خنساؓ کا کردار دوہرانے والی

ترجمہ: تنویر عالم فلاحی

س: ہم آپ کا تفصیلی تعارف چاہتے ہیں؟

ج: میری زندگی مختلف مراحل سے گزری ہے اور تاحال گزر رہی ہے۔ فطری طور پر، ہر فلسطینی عورت کی طرح میرا تعلق بھی مذہبی خاندان سے ہے جو دین پر عامل ہے۔ معاشی اعتبار سے ہمارا خاندان ایک متوسط خاندان تھا۔ اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران میں نمایاں کارکردگی پیش کرنے والوں میں سے تھی۔ ثانوی تعلیم کے دوران میری شادی ہوگئی اور شوہر کے گھر آجانے کی وجہ سے میں اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکی۔ البتہ ہمارے یہاں ایک شیخ آتے تھے جو دینی اسباق پڑھاتے تھے اور لیکچر دیا کرتے تھے۔ لیکن ۲۰ برس قبل اس طرح کا دینی و مذہبی التزام نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔ جس محلے میں میری رہائش تھی وہاں مذہبی عورتیں نہیں تھیں اور میں پہلی عورت تھی جس نے پردے کے استعمال میں پیش قدمی کی تھی حالاں کہ اس سلسلے میں مجھے خود اپنے شوہر کے اہل خانہ کی جانب سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری عورتوں نے میرے اس لباس کو قبول ہی نہیں کیا۔ لیکن اس سب کے باوجود میں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اپنی اولاد کے دلوں میں اسلامی تعلیمات و معانی کو جاگزیں کردوں اور انھیں راہ نجات پر لگادوں۔ جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ابتداء میں بہت مشکلات پیش آئیں کیونکہ اس محلے کا عام ماحول اور فضا دینی ماحول کے برعکس تھی۔ تاہم میں نے اس ماحول پر غلبہ حاصل کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے میرے بچے دین میں رچ بس گئے اس کے بعد صالح تربیت نے بھی ان کے اندر دین کے بیج بوئے۔ اس کے بعد میں اور میرا خاندان چار برس کی مدت کے لیے لیبیا چلے گئے۔ وہاں سے واپسی کے بعد یہاں کا معاشرہ انتفاضہ اور جہادی حالات کے طفیل بہت کچھ بدل چکا تھا۔ ان تمام حالات نے لوگوں کا رشتہ دین سے بہت مضبوط کردیا اور لوگ عبادت اور مسجد سے قریب ہوگئے۔ لیکن سب سے اہم عامل جس نے مجھے تحریک سے منسلک ہونے کی طرف راغب کیا وہ مبارک انتفاضہ تھی کیونکہ سخت حالات ہی لوگوں کو اپنے رب سے قریب کرتے ہیں۔

س: دین کو اختیار کرنے اور پردہ اپنانے کے علاوہ آپ کی زندگی کا کوئی اور اہم پہلو؟

ج: دینی زندگی اختیار کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا موڑ ہے جس میں انتفاضہ کا ظہور، جہاد میں شمولیت، جلاوطنوں کو پناہ دینا اور میرے بیٹوں کی فوج میں شمولیت شامل ہے۔ یہ میری زندگی کا وہ پڑاؤ ہے جہاں قید و بند اورمیرے بیٹوں کی شہادت ہوئی۔ انتفاضہ کا ایک مرحلہ زخمی ہونے اور قید ہونے کا ہے اور آخری مرحلہ شہادت کا ہے۔

س: چونکہ فلسطین گھرانے دین سے چمٹے ہوئے نہیں تھے تو کیا اس مزاحمت کی روح کچھ اور یعنی مثال کے طور پر عرب قومیت ہے؟

ج: جہاں تک میرے گھر والوں کا تعلق ہے ان کا تعلق اسلامی فکر سے ہے۔ اور یہ مفہوم انتفاضہ (۱۹۸۷) سے پہلے بھی موجود تھا۔ اس وقت دوسرے عوامل بھی تھے۔لیکن مزاحمت کا جو مطلب اور مقصد ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ بہر حال پہلے موجود نہیں تھا۔

س: فلسطین کی عام صورت حال نے خواتین اور گھر کے ہر فرد پر جدوجہد میں شرکت کو لازم کردیا ہے۔ تو فلسطینی عورت کی اندرونی صورت حال کیا ہے؟

ج: سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے اثرات ہمارے ہر ایک کی زندگی پر پڑے ہیں۔ دونوں انتفاضہ کے دوران عورت نے اپنا نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینی عورت نے جہاد کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور روز اسے شہادت کی توقع رہتی ہے۔ مثلاً اس کے بیٹے، اس کا شوہر، اس کے بھائی جہاد میں شہید ہوں۔ اور ہر فلسطینی عورت کی طرح میرے لیے شہداء کے مناظر سے مبارک منظر کوئی نہیں ہے۔ ہر کوئی ان پر فخر کرتا ہے۔ البتہ ہماری عورتیں دو معاملات سے دوچار ہوتی ہیں۔ یا تو وہ شہید کی ماں ہے یا اس کی بیوی، یا وہ کسی فلسطینی قیدی کی ماں یا بیوی ہے۔ ایسی صورت میں اس کی زندگی بڑی پرتکلیف ہوتی ہے۔ ہم تمام عورتیں ان تکالیف کو جھیل رہی ہیں۔قیدیوں سے ملاقات کرنا اہل خاندان کے لیے بڑا تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ میرا بیٹا شہادت سے قبل دو سال تک صہیونیوں کے تعاقب کا شکار رہا۔ اس دوران اس کی بیوی اور میں نے بہت مصیبتیں جھیلیں، کیوںکہ جس کا تعاقب کیا جارہا ہو وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے تاکہ صہیونیوں کے جال میں نہ پھنس جائے۔ میں یہ کہنے کی استطاعت رکھتی ہوں کہ فلسطینی عورت نے خود کو ان ناگوار حالات اور تکالیف کے لحاظ سے خود کو ڈھال لیا ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود فلسطینی عورت کی زندگی گزرر ہی ہے اور مسلسل صبروثبات اور امانت و محبت کے ساتھ اپنا کردار ادا کررہی ہے، اپنے بیٹوں کی تربیت کررہی ہے اور اس زمین پر بسنے والی دوسری قوموں کی عورتوں کی طرح ہی فطری زندگی جی رہی ہے۔

س: اپنے رشتہ دار قیدیوں سے ملنے میں کیا کیا دشواریاں پیش آتی ہیں؟

ج: ہم صبح سویرے نکلتے ہیں، یا پھر رات ہی میں نکل پڑتے ہیں۔ ۲۴ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک لمبے عذاب سے گزرنے کے بعد یعنی انتہائی نازیبا تفتیش کے مرحلے سے گزرنے کے بعد جس میں عورت تقریباً برہنہ ہوجاتی ہے، ملاقات کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں اس وقت بہت ہی اہانت محسوس ہوتی ہے جب ہماری تلاشی لی جاتی ہے۔ بعض ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سی خواتین راستے میں جاں بحق ہوجاتی ہیں۔ قیدیوں کے لیے تیار کی ہوئی چیزیں ان تک پہنچ ہی نہیں پاتیں، صہیونی کارندے انھیں لے اڑتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں سے آزادی کے ساتھ بات نہیں کرنے دیتے۔ مثلاً میں اپنے بیٹے وسام سے پانچ سال پہلے ملی تھی اس کے بعد انھوں نے مجھے ملنے نہیں دیا۔

س: صابر فلسطینی خاتون کی زندگی میں خوفناکی کی اس صورت حال کا کیا مقام ہے؟

ج: اس کا ردعمل وہی ہوتا ہے جو دنیا کی ہر عورت کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ ہر وقت اسے غموں کا سامنا رہتا ہے۔ رات دن وہ اسرائیلی جہازوں کو دیکھتی رہتی ہے جو مجاہدین کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ اس سے خوفناک خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ آج کل وہ لوگ ایف ۱۶ طیاروں کا استعمال کررہے ہیں جن سے ہوا میں زبردست شور ہوتا ہے اور مکانات ہل جاتے ہیں یہاں تک کہ میرے کمرے میں تو دراڑیں آگئیں۔ بچے اور بڑے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ فلسطینی عورت اسرائیل کے عذاب اور جرائم کے زیر سایہ اس طرح کی زندگی گزار رہی ہے۔

س: کیا ہر ماں مزاحمت میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہے یا ایسی مائیں بھی ہیں جو اپنے بچوں کو ان سب سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں؟

ج: ہر معاشرے میں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں آپ یہ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ انتفاضہ سے منسلک ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر اہل ثروت لوگوں میں ہیں۔

س: مغرب میں یہ پروپیگنڈہ اور افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ فلسطینی عورتیں جذبات و احساسات سے عاری ہوتی ہیں۔ ان کا دل مردہ ہوچکا ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کو شہید ہونے کے لیے بھیج دیتی ہیں۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گی؟

ج: افسوس کی بات ہے۔ انھیں اسلامی مفاہیم کا ادراک نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ انھیں اس کا ادراک کرنے کی توفیق و ہدایت بخشے۔ میں ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ: میں اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرتی ہوں اور میں انھیں اعلیٰ ترین مقصد کے لیے تیار کررہی ہوں اور وہ اعلیٰ ترین مقصد ہے آزادی و خود مختاری۔

س: آپ کی قوت و ہمت کا راز کیا ہے، خاص طور سے جب آپ اپنے کسی بیٹے کی شہادت کی خبر سنتی ہیں، ایمان، سنگ دلی یا کچھ اور ؟

ج: ایمان زندگی کی بنیاد ہے اور دین اس کا دروازہ ہے۔ اگر دین کی جانب سے ظالم و جابر کے خلاف مزاحمت نہ ہو تو یہ ظالم و جابر قوتوں کے ظلم و جور کو بڑھاواہی دے گا۔ لہٰذا شجاعت و بہادری یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے، اس کو چلینج کیا جائے اور اللہ کی قضا و قدرت پر راضی رہا جائے۔ کیونکہ ایمان اور صبر ان دونوں کی جگہ دل ہے نہ کہ آنکھ۔ مجھے اس وقت بہت غصہ آیا جب لوگوں نے میرے بارے میں یہ لکھا کہ میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی شہادت پر ایک بھی آنسو نہیں بہایا۔ میں روئی، لیکن صبر کے ساتھ۔ حسرت و درد کے باوجود میں نے جزع و فزع نہیں کی اور نہ ہی مجھے اس پر ندامت کا احساس ہوا۔ نبی اکرمؐ بھی اپنے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ کی وفات پر رو دئے تھے۔ اب اگر میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی جدائی پر نہ روتی تو میں انسان ہی نہ رہتی۔ لیکن میرے جذبات میرے قابو میں ہیں نہ کہ میں اپنے جذبات کے قابو میں ہوں۔ ہم شریعت کے مطابق اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں تاکہ زندگی اپنے دھارے پر چلتی رہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146