ اس مبارک دن میں آخر شور وغوغا اور ہلڑبازی کی گنجائش بھلا کیسے نکل سکتی ہے؟ اربابِ اہل فکر کو اس طرف توجہ دینی چاہیے وہ عوام الناس کو بتائیں کہ ہمارے تہوار اصل میں صرف دو ہیں۔ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146