سجاد ایک پڑھا لکھا اور روشن خیال نوجوان تھا۔ اس نے طے کر رکھا تھا کہ جب بھی اس کی شادی ہوگی وہ ہرگز جہیز نہیں لے گا۔ لیکن جب خوشی کا یہ موقع آیا تو والدین او رخاندان کے سامنے بے بس ہوگیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بیوی کے ہمراہ جہیز آیا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جہیز کو نبی اکرم کی سنت کہا جاتا ہے اور جوازنہیں کہا جاسکتا۔ عورت کو زندگی کے نئے سفر کے لیے لوازمات حیات مہیا کرنا، ہونے والے شوہر ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس بات کی بڑی شہرت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو جہیز میں چند چیزیں عطا فرمائی تھیں، جن میں ایک چٹائی، پانی کا مشکیزہ ایک آدھ برتن اور چکی وغیرہ۔
دورِ جدید کے مجتہدین اسی بات سے دلیل نکال لائے کہ چوں کہ اس وقت ضروریات محدود نوعیت کی تھیں اس لیے جہیز بھی محدود تھا لیکن اب وقت بدل چکا ہے، ضروریات متنوع ہوچکی ہیں اور عصری تقاضے کچھ اور ہیں لہٰذا اب جہیز کوٹھیوں، کاروں اور کارخانوں تک بھی ہوسکتا ہے۔ اصل معاملہ کیا تھا؟ پیش خدمت ہے۔
جہیز کی روایت
حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو حضور نے پوچھا ’’تمہارے پاس مہرا ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟
عرض کیا ’’یا رسول اللہ! میرے تمام حالات آپ کے سامنے ہیں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں سوائے ایک زرہ کے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’اسی زرہ سے تم مہر ادا کردو۔‘‘
حضرت علیؓ نے وہ زرہ فروخت کی جس سے ۴۰۰ درہم حاصل ہوئے۔ حضرت علیؓ نے وہ درہم لاکر حضور کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اس رقم سے خوشبو اور گھریلو ضروریات کی چیزیں خرید لاؤ۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ سامان جہیز تیا رکرنے کی ذمہ داری بھی ہونے والے شوہر ہی پر ہے جب کہ ہم نے بالکل برعکس طریقہ اختیار کرلیا جس کی کہیں کوئی سند نہیں۔
جہیز اور اسی قسم کی دوسری باتیں در اصل ہندو پاک کے مسلمانوں میں زیادہ ہیں۔ چوں کہ ان کا واسطہ ہندو مت سے پڑا جس کی جڑیں اس سرزمین کے اندر تک تھیں لہٰذا دوسری قوموں او رمذاہب پر اس کا اثر پڑنا لازم تھا۔ مسلمانوں نے بھی وہ اثر قبول کیا بلکہ اپنی زندگی کے کافی سارے حصے کو اسی رنگ میں رنگ لیا۔ شادی بیاہ کی رسومات تو ہم نے بطور خاص مستعار لیں اور یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کا پیشتر حصہ بھی انہی سے اخذ کیا۔ مثال کے طو رپر مندروں میں بھجن گائے جاتے ہیں یہ ان کے مذہب کا حصہ تھا اور ہے۔ ہم نے بھجن کے مقابلے میں قوالی ایجاد کرلی ان کو ہم مسجد میں بیٹھ کر گا نہیں سکتے تھے لہٰذا درگاہوں میں جاکر گانے لگے۔
بہرحال یہ تو طے ہے کہ جہیز کا تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلامی معاشرے نے عورت کو حصول معاش اور مالی ذمے داریوں سے فارغ رکھا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہندومت ہماری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔
کالی کملی والا
کالی کملی کا مطلب ہے کالی چادر اوڑھنے والا۔ ہندو اپنے اوتار کرشن جی مہاراج کو کالی کملی والا، کہتے ہیں۔ ہم نے اندھی تقلید میں حضور نبی اکرمﷺ کو خواہ مخواہ کالی کملی والا، کہنا شروع کردیا حالاں کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کالی چادر استعمال ہی نہیں کی، صرف بعض مواقع پر سیاہ عمامہ (پگڑی) کا استعمال فرمایاہے۔ البتہ ہندوؤں کے اوتار کرشن کالی چادر استعمال کرتے تھے۔
ماورائے ادراک قصے
جب ہم نے دیکھا کہ ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کے بڑے عجیب و غریب محیر العقول اور ماورائے ادراک قصے کہانیاں ہیں، تو سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں لہٰذا اسی انداز کے یا ان سے ملتے جلتے قصے ہم نے گھڑے، ان قصوں کو داستان امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ، کا قصہ بنایا اور مزید یہ کہ ہر صاحب قبر بزرگ کی ذات پر ان کی کرامات کو چسپاں کر دیا۔
اس سلسلہ ہائے تگ و دو اور ملاوٹ کے ان کرشموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین خالص نے ایک عجیب و غریب ملغوبے کی شکل اختیار کرلی اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ کرامتوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ اللہ کے صالح ترین بندے کو بھی ہم اسی وقت بزرگ مانتے ہیں جب اس سے کرامتیں وابستہ ہوں۔
اسلام نے مرد کو عورت پر اگر قوام بنایا ہے تو اس کی معقول وجہ ہے۔ مرد ہر طرح سے عورت کی کفالت کا ذمے دار ہے۔ چاہے وہ سو طرح کے جھمیلوں اور طرح طرح کی مشقتوں سے گزرے، سختیاں اٹھائے، وہ بہرصورت بیوی کو کما کر دے گا۔ اس کی حفاظت اور زمانے کے سرد و گرم سے اسے بچانے کا ذمے دار بھی مرد ہے۔
اس صورتِ حال میں اگر مرد کو قوامیت یا ایک برتر درجہ دیا گیا ہے تو اس کی معقول وجہ ہے۔ لیکن شادی کے وقت عورت (یا اس کے گھر والے) مال خرچ کرے، مرد کو جہیز کی صورت میں پورا گھر بنا کر دے اور برتری کے سنگھاسن پر پھر بھی مرد ہی بیٹھے، یہ انصاف کی بات یقینا نہیں ہوگی۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔
ہمارا فکر و عمل
بظاہر تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے کسی اعلیٰ درجے کو پالینا نسبتاً آسان نظر آتا ہے لیکن اپنے اندا ز و اطوار کو بدلنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دراصل ہم میںسے اکثر ’انا‘ کے زبردست اسیر ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ دوسروں میں تو یہ اور یہ خرابی ہے لیکن ’میں‘ اس سے بچا ہوا ہوں۔ اسی بنا پر تقریباً ہر کوئی دوسرے سے یہ کہتا ہے ’’تم سدھر جاؤ‘‘ لیکن یہی بات وہ اپنے آپ سے نہیں کہتا۔ ہم قطار سے بس میں سوار ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ سڑک پر، بازار میں، ہر جگہ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اور ہر قیمت پر ’میں‘ ہجوم کے اندر سے اپنی گاڑی گزار کر نکل جاؤں، چاہے اس کے نتیجے میں کوئی بے چارہ گاڑی کے نیچے آکر کچلا جائے۔ کیلا کھاکر اس کا چھلکا بازار یا سڑک پر پھینکنے میں ہم کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، اب اس چھلکے پر سے کوئی بے گناہ پھسل کر اپنی ہذی تڑوا بیٹھے تو ہماری بلا سے!
ہماری روز مرہ زندگی میں انا پرستی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت انگشت بدنداں رہ جائے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس جھوٹی انا کی ذہنی بیماری کو ہم غیرت کا نام دیتے ہیں۔ ساس اور بہو کا جھگڑا ’انا‘ کے مظاہرے کے سوا ور کچھ نہیں۔ ان کے درمیان اصل اختلاف اس بات پر ہوتا ہے کہ گھر یا شوہر پر کس کا حق زیادہ ہے۔ انھیں اپنا حق تو یاد رہتا ہے، فرض نہیں!
ہم دوسرے کی خطا معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے جب کہ اپنے آپ کو سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ بس بدلہ لینا ضروری ہے، اس کے بغیر روح کو چین نہیں ملتا۔ ہماری فلموں او رڈراموں نے بھی بدلے کی آگ کو بہت بھڑکایا ہے۔
ہمارے رہن سہن کے طریقے، نشست و برخواست، گفت و شنید، طرزہائے اکل و شرب ہرگز ایسے نہیں جنھیں اسلامی تہذیب کا طریقہ کہا جاسکے۔ غلاظت، گرد و غبار اور کوڑے کرکٹ سے ہمیں کوئی پرہیز نہیں۔ ہماری گلیاں اور بازار، کوڑے گھروں، کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں غلاظت کے ڈھیر جس طرح نصف صدی پیشتر تھے ویسے ہی آج بھی ہیں۔ یہ ہے ہماری ترقی اور ہماری انسانی اور قومی شعور کی بالیدگی۔
بارش کے چند چھینٹوں سے کیچڑ کی بدولت گلیوں، بازاروں اور ان میں سے گزرنے والے سفید پوشوں کی جو حالت ہوتی ہے وہ بیانیہ نہیں دیدنی ہے۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جن کے دین میں صفائی آدھے ایمان کا درجہ رکھتی ہے وہ اس قدر غلاظت میں لتھڑی ہوئی زندگی آخر کیسے بسر کرلیتے ہیں اور غلاظت میں ملوث زندگی بھلا اسلامی کیسے ہوسکتی ہے۔
شبِ برات
شب برات کو ہم مسلمانوں کا تہوار سمجھتے ہیں جب کہ یہ تہوار ہرگز نہیں، کتاب و سنت سے اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔ صحابہ کرامؓ کے زمانے بلکہ تابعین، تبع تابعین حتی کہ ائمہ کرام کے دور میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ ذرا غور فرمانے کی زحمت کریں تو پتا چلے گا کہ اس دن حلوے پکانے، آتش بازیاں چھوڑنے اور دیے جلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ شب برات کے جواز میں اگر کوئی روایت اسلام میں ملتی ہے تو صرف اتنی کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرہویں شب حضرت عائشہ ؓ حضور نبی کریمﷺ کو بستر پر موجود نہ پاکر آپ کی تلاش میں بقیع کے قبرستان پہنچیں تو آپﷺ کو وہاں موجود پایا۔
وجہ دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا: اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمانِ سے دنیا کی طرف متوجہ ہوتے اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں لیکن امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس رات کے بارے میں جتنی روایات بھی سامنے آئی ہیں ان میں سند کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی کمی اور کمزوری ضرور موجود ہے لیکن اگر اس کی افادیت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس رات عبادت اور اپنے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔ اس کے سوا جو کچھ ہم کرتے ہیں، اس کی کہیں سے بھی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ آتش بازی اور چراغاں کرنے کی روایت بھی ہم نے حسب معمول ہندوؤں کے تہوار دیوالی سے اخذ کی ہے۔
عید میلاد النبی
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضور رحمۃ للعالمینؐ نے نہ تو اپنی حیاتِ مبارکہ میں اپنی سالگرہ منائی اور نہ ہی اس کا حکم دیا۔ خلفائے راشدین اور دیگر اصحاب رسولؐ نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا حالاں کہ صحابہ کرامٍ سے بڑھ کر آپﷺ کی سنت کا عامل اور کون ہوسکتا ہے؟ نجات اور بخشش میلاد منانے سے نہیں بلکہ آپؐ کی سنت اور اسوہ کو اپنانے سے ہوگی، اسی لیے قرونِ اولیٰ میں اس دن کو منانے کی کوئی مثال موجود نہیں اور جہاں تک منانے کا سوال ہے اس میں بھی شائستگی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ اس مبارک دن میں آخر شور و غوغا اور ہلڑ بازی کی گنجائش بھلا کیسے نکل سکتی ہے؟ اربابِ اہل فکر کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ وہ عوام الناس کو بتائیں کہ ہمارے تہوار اصل میں صرف دو ہیں ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔lll