خواب اور حقیقت کا ٹکراؤ

نشاں خاتون سیتھلی

 

’’پلیز صہیب آپ میری بات پر غور کیوں نہیں کرتے کیا آپ کو میری خوشی کا کوئی خیال نہیں؟‘‘
’’نہیں غزل ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن تم خود سوچو، بچوں جیسی ضد کیوںکررہی ہو۔ ابھی ہماری شادی کو صرف دو مہینے ہی تو ہوئے ہیں۔ اور پھر میرے اوپر پورے گھر کی ذمہ داری بھی ہے۔ میں تو ابھی شادی کے لیے راضی ہی نہ تھا، وہ تو امی کی ضد تھی۔‘‘
’’آپ کو مجھ سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہے۔‘‘ اس نے قدرے تلخ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
’’اچھا مجھے اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے۔‘‘ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی اور چل دیا۔
وہ ایک مقامی اسکول میں ٹیچر تھا۔ باپ اس کے نام کچھ جائیداد چھوڑ گئے تھے جس سے معمولی کرایہ آتا تھا اور رہنے کے لیے خاندانی حویلی تھی۔ اس سے چھوٹی تین بہنیں ہدیٰ، ندا، اور ماریہ تھیں۔ ماریہ جب چھوٹی سے تھی تبھی ابا کا انتقال ہوگیا تھا۔ بس اسی وقت سے اسے ابا کی جگہ سنبھالنی پڑی تھی۔ حالانکہ اس وقت وہ ثانوی درجات کا طالب علم تھا۔ مگر حالات نے اسے وقت سے پہلے سنجیدہ بنادیا۔ اباکی بے وقت موت اور تنگیٔ حالات کے سبب رفعیہ بیگم کی طبیعت میں چڑچڑاپن آگیا تھا۔ گریجویشن کرتے ہی اس نے ملازمت کرلی اور شادی کی طرف کبھی توجہ نہ دے سکا۔ وہ تو اماں اور بہنوں ہی کا مسلسل اصرار تھا جس نے اسے شادی کے بندھن میں باندھا۔ غزل کے گھر آنے سے ان کے گھر میں خوشیاں آگئیں تھیں۔ ہدیٰ اور ندا اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔ رفیعہ بیگم بھی غزل کو دل و جان سے چاہتی تھیں، لیکن وہ پچھلے ایک ہفتے سے صہیب کی خوش آمد کررہی تھی کہ وہ کسی بڑے شہر میں رہنا چاہتی ہے اور گاؤں کی زندگی اسے پسند نہیں۔
’’غزل کہاں ہو ڈیئر‘‘ اسکول سے آکر اس نے آواز دی۔ ’’دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔‘‘ اس نے ایک بڑا سا پیکٹ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’صہیب کیا آپ میری بات بھول گئے۔ دیکھئے آپ خود سوچئے اس میں میری ہی بھلائی نہیں ہے۔ ‘‘اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔
’’کچھ دن رک جاؤ۔ اور دیکھو میری امی اور بہنیں تم سے کتنی محبت کرتی ہیں یہ لوگ میرے بغیر کیسے رہیں گی۔‘‘
’’لیکن زندگی میں پیار اور محبت کے سوا کچھ اور بھی ضرورتیں ہیں۔ میں تم سے ان کا حق مارنے کو نہیں کہتی۔ سماج میں تو حیثیت اور مرتبہ کی قدر ہے۔ پیار محبت کو کون دیکھتا ہے۔ اگر تمہارے پاس پیسہ ہوگا تو دنیا سلام بھی کرے گی اور تمہاری بہنوں کا مستقبل بھی سنور جائے گا۔ پھر تم پڑھے لکھے ہو۔ شہر میں تمہیں اچھی نوکری بھی مل جائے گی۔ تم میں پیسہ کمانے کی صلاحیت بھی ہے۔‘‘ اس دن اس کی سہیلی منشا بھی اس کے یہاں ملنے آئی تھی اور دن بھر اسی موضوع پر بات ہوتی رہی۔
’’صہیب میں نے تمہاری ملازمت کے لیے منشا سے بات کی تھی۔ اس کے شوہر نے بمبئی میں تمہاری ملازمت کے لیے بات کرلی ہے۔ اسی کا فون تھا۔‘‘ اس نے رسیور رکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں تم سے کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ میں اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ انھوں نے کتنی محنت سے مجھے پڑھا لکھا کر اس قابل کیا ہے۔‘‘
’’نہیں !میں نے امی سے بات کرلی ہے۔ انھیں ہمارے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
’’امی یہ غزل کیا کہہ رہی ہے کیا آپ نے ……‘‘
’’ہاں بیٹے میں کئی دن سے تم لوگوں کی بحث سن رہی ہوں جب دلہن کی خوشی اسی میں ہے تو یہی سہی۔ اور میں نہیں چاہتی ذرا سی بات کے پیچھے کوئی ہنگامہ ہو۔‘‘ رفیعہ بیگم نے اسے سمجھایا۔
اور ایک شام آئی جب وہ وطن کی خوشبو، وہاں کے سبزہ زار، ٹھنڈی ٹھنڈی گنگناتی ہوائیں، اچھلتی کودتی ندیاں، رنگ برنگ پرندے، اپنا گھر، اپنے لوگ، ماں کی شفقت اور بہنوں کا پیار سب کچھ چھوڑ کر بمبئی کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے سنا تھا کہ وہاں پتھر کی اونچی اونچی عمارتیں اور تیز رفتار لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوتی اور سڑک پر پڑے زخمی کو سسکتا چھوڑ کر لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہاں اسی بمبئی کو اس نے اپنا مسکن بنایا تھا۔ دور بہت دور جہاں اپنے وطن کی خوشبو تک محسوس نہ ہوتی تھی۔
آج عید کا دن تھا۔ اور وطن چھوڑے دو مہینے ہوگئے تھے۔ اگرچہ وہ بہت خوش نظر آتی تھی مگر صہیب اپنی بہنوں اور ماں کی جدائی کے غم میں ڈوبا ہوا سوچ رہا تھا کہ مسافر کی وطن سے دور بھی بھلا عید ہوتی ہے۔ اور وہ سوچنے لگا کہ اس کی ماں نے کس طرح گاؤں والوں کے کپڑے سی سی کر اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیے تھے اور بہنیں اس پر کس طرح جان چھڑکتی تھیں۔ ماں کی محبت بھرے اور بہنوں کا معیار اسے رہ رہ کر اداس کررہے تھے۔
غزل کے ایک رشتہ کے بھائی جو امریکہ میں رہتے ہیں آج انھیں دعوت پر بلا گئے۔ وہ سوچتا تھا کہ شاید رشتہ داروں کی محبت کی کچھ تلافی ہوجائے گی مگر یہ خیال ہی رہا۔
’’بھائی کا گھر کیسا لگا؟ کتنے بڑے بڑے تحفہ وہ سب کے لیے لائے ہیں۔ گھر کا فرنیچر کتنا شاندار ہے مجھے تو ان کو اپنے گھر بلانے میں شرم آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’غزل تم اپنے بھائی بھابی سے میرا مقابلہ کیوں کرتی ہو۔ میں آٹھ ہزار روپیہ کماتا ہوں جو ہماری ضروریات کے لیے کافی ہیں۔‘‘
اس کے بھائی امریکہ میں ایک اچھی پوسٹ پر تھے۔ چھ ماہ میں ایک بار گھر آتے ہیں۔ بڑے بڑے سوٹ کیس، کپڑوں اور تحفوں سے بھرے ہوئے، زیور سے لدی ہوئی بھابی اور قیمتی کپڑوں میں ملبوس بچوں کو دیکھ کر اسے ہمیشہ رشک ہوتا۔
’’صہیب میں چاہتی ہوں تم بھی امریکہ چلے جاؤ میں تمہارے لیے بھائی سے بات کروں۔‘‘
صہیب کو لگا کہ جیسے دھماکہ ہوا ہو۔’’غزل تم چاہتی کیا ہو؟ پہلے ہی تم مجھے اپنی ماں بہنوں سے دور کرچکی ہو۔ اب کیا ملک بھی چھڑانا ہے مجھ سے؟‘‘
’’دیکھئے یہی پیسہ کمانے کی عمر ہے آپ کو جتنا پیسہ امریکہ میں ملے گا انڈیا میں تو زندگی بھر نہیں کماسکیں گے۔‘‘
اور پھر وہ سات سمندر پار کے ہوائی سفر کی بادل نخواستہ تیاریاں کرنے لگا۔ صہیب کے شکوے شکایات سے بھرے خط ہر ہفتے آنے لگے جس کے جواب میں وہ اسے تسکین سے بھرے خط ہی لکھا کرتی۔
آج اسے گئے ہوئے تین مہینے ہوگئے تھے اور غزل کو ہدیٰ کی شادی میں جانا تھا۔ وہ اپنی سبھی نندوں کے لیے تحفے لے کر پہنچی۔ جہاں پر اس کا بے قراری سے انتظار ہورہا تھا۔ بھابی آگئیں بھابی آگئیں، ماریہ اس سے آکر لپٹ گئی۔ رفیعہ بیگم نے بھی اسے سینے سے لگالیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ ان کو اپنے بیٹے کی جدائی کا بڑا غم تھا۔
’’ صہیب نہیں تو کیا ہوا میں تو ہوں۔ دیکھئے صہیب نے ہدیٰ کے لیے کیا بھیجا ہے۔ ‘‘اور پھر اس نے ایک ڈرافٹ اپنے برس سے نکال کر ان کے حوالہ کردیا۔
رفیعہ بیگم کچھ کہنا چاہتی تھیں لیکن ندا ان کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے گئی جہاں سب گلے مل مل کر بیٹے اور بھائی کی جدائی کے غم میں خوب روئے۔
وقت گزرتا گیا اسے امریکہ گئے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا اور اس کے خواب یکے بعد دیگرے پورے ہوتے جارہے تھے۔ اس کے پاس ایک بڑی کوٹھی ، ضرورت کا سامان اور گھر میں نوکر بھی ہوگئے تھے۔ وہ صہیب کا خط پڑھ رہی تھی جس میں اس نے انڈیا آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
اس نے جواب میں لکھا میری خواہشیں پوری ہوتی جارہی ہیں مگر ہر خوشی آپ کے بغیر ادھوری ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جہاں آپ نے ایک سال کی جدائی برداشت کی ہے وہاں چھ مہنے اور رک جائیے۔ یہ میں آپ کی عزت کی خاطر کہہ رہی ہوں۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتی کہ ہم کوٹھی میں رہیں اور بس میں سفر کریں۔ لوگ کیا کہیں گے؟ اس لیے آپ اپنی خاطر چھ مہینے اور رک جائیں یہاں تک کہ ہم کار خریدنے کے قابل ہوجائیں۔ اور چار مہینے کے بعد ہی اس نے ایک چمچماتی ہوئی کار خرید لی۔ وہ کار میں بیٹھ کر خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت خیال کررہی تھی۔ آج اس کے پا س عیش و آرام کی ہر چیز موجود تھی۔
اب صہیب کے واپس آنے کا وقت قریب آرہا تھا مگر اس نے حتمی تاریخ ابھی تک نہیں بتائی تھی۔ وہ شدت انتظار میں پاگل ہوئی جاتی تھی۔ ادھر کئی ہفتوں سے خطوط کا سلسلہ بھی صہیب نے روک دیا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ آنے ہی والاہے۔ اور اسے بھی یہی سوچ کر سکون ہوجاتا کہ ’’آنے والے ہیں۔‘‘
آج وہ صہیب کے لیے بڑی ہی بے قراری محسوس کررہی تھی۔ وہ اس کی یادمیں دن میں کئی بار نمدیدہ ہوئی اور اسی طرح شام ہوگئی۔ نہ کوئی خط آیا نہ خبر ملی۔ اتنے میں گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ نوکرانی نے دروازہ کھولا۔ اور واپس آکر بتایا کہ ایک صاحب اور ایک میم صاحبہ ہیں۔ وہ تیزی سے دروازہ کی طرف بھاگی۔ اور گیلری میں ہی تھی کہ صہیب نظر آئے۔ وہ دوڑ کر اس کے گلے لگ جانا چاہتی تھی مگر میم صاحبہ کو دیکھ کر ذرا ٹھٹک گئی۔ اتنے میں صہیب نے اس خاتون کا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’ان سے ملو غزل یہ میری وائف لبنیٰ ہیں۔‘‘ بس جیسے پوری کوٹھی دھڑام سے اس کے وجود پر آن گری۔ اب وہ اس کے ملبہ کے نیچے اپنی زندگی کے بیتے دنوں کو یاد کرتی سسک سسک کر رو رہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146