خواب دیکھنا ہر امیر و غریب شریف و رذیل، صحت مند و بیمار، بہادر وبزدل، فضول خرچ و بخیل ہر ایک کا بے بہا اور خوش گوار حق ہے اور یہ حق مفت میںحاصل ہوتا ہے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری ممکن ہی نہیںہے۔ یہ قدرت کی طرف سے ایسی انمول دولت ہے جسے آپ جب چاہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ ہزارہا پابندیوں کے باوجود آپ کھڑے کھڑے یا بیٹھے بیٹھے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اگر حکیموں کی بات مان بھی لی جائے کہ معدے کی خرابی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے تو ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو بھوکے پیٹ بھی جی بھر کے خواب دیکھتے ہیں۔ مشاہدے شاہد ہیں کہ صحت مند لوگ بھی مسلسل خواب دیکھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی بدنصیب ایسا ہو جو خواب کی دولت سے محروم ہو۔ خواب تو چنگیز خاں اور ہلاکو خاں بھی دیکھا کرتے تھے جو انسانوں کی کھوپڑیوں سے مینار بنایا کرتے تھے بس اتنا اضافہ ہوتا تھا کہ خواب میں وہ اس بات کی تمنا کرتے تھے کہ ان میناروں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو۔ اور دور دور کے لوگ ان کا نام سنتے ہی مرجائیں۔ یہ ان کی خواہش بھی تھی اور ان کے خوابوں کی تعبیر بھی۔
خواب تو بھر پور آزادی کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ خواب دیکھنے والے کا راز بھی ہوتے ہیں۔ دوسرا شخص ان کے کتنے ہی نزدیک ہو اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔ ہے نا انتہا درجے کی راز داری کی بات۔
خواب مختلف قسم کے ہوسکتے ہیں۔ یہ فارمولا ٹائپ ہرگز نہیں ہوتے۔ نوجوان جو خواب دیکھتا ہے اس میں لگاوٹ کی باتیں زیادہ نظر آتی ہیں۔ ساری انہونی باتیں ہونی بن جاتی ہیں۔ قہقہے ہوتے ہیں، چاروں طرف پھول ہی پھول کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ماحول معطر ہوتا ہے۔ خنک ہوا سنک رہی ہوتی ہے۔ دور دور تک کسی قسم کی رکاوٹ کا تصور بھی نہیں ہوتا۔ اگر لوگ ہوتے بھی ہیں تو وہ بے تعلق اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، روکتے یا ٹوکتے نہیں۔ قید و بند کی ساری پابندیاں یک لخت ختم ہوجاتی ہیں۔ پھر خواب دیکھنے والے کو ان جانی قوت بھی مل جاتی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہ خود بخود تسلسل سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ دل ہر قسم کے اندیشوں سے پاک ہوتا ہے۔ خوشبو کی لہریں وجود میں آجاتی ہیں۔ یہ کون کررہا ہے کس طرح ہورہا ہے اس کا خیال تو ذہن میں آتا ہی نہیں۔ گدگدانے والی سبک رفتار ہوا کے جھونکے تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔ جی چاہتا ہے یہ ماحول، یہ سماں، یہ منظر کبھی ختم نہ ہو۔ مسلسل خواب کی حالت برقرار رہے۔ شاید زندگی کا یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان مکمل طور پر آزادی کا سانس لیتا ہے۔
خوابوں کی اپنی ایک دنیا ہے۔ ان کے اپنے اصول ہیں۔ پراگندہ ذہنی حالت میں ساری چیزیں الٹ بھی سکتی ہیں۔ عذابی کیفیت طاری ہوسکتی ہے۔ انسان مصائب کی شدت سے چیخ بھی سکتا ہے۔ اس کی آواز حلق میں اٹک بھی سکتی ہے۔ وہ پسینے میں شرابور بھی ہوسکتا ہے۔ جاگنے کے بعد بھی اس پر خواب کا خوف طاری رہ سکتا ہے۔ خواب دیکھنے والے کو بار بار مشاہدوں کی روشنی میں یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ وہ خواب کی حالت میں نہیں ہے۔ وہ ہوش و حواس میں جاگ رہا ہے اور جب خوابوں کی دنیا سے نجات حاصل کرکے جاگ ہی جاتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہ کیسا بھیانک خواب تھا، یا اللہ مجھے ہر بلا اور خوف سے محفوظ رکھ!
ڈراؤنے خواب جاگنے کی حالت میں اپنا اثر لاشعوری طور پر جاری رکھتے ہیں۔ ہر چیز سے خوف آتا ہے۔ انسان چونک چونک پڑتا ہے۔
قومیں خواب دیکھتی ہیں ملک خواب دیکھتے ہیں۔ دراصل نفسیات کے حوالے سے یہ احساس کی مختلف سطحیں ہیں۔ غلام قومیں ظلم و ستم سہہ سہہ کر ذہنی طور پر ایسی سطح پر آجاتی ہیں جہاں مایوسی، کمزوری اور بزدلی کی باتیں خود بخود ان کے ذہن میں آنے لگتی ہیں۔ نجات کا راستہ نہیں ملتا تو وہ ذہنی فرار حاصل کرنا چاہتی ہیں اور جب ذہنی فرار میں بھی سکون نہیں ملتا تو موت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ ان کے چہروں پر غلامی کے خول اس طرح چڑھ جاتے ہیں کہ اصلی چہرہ تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملتا۔ حیرت کی بات ہے کہ غلام قومیں ہر وقت خواب ہی دیکھنا چاہتی ہیں اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کے خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ ہاں علامہ اقبال نے بھی خواب دیکھا تھا۔ یہ ایک ایسے باشعور اور جی دار کا خواب تھا جو زندہ رہنا چاہتا تھا، جو ملک اور قوم کی بے بسی، بزدلی اور کمزوری پر روتا تھا اور اپنی قوم کو جگانا چاہتا تھا۔ خواب دراصل انسان کے اندر چھپی ہوئی قوموں کا ایک لاشعوری اظہار بھی ہوتا ہے۔
خواب میں عقلی دلائل ماند پڑجاتے ہیں، صرف خواہشیں طاقتور ہو کر ابھرتی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ خواب میں جہاں طاقت کا استعمال ہوتا ہے وہاں خیالی طاقتیں روپ بدل لیتی ہیں۔ خواب اس بات کی بھی علامت ہوتے ہیں کہ زندگی کے آثار ابھی موجود ہیں۔ دل میں یہ خیال بار بار آتا ہے کہ میں اگر ایسا ہوجاؤں تو میرے مسائل حل ہوجائیں گے۔خواب میں یہ مسائل اکثر حل نہیں ہوتے بلکہ خواب دیکھنے والا خیال کی پرواز کے تحت بہت آگے نکل جاتا ہے۔ سرخ رو ہوکر، کامیاب ہوکر جب آنکھ کھلتی ہے تو حقیقی دنیا کے پتھر سے ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوجاتا ہے اس لیے کہ حقیقی دنیا پتھر سے بھی زیادہ سخت اور نوکیلی ہوتی ہے۔
خواب دیکھنا ایک انتہائی خوشگوار مشغلہ بھی ہے۔ خواب دیکھنا تن آسانی کی آخری حد ہے۔ خواب تخیل کی ایک بڑی جھیل ہے جہاں انسان کی کیفیت ہر چند کہ لاشعوری ہوتی ہے، لیکن اگر اس لاشعور کے ساتھ دور تک نکل جائیں تو اس کے ڈانڈے ان تمناؤں سے مل جاتے ہیں جو انسان میں قدرت نے فیاضی سے تخلیق کی ہیں۔خواب کے بارے میں نفسیات کے ماہرین نے ایسی ایسی گل افشانیاں کی ہیں جو انسان کو مزید الجھا دیتی ہیں۔ خواب کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرور رہا ہوگا لیکن یہ فلسفہ اپنی نوعیت سے انوکھا اور حیران کردینے والا ہی ہوتا ہے۔
طاقتور قومیں بھی خواب دیکھتی ہیں لیکن ان کے خوابوں میں نشے اور غرور کی آمیزش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آپے سے ہی باہر ہوجاتی ہیں۔ طاقت کا بے پناہ نشہ خواب کو بھی حقیقت بنادیتا ہے۔ طاقتور قوموں کے خواب کبھی شکست خوردہ ذہنیت کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ آگے اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو دراصل ان کے لیے خواب ہی ہوتا ہے۔
خواب ایک کیفیت کا نام ہے۔ ایک تخلیقی دنیا کا لاشعور اور پھر شعور کی دلدل میں نئے نئے راستے نکالتا ہوتا ہے۔ بے تکی خواہشوں کی دنیا میں زندہ رہنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ خواب اتنے زیادہ پُرکشش اور ترغیب دینے والے ہوتے ہیں کہ انسان کو خود پر اختیار ہی نہیں رہتا۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ خواب ٹھوس شکل اختیار کرلیں اور بے پناہ قوت کا سبب بن جائیں لیکن کبھی کبھی یہ ممکن بھی ہوجاتا ہے۔
خوابوں کی دنیا میں جینا کتنا آسان نسخہ ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے کا مصداق ہے۔ مفت میں بادشاہ بن سکتے ہیں۔ تمہارے تالی بجانے سے غلاموں کی فوج ظفر موج حاضر ہوسکتی ہے۔ لطف اس وقت آتا ہے جب اچانک آنکھ کھل جاتی ہے۔ شاہی لباس، محل، خواب گاہ، غلاموں کی فوج سب یک لخت غائب ہوجاتے ہیں۔ وہی اندھیرا، وہی کھری چارپائی۔ ملال ہوتا ہے، کوفت ہوتی ہے، یہی جی چاہتا ہے کہ یہ خواب جاری رہے۔ آنکھیں بھی بند کی جاتی ہیں۔ اب بھلا نیند کیوں آنے لگی۔ ذرا سی دیر میں یہ کیا ہوگیا۔
خواب عذاب بھی ہوتے ہیں۔ نہ معلوم خوف طاری ہوجاتا ہے جو بھگائے بھگائے پھرتا ہے۔ خواب میں لاکھ سوچتے ہیں۔ گلے سے بھیانک آوازیں نکلتی ہیں سارے گھر والے اس کہرام سے جمع ہوجاتے ہیں۔ ’’آج پھر کوئی خواب دیکھ لیا ہے۔ کم بخت سے ہزار بار کہا ہے ملا جی سے خوف کا تعویذ لے آ۔ جاتا ہی نہیں۔‘‘
جب خواب بھیانک ہوتے ہیں تو سارا بدن پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے۔ گھگھیانے کی وجہ سے نرخرے سے نکلنے والی آواز خاصی بے سری ہوجاتی ہے۔جن غلام قوموں میں رائی برابر بھی غیرت باقی ہوتی ہے وہ آزادی کے خواب دیکھنے لگتی ہیں۔ ظاہر میں نہ سہی خواب میں ان میں حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے ذہن میں یہ ضرور آتا ہے کہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں کٹ سکتی ہیں۔ خواب میں غیر مرئی طاقتیں ان کی مدد کرتی ہیں۔ حالات سازگار ہونے لگتے ہیں کم از کم خواب میں ان کے حوصلہ بلند ہونے لگتے ہیں۔ یہ سب ہماری وہ خواہشیں ہیں جو ہمارے لاشعور میں دبی رہتی ہیں اور ان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ آدرشوں کے مترادف ہوتی ہیں۔ یہ خواب نہایت آسانی کے ساتھ من و عن پورے ہوتے ہیں۔ ان پر نہ تو پولیس دخل اندازی کرسکتی ہے نہ کوئی اسمبلی اس کے خلاف قانون بناسکتی ہے۔ خواب تو بے دھڑک ہوتے ہیں، بے باک ہوتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے ان پر کوئی قید نہیں۔ وہ خواب جو جاگتے میں دیکھے جاتے ہیں ان کی تو شان ہی نرالی ہے۔ انسان بے خوابی کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنی مخصوص دنیا میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ لمحہ کس قدر جادوئی ہوتا ہے، اس کا اندازہ عام زندگی میں مشکل سے لگایا جاسکتا ہے۔
خوابوں کی تعبیر بتانے کو آج کل لوگوں نے اپنا روز گار ہی بنالیا ہے۔ کڑی سے کڑی ملائی جاتی ہے۔ خواب دیکھنے والے کی نفسیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ پس منظر معلوم کیا جاتا ہے۔ پھر خواب دیکھنے والے کو خوش بخت ثابت کیا جاتا ہے۔ وہ جو تمہیں روشنی کا ہالا نظر آیا تھا نیکی کا فرشتہ تھا۔ خوش بختی کی علامت ہے۔ بعض اخباروں میں تو روز خوابوں کی تعبیر بتائی جاتی ہے۔
اچھے خواب خوش فہمی میں مبتلا کرتے ہیں۔ کم از کم مایوسی سے تو نجات دلاتے ہیں۔