اس شیشی کو جو سائڈ ٹیبل پر رکھی ہے، میں بہت دیر سے گھور رہا ہوں۔ میں اس شیشی کو نہیں بلکہ اس کے اندر مکسچر کو گھور رہا ہوں!
میں اس کشادہ مسہری پر تکیہ کے سہارے بیٹھا ہوں، میری بیوی میرے بازو میں سو رہی ہے اور میں اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھ رہا ہوں، اس کی بند پلکوں میں لمحہ بہ لمحہ اترتے ہوئے خواب کو محسوس کررہا ہوں، لیکن میں اپنی بیوی کی بند پلکوں کے اندر اترتے ہوئے خوابوں کی تفصیل جاننا نہیں چاہتا، میں تو اس مکسچر کو بھی دیکھنا نہیں چاہتا — نہیں — شاید میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں، یہ مکسچر — اب میری زندگی ہے، میری آرزو ہے، میری تمنا ہے، میرا ماضی، میرا حال، میرا مستقبل ہے— یہ مکسچر اب، میراب خواب ہے— خواب!
میں اپنی ساری زندگی خواب دیکھتا رہا، میں ساری زندگی خوابوں کو سجانے اور سنوارنے میں لگا رہا لیکن اب وہ سارے خواب جن میں سے کچھ شرمندئہ تعبیر ہوچکے ہیں اور کچھ کو شرمندئہ تعبیر ہونا میسر نہ ہوا، سارے کے سارے سکڑ کر، سمٹ کر اس شیشی کے اندر بند ہوگئے ہیں، اس شیشی کے اندر نہیں بلکہ اس مکسچر کے تابع ہوگئے ہیں۔ اور میرے سامنے اب خوابوں کی رہگذر پر یہاں سے وہاں تک، دور دور تک زرد پتّے اڑ رہے ہیں، اندھیرا بہت گھنگھور ہوگیا ہے اور سمٹ سمٹ کر میرے اندر اتر رہا ہے، جسے میں اپنے آنسوؤں کی مغموم روشنی تلے دبا دینا چاہتا ہوں، مگر — مگر یہ آنسوؤں کی مغموم روشنی یونہی کپکپا کر رہ جاتی ہے۔ اس کپکپاہٹ کو میں دن رات اپنے سینے میں محسوس کرتا ہوں۔ یہ کیسی کپکپاہٹ ہے، یہ کپڑے کا کھردار پن ہے یا اس کی چکناہٹ!
کپڑے کی الماری کھولے کھڑا میں سوچ رہا ہوں۔
آج کون سے کپڑے پہنوں؟ کپڑوں کا انتخاب کم کٹھن نہیں ہوتا۔
مجھے لگتا ہے جیسے کپڑوں سے بھری الماری اچانک خالی ہوگئی ہو، اس میں ایک جوڑا ہینگر کے سہارے لٹک رہا ہے۔ میرے اندر ایک عجیب سی لہر آئی ایسا لگا جیسے اس لہر اور اس احساس سے میرا کوئی پرانا رشتہ ہے، میری گہری شناسائی ہے۔
ہاتھ بڑھا کر میں نے ہینگر سے لٹکتے ہوئے کپڑے کو اتار لیا۔
پینٹ کا اداس اور بجھا بجھا سا رنگ دیکھ کر لگا، زندگی بجھ رہی ہے، تھکی ہاری کیفیت دھیرے دھیرے میرے وجود کو گھیرنے لگی۔ شرٹ پہن کر میں نے بٹن لگانا چاہا تو معلوم ہوا بٹن غائب ہے۔ جھنجھلاہٹ اور بے بسی سے پورا بدن کانپ گیا۔
’’سنبل…‘‘ میری آواز میں کرختگی تھی۔
’’قمیص سے بٹن غائب ہے، کسی کام کا ہوش رہتا ہے،تمہیں۔‘‘
’’اف… او… آپ تو خواہ مخواہ غصہ ہوتے ہیں … لائیے ابھی بٹن ٹانکے دیتی ہوں۔‘‘
جانے اس آواز میں کیا خوبی تھی، میری جھنجھلاہٹ ایسے چھٹ گئی، جیسے اس کا کوئی وجود نہ تھا۔
وجود— ؟ میرا اپنا بھی کوئی وجود ہے؟ … کہاں ہے میرا وجود؟
میں اس کپڑوں سے بھری الماری کے سامنے کھڑا اپنے وجود ہی کو ڈھونڈ رہا ہوں، کہاں کھوگیا ہے وہ … اور وہ جھنجھلاہٹ، اسے کافورکردینے والی جادو بھری آواز؟ کچھ بھی تو نہیں … سب کچھ کھوگیا… میری ساری زندگی غیر محسوس طور پر نہ جانے کہاں کھوگئی؟ کہاں؟ ذرا سی بے ایمانی، صرف ایک خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کے جرم کا مرتکب ہونا اتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کی سزا اتنی طویل اور ویران کردینے والی ہوگی، میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ میں سوچتا بھی کیسے، سیٹھ جیلانی کو سینکڑوں بار بے ایمانی کرتے دیکھ چکا تھا۔ حکومت کے ساتھ، سماج کے ساتھ، فیکٹری کے ملازموں کے ساتھ، اس پر توکوئی اثر نہیں، اس کی زندگی میں تو کوئی ویرانی نہیں، پھر مجھے کیا ہوگیا۔ دراصل ایمانداری کے سانچے میں، بے ایمانی کی غیر معین صورتوں میں ڈھلنے کا کرب کوئی معمولی نہیں ہوتا، ابتداء میں نہ یہ سازگار آتا ہے نہ وہ۔
میں ایک بار پھر کپڑوں کی الماری میں جھانکتا ہوں۔ میں کپڑوں سے بھری پری الماری میں آخر کیا تلاش کررہا ہوں؟ میرا سر چکرانے لگتا ہے۔ کون سا لباس پہنوں؟ اُف یہ کیسی اذیت ہے، یہ کیسی سزا ہے؟ مجھے لگتا ہے، میں یہاں کھڑا لباس کا انتخاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کررہا ہوں بلکہ خود کو ڈھونڈنے کی سعی کررہا ہوں۔ جانے اس کوشش کا کوئی انت ہو کہ نہ ہو۔
میں نے کپڑوں کی الماری سے اپنے لیے ایک جوڑا نکال لیا ہے۔ کریم کلر کا پینٹ اور شوخ رنگ کی قمیص، جس میں سرخ رنگ کی لکیروں کا جال سا بنا ہے۔ میں نے یہ کپڑے پہن لیے ہیں اور اب آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر خود کو دیکھ رہا ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ میں ایک ڈمی ہوں جس کے اوپر خوبصورت اور قیمتی پوشاک منڈھ دی گئی ہے۔ خوبصورت اور قیمتی پوشاک سے جگمگاتا ہوا یہ ڈمی اندر سے کتنا کھوکھلا، کھنڈر اور بے جان ہے، دیکھنے والے محسوس نہیں کرتے۔
قدِ آدم آئینے میں کھڑے اس ڈمی کو میں گھور رہا ہوں۔ اچانک میری قمیص پر بنی لال لکیروں کا جال دھیرے دھیرے بڑھنے اور پھیلنے لگا۔ سرخ لکیروں کا جال بڑھتے بڑھتے پورے آئینے پر پھیل گیا۔ پورے آئینے پر یہ لکیریں نہیں پھیلیں بلکہ میرے پورے وجود کے گرد اس طرح پھیل گئی ہیں کہ میں ان کے حصار میں جکڑا جا چکا ہوں۔ حصار کے اندر اور باہر سرخ رنگ ہے۔ سرخ رنگ … سرخ!
خون کے چھینٹے کار کی ونڈ اسکرین پر پڑے اور میں نے اپنی پوری قوت سے بریک لگایا۔ اس سے پہلے کہ کار رکتی خون یہاں سے وہاں تک پوری سڑک پر پھیل چکا تھا اور وہ معصوم چہرہ؟ اس کی درد ناک آخری چیز میرے اندر، بہت نیچے اترچکی تھی۔
’’حادثہ تو زندگی کا معمول ہے۔ آپ اس قدر نروس کیوں ہیں، ہم جانتے ہیںکہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘ انسپکٹر نے مجھے دلاسہ دیا لیکن میرے اندر جو دردناک چیخ اترچکی تھی اسے کس نے دیکھا تھا، کس نے محسوس کیا تھا؟ میں اس کیفیت کو بیان بھی تو نہیں کرسکتا لیکن میں کیا کرسکتا ہوں، قصور میرا نہیں، غلطی میری نہیں، وہ اچانک میرے سامنے آگیا تھا، لیکن …؟ اس نے میرے دل میں جو کانٹا چبھو کر چھوڑ دیا ہے، اس کو نکالنے کے لیے سوزن کہاں سے لاؤں؟ اس چبھن کی اذیت کو کس سے بیان کروں؟ کاش اس حادثہ سے دوچار نہ ہوتا، کاش مجھے کار چلانے کی مہارت پر غرور نہ ہوتا۔ کاش میرے پاس کار ہی نہ ہوتی… کار… ؟ اُف میں نے اس کے لیے خواب دیکھے تھے، اس کی تمنا کی تھی مگر کون جانتاتھا، میری تمناؤں کی تکمیل کے بعد میرے اندر یہ کھوکھلا پن در آئے گا، اس تنہائی اور کمی کا احساس مجھے نہ جینے دے گا نہ مرنے دے گا۔
اچانک مجھے لگا کوئی باز،کوئی خوفناک پرندہ کہیں قریب سے مجھے گھور رہا ہے، اس کی لال لال دہکتی ہوئی آنکھیں مجھے اپنے سارے بدن میں چبھتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ دفعتاً لگا اس نے اپنی لمبی اور نوکدار چونچ میری شہ رگ میں گاڑ دی ہے اور اب میرے بدن کا خون دھیرے دھیرے اس کے جسم میں منتقل ہورہا ہے۔ دھیرے دھیرے میرا بدن پیلا پڑ رہا ہے۔ پیلا… پیلا… پھر مجھے لگا میں بالکل زرد ہوگیا ہوں، زرد، بالکل ہلدی کی طرح… میرے وجود سے یہ زردی کس طرح چپک گئی ہے!
زردی!
زندگی سے سارے رنگ جو دھو ڈالتی ہے، یہ کون سی شئے ہے؟
اس زردی میں اتنی شدت کہاں سے آگئی کہ ہر رنگ پر غالب آگئی۔
لیکن یہ زردی میری جانی بوجھی ہوئی ہے، دیکھی بھالی ہے۔
یہی رنگ تھا جو اس دن اچانک سیٹھ جیلانی کے چہرے پر ابھر آیا تھا۔ یہ زردی جب سیٹھ جیلانی کے چہرے پر ابھر رہی تھی میرے اندر سونا پن منتقل ہورہا تھا۔
یہ سونا پن، یہ خالی پن، میرا احساسِ جرم تھا، یا سیٹھ جیلانی کے چہرے پر ابھرتی ہوئی زردی کا پرتو…؟
ایک لمحہ کے لیے میں ہار گیا تھا۔ میں ہمت چھوڑ چکا تھا یا خالی پن سے خوف زدہ ہوگیا تھا؟ بات جو بھی رہی ہو، میں نے چاہا تھا سیٹھ جیلانی کے چہرے سے زردی کو دھو ڈالوں، اپنی زندگی میں خالی پن کو داخل نہ ہونے دوں، لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ میری نظریں نیچی ہوچکی تھیں اور سیٹھ جیلانی کی آواز زندگی کے ہنگامے میں میرے وجود کا تعاقب کررہی تھی۔
’’زندگی راس آئے گی تمہیں نہ موت … ساری زندگی اپنا کھوکھلا پن لیے گھومتے رہوگے۔‘‘
میں نے نظر اوپر اٹھائی تو وہ جاچکے تھے، پھر بھی ان کی آواز میرے کانوں میں گرم سیسے کی طرح اتر رہی تھی، میرے کانوں کے راستے سے اندر اترنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن جانے کیا ہوا، جانے مجھے کہاں سے قوت مل گئی، میں نے اس آواز کو دبا دیا، اسے اندر اترنے سے روک دیا۔ میں نے سوچا، میں نے تو کاغذات پر دستخط کراتے وقت ہی اشارہ کردیا تھا۔
’’سر آپ بغیر پڑھے کاغذات پر دستخط کردیتے ہیں، اگر کچھ کاغذات پر آپ کے دستخط لے لیے جائیں تو؟‘‘
’’تو کیاہوگا…؟ میرا کیا جائے گا، میری طمانیت کو پھر بھی کوئی جھٹکا نہیں پہنچے گا۔ میں دستخط کررہا ہوتا ہوں تو ان کے صحیح ہونے کی ضمانت تو ہو۔ اگر تم نے بے ایمانی کی تو سمجھوں گا، اپنا یہاں کوئی نہیں اور یہ جان لینے کے بعد آگے کا سفر میرے لیے آسان ہوجائے گا۔‘‘
اس وقت میرے اندر کیسی ہل چل مچی تھی!
ان کاغذات پر دستخط لے کر میں نے کیا پایا؟ سیٹھ جیلانی نے کیا کھویا؟
انھوں نے کہا تھا، آگے کا سفر میرے لیے آسان ہوجائے گا۔ پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتے تھے؟ آگے کی منزل کیا ہے؟ ہماری اگلی منزل کہاں ہے؟ خوابوں کے مسافر بھی دھندلکے سے کتنا پیار کرتے ہیں! ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے، حاصل کیا ہے؟ ہمیں جانا کہاں ہے؟ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کیوں ہوں؟ کچھ بھی تو نہیں جانتا۔
اب تک میں خواب دیکھتا آیا ہوں۔ خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتا رہا ہوں۔ میرے خوابوں نے مجھے کہاں کہاں رسوا کیا، کہاں کہاں مجھے وقاربخشا، کہاں غلاظت ملی اور کہاں پاکیزگی۔ اب کوئی تمیز نہیں رہی۔ صرف ایک احساس ہے، اپنے ویران ہونے کا، اپنے کھنڈر ہونے کا۔ سب کچھ پاکر بھی سب کچھ کھودینے کا۔ سیٹھ جیلانی کو دغا دے کر جو کچھ میں نے حاصل کیا، وہ میرا اپنا ہوکر بھی تو مجھے سکون نہ دے سکا۔
آنکھیں کھولتا ہوں تو میرے سامنے میرا لمبا چوڑا یہ زرد مکان ہے اور اس کے اندر اور باہر، میری لمبی اداس اور خاموش زندگی۔ دل کے اندر جھانکتا ہوں تو کبھی سونا پن ہاتھ آتا ہے تو کبھی جھلسا دینے والا سرخ سمندر دکھائی دیتا ہے اور دل سے باہر؟ یہ سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی شیشی کے اندر سے جھانکتا ہوں مکسچر۔
یہ میرا بھرا پُرا گھر، یہ بیوی بچے، نوکر چاکر، لیکن دکھوں کا کوئی بھی علاج نہیں، اس دل کے سوا۔ اس دل نے بھی تو ٹھوکریں کھلائی ہیں، اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اجنبی رہگذاروں پر اتنا آگے نکل آیا ہوں کہ اپنے بھٹکنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔
رات بھیگ چکی ہے، میرے بازوؤں میں میری بیوی سنبل کروٹیں بدل رہی ہے لیکن میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ کل سویرے ایک تجارتی پارٹی سے ایگریمنٹ بھی کرنا ہے۔ میری کوئی خواہش نہیں، لیکن سنبل کے چہرے پر رینگتے ہوئے سائے کو میں دیکھ رہا ہوں اور سمجھ رہا ہوں اب مجھے سو جانا چاہیے۔ میں سوچتا ہوں، پھر سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی شیشی میں جو آخری نشان تک مکسچر تھا، اسے حلق سے نیچے اتارلیتا ہوں اور پانی کا گلاس اٹھا کر کئی بڑے بڑے گھونٹوں سے مکسچر کے تیکھے پن کو دور کرتا ہوں۔ پھر سوئچ آف کرکے مسہری پر لیٹ کر آنکھیں موند لیتا ہوں تاکہ میرے ذہن کی کسی درازیا کسی شگاف سے میرے ماضی، حال اور مستقبل تک روشنی کا گذر نہ ہوسکے۔