آج مسلمانوں کو بڑے ہی نازک اور پرفتن دور کا سامنا ہے۔ شیطان کے ایجنٹ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور برائیوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔ ایک طرف باطل تحریکیں ہیں جو اسلام کا قلع قمع کرنے کے درپے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات و اعتراضات و پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلام کے تئیں نفرت و عداوت پیدا کرنے میں سرگرم ہیں۔ دوسری طرف خود امت مسلمہ کی اکثریت نے دنیا سازی میں پڑ کر نبی اکرم ﷺ کے لائے ہوئے پیغام وہدایات کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کے نتیجے میں شرک، بدعات، ضلالت اور گمراہی کا شکار ہوکر آپؐ کے اس فرمان کے مصداق ہوگئی جس میں آپؐ نے فرمایا:
’’رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کو خطاب کرکے فرمایا: میری امت پر عنقریب وہ وقت آجائے گا جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دسترخوان پر گرتے ہیں۔ کسی کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ جس دور کا آپ حال بیان فرمارہے ہیں، کیا اس دور میں ہم مسلمان اتنی کم تعداد میں ہوں گے کہ ہمیں نگل جانے کے لیے قومیں متحد ہوکر ٹوٹ پڑیں گی؟ آپؐ نے فرمایا: اس زمانے میں تمہاری تعداد کم نہ ہوگی، بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہوگے، لیکن تم سیلابی جھاگ کی طرح ہوجاؤگے، تمہارے دشمنوں کے سینوں میں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کرلے گی، ایک آدمی نے پوچھا یہ پست ہمتی کس وجہ سے آئے گی اے اللہ کے رسول! آپؐ نے فرمایا: یہ اس وجہ سے ہوگی کہ لوگ دنیا سے محبت کرنے لگیں گے اور موت سے نفرت و کراہیت پیدا ہوجائے گی۔(ابوداؤد)
آج کم و بیش یہی صورتِ حال مسلمانوں کی ہے۔ باطل قوتوں کی محاربت درپیش ہے گو کہ باطل اقوام خود اختلاف وانتشار کا شکار ہیں’’تم ان کو اکٹھا گمان کرتے ہو حالانکہ ان کے دل منتشرہیں‘‘ (الحشر:۱۴) کے مصداق ہیں لیکن مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہونے میں سب متحد اور متفق ہیں۔ اسلام ان کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ مسلمانوں کے اسلامی احکام و قوانین اور تہذیب و تمدن پر حملہ آور ہوکر اسلام کی جڑیں کمزور کرنے کے درپے ہیں اور افرادِ امت غیر شعوری طور پر ان کے دامِ فریب میں پھنستے جارہے ہیں۔ مسلمان جنھیں اقوامِ عالم پر برتری حاصل تھی اور جنھوں نے قرآن کریم جیسے ہتھیار اور اسلام جیسی قوت کے ذریعے منصفانہ و عادلانہ حکومت کی مثال قائم کی آج محکوم ہیں۔ جس کا سبب آپؐ کے قول کے مطابق حب دنیا اور کراہیت موت ہے۔ آج ان کے اوقات و صلاحیتیں اسی راہ میں صرف ہونے لگے ہیں اور دنیا سازی کے منصوبوں نے انھیں آخرت کی یاد سے غافل کردیا ہے۔ نتیجہ طرح طرح کی برائیوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، مسلم معاشرے کی صورتحال بھی ابتر نظر آنے لگی ہے، ظلم و تشدد، سود و رشوت، دھوکہ دہی ، دروغ گوئی عام ہوتی جارہی ہے۔ شراب و جوا، زنا اور فحاشی جیسے اخلاقی امراض مسلم نوجوانوں کے اندر بھی جگہ بنا رہے ہیں، مسلم خواتین میں بھی بے حیائی و بداخلاقی کا طوفان امڈا چلا آرہا ہے نوجوان لڑکیاں آج مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بے پردگی اور عریانیت کا شکار ہیں۔
مزید براں خواتین کے سلسلے میں افرادِ امت کی لا پروائی یا بے شعوری کے سبب بہت سی برائیاں درآئی ہیں۔ مثلاً ترکہ میں خواتین کو نظر انداز کرنا، مہر کی ادائیگی نہ کرنا، نان ونفقہ میں کمی کرنا، جہیز جیسی لعنت پر ساس نندوں اور شوہر کی طرف سے زدوکوب کیا جانا، سسرال میں لڑکی کے ساتھ ظالمانہ و مجرمانہ رویہ اختیار کیا جانا وغیرہ وغیرہ سراسر شریعت کے منافی اور اغیار کی پیروی ہے۔ جو خاندان کے اسلامی تشخص کو بری طرح مجروح کررہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ مسلم تعلیم یافتہ خواتین بیدار ہوں، اسلامی معاشرہ میں درآئی غیراسلامی تہذیب و ثقافت کے خاتمے کے لیے متحد ہوکر آواز اٹھائیں اور عملاً خود اس کا نمونہ پیش کریں۔ یہ کام چند گھنٹوں میں یا تن تنہا انجام پانے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اجتماعیت، تنظیمی مشارکت، جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ اسلام جب آواز دیتا ہے:
واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً ولاتتفرقوا۔ (آل عمران:۱۰۳)
’’(اے لوگو! جو ایمان لائے ہو) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘
تو اس آیت کا مخاطب خواتین ومرد دونوں ہیں۔ یہ آیت تمام مومن مردوں اور عورتوں کو اعتصام باللہ و امتساک بالدین کے حکم کے ساتھ تفرقہ و انتشار سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔
حدیث میں اجتماعیت کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے:
’’جماعت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو اور پھوٹ کے قریب بھی نہ پھٹکو۔کیونکہ شیطان اکیلے شخص کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ دو سے بہت دور ہوتا ہے۔‘‘
ضرورت ہے کہ ذی علم اور باشعور خواتین مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں، ان میں اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے قیام کی کوشش کریں، غیر اسلامی تہذیب و ثقافت اور مضر اثرات کو واضح کریں اور ان پر قدغن لگانے کے لیے آواز اٹھائیں، چونکہ ان امور کی انجام دہی تنہا ممکن نہیں، اس لیے اپنے قرب و جوار میں کام کررہی تحریکات اسلامی سے جڑ کر اللہ کے دین کو تقویت پہنچانے کاذریعہ بنیں اور مقدور بھر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں۔
یاد رکھیں یہ وہ فرض منصبی ہے جس کی صراحت قرآنِ مجید میں جگہ جگہ موجود ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی یقینا اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
آیتِ کریمہ میں مومن عورتوں کا جو کردار مطلوب ہے، اس کا اولین مجاز اس کا گھر اور خاندان ہے، جہاں اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا ہے۔ اس کے بعد محلہ اور سماج بھی، جس سے لا تعلق ہونا خود اس کے اور اس کے بچوں کے لیے مضر اورمہلک ہوسکتا ہے۔ خواتین کے تحریکی رول سے اسلامی تاریخ روشن ہے اور دورِ حاضر میں بھی اس کے عملی مظاہر موجود ہیں لیکن ضرورت کے اعتبار سے ناکافی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ آج خواتین امت کی ایک کثیر تعداد شوہر اور بچوں کی خدمت سے زیادہ کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہے، پکانے کھلانے اور اسکول آفس بھیجنے کے بعد وہ مطمئن ہیں کہ انھوںنے اپنی واجبی ذمہ داریاں ادا کردی ہیں، حتی کہ نئی نسل کی تربیت اور انھیں آخرت کی کامیابی کے لیے صحیح شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش سے بھی لاپرواہ ہیں، جبکہ حدیث کے مطابق ان سے اس کے بارے میں آخرت میں پرسش ہونی ہے۔ مزید یہ کہ جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں، سروسوں کی تلاش اور حصولِ معاش میں سرگرم ہیں مانا کہ شرعاً حدود میں رہتے ہوئے اس کی اجازت ہے، لیکن دعوتِ دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے فریضہ سے غفلت اخروی خسارہ کا موجب ہے اور نعوذ باللہ اس سے فرار اختیار کرنا مسلم معاشرے کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے ،حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘ (ہود: ۱۱۷)
آیتِ کریمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ صالح اسلامی معاشرے کے قیام کی صورت میں ہلاکت سے تحفظ کی بشارت بھی دے رہی ہے۔
کیا ہی بہتر ہوکہ خواتین امت درج ذیل امور کی طرف متوجہ ہوجائیں:
٭ قرآن واحادیث کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں تاکہ صحیح دینی شعور پیدا ہو۔
٭ اپنی، گھر اور خاندان کی اصلاح و صلاح کی طرف متوجہ ہوں اور اسلامی تہذیب کو فروغ دیں۔
٭ تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر زندگی گزاریں تاکہ سماج کا سدھار اجتماعیت کے ساتھ ممکن ہوسکے۔
٭اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہفتہ میں چند گھنٹے تحریکی کاموں کے لیے مختص کریں تاکہ اللہ کی سرزمین پر اس کا دین فروغ پاسکے۔
٭ آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا کریں اور دین و دنیا کی کامیابی کے لیے عملی کوششوں کے ساتھ دعاؤں کا سہارا لیں۔
اس طرح زندگی کے مقاصد اور ترجیحات متعین کرلی جائیں تو ایک صالح و صحت مند سماج کی تعمیر ممکن ہوسکے گی اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح ہمارے قدم چومے گی۔ ان شاء اللہ!
——