خرچ میں میانہ روی

ثمرین فردوس بنت مرزا ظریف اللہ بیگ

وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَ تُسْرِفوُاْإِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۔ (الاعراف:۳۱)

’’کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

مندرجہ بالا آیت آج کی معاشی زندگی کی راہنما و رہبر ہے اور اعتدال کا راستہ دکھاتی ہے۔ تاکہ آپ ذلت و محتاجی سے محفوظ رہیں۔ معاشی زندگی میں انسان کے لیے دو طرزِ عمل ہوتے ہیں ایک فضول خرچی کا طرزِ عمل اور دوسرا بخیلی و کنجوسی کا راستہ۔

اسلام نہ فضول خرچی کو پسند فرماتا ہے اور نہ ہی کنجوسی و بخل کو۔ اسلام دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ سجھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’(رحمن کے بندے وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو بے جا اسراف نہیں کرتے اور نہ (کمی) بخل کرتے ہیں بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ‘‘(فرقان:۶۷)

فضول خرچی

فضول خرچی کی دو صورتیں ہیں ایک ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اور دوسری یہ کہ بے محل خرچ کیا جائے۔ پہلی صورت کو اسراف اور دوسری صورت کو تبذیر کہتے ہیں۔ اگر آپ سوتی کے بجائے ریشمی کپڑا پہنتے ہیں تو یہ اسراف ہے۔ اور اگر آپ اپنے بچے کی تعلیمی فیس نہ دے کر آتش بازی اور پٹاخے خرید کر دیں تو یہ بے محل خرچ اورتبذیر ہے۔ خرچ کرنے میں ہمیشہ چند چیزیں دیکھنی چاہئیں: ٭ آپ اپنی حیثیت دیکھیں اور چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں۔ ٭ آپ ضرورتوں کا جائزہ لیں اور اگر جائز ضرورت ہو تو حیثیت کے مطابق خرچ کریں ناجائز ہو تو رک جائیں۔ ٭ خرچ کرنے میں تکلف، نمائش، ریاکاری ، غرور ، عیاشی اور نفس پرستی کا شکار نہ ہوں۔ اگر آپ حیثیت، ضرورت اور کفایت تینوں اصولوں کو مدنظر رکھ کر خرچ کریں۔ یہ وہ بنیادی ہدایات ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ہمیں ملتی ہیں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اسراف سے اور فضول خرچی کرنے سے روکا ہے۔ اور بے جا خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ قرآن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۷)

اسراف

اسلام نے اسراف اور فضول خرچ کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ مال اللہ کی نعمت ہے اور اس کی امانت بھی۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا مال انسان کو بطور امانت دیا ہے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے راستے میں خرچ کرے۔ مال کو اللہ سے انسانی زندگی کے قیام اور اسے چلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اتنی اہمیت کی حامل چیز کو یوں ہی ضائع کرنا اللہ کی دولت کو برباد کرنا ہے۔ جس پر اللہ کے یہاں جواب دہی ہو گی۔ جبکہ اسراف مال کو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ہے۔ یہ زائد مال اللہ نے اس لیے دیا تھا کہ اس کے محتاج بندوں کی ضرورت میں کام آئے۔ لیکن ایسا نہ کرکے اسے ضائع کردیا یا ایسا بنادیا گیا کہ اس کا بنیادی رول جاتا رہا تو یہ اس کی امانت میں خیانت کا ارتکاب ہے جو انسانیت کے حق میں بھی جرم ہے اور اللہ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہے۔ اسراف کی یہ شکلیں ہمارے سماج میں ناسور بن کر پھیل رہی ہیں اور بے شمار لوگوں کو کنگال اور برباد کررہی ہیں۔

بخیلی و کنجوسی

بخیلی و کنجوسی قابلِ مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت ان الفاظ میں بیان کی ہے :’’اورجس نے بخل کیا اور اپنے خدا سے بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘ (اللیل:۸)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: آدمی میں یہ خصلتیں سب سے بری ہیں۔ انتہائی درجہ کا بخل و حرص، اور حد سے بڑھی ہوئی بزدلی۔‘‘ (ابوداؤد)

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’دھوکہ باز، بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔‘‘ (ترمذی)

اعتدال کیا ہے؟

توازن اور اعتدال کی جگہ دو کناروں کے درمیان ہے۔ ایک کنارہ افراط ہے اور دوسرا تفریط۔ ایک زیادتی ہے اور دوسرا کوتاہی ہے۔ ایک اسراف اور دوسرا بخل۔

اللہ صرف اعتدال کو پسند فرماتا ہے۔ نہ کہ افراط و تفریط کو، وہ جس طرح زیادتی کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا اسی طرح کوتاہی کرنے والوں کو بھی محبوب نہیں رکھتا۔ قرآن میں اللہ نے اپنے محبوب بندوں کے کچھ اوصاف حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ انہیں اللہ نے ’’عبادالرحمن‘‘ کا معزز لقب دیا ہے۔ ان کا ایک وصف اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘ (الفرقان)

اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ انسان ہر کام میں اور زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرے۔ اور اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ قرآن نے بار بار تاکید کی ہے کہ ولاتعتدوا یعنی حدِ اعتدال سے تجاوز نہ کرو۔ کیونکہ إنہ لا یحب المعتدین وہ تجاوز کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’القصد القصد تبلغوا‘‘ (میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو منزل تک پہنچ جاؤگے۔) اور فرمایا:من فقہ الرجل قصدہ فی معیشۃ۔ (احمد وطبرانی بروایت ابی الدرداء)’’اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے دانا ہونے کی علامتوں میں سے ہے۔‘‘

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑو۔‘‘ یعنی خرچ کے معاملے میں اعتدال پر قائم رہو۔

ہر ایک معاملے میں صحیح روش اعتدال ہی کی ہوتی ہے۔ انتہا پسندی اور شدت و غلو کسی اعتبار سے نہ دنیا کے لیے درست ہے اور نہ آخرت کے لیے مفید، بلکہ دونوں جگہ ناکامی و نامرادی ہی کا ذریعہ ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں