دین اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کا مساوی طور پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے ذمے انفرادی فرائض لگاتا ہے اور دین کے قیام کی جدوجہد کے لیے دونوں کو یکساں پکارتا ہے۔ ایمان قبول کرنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اپنے رب کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی میں دونوں برابر ہیں۔ نہ کوئی ایک دوسرے کے لیے چھٹکارے کا باعث بن سکتا ہے اور نہ کسی ایک کی خدمات کا حوالہ دے کر کوئی دوسرا چھوٹ سکتا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس کی وضاحت کے لیے حضورؐ نے اپنے گھر کی دو نہایت عزیز خواتین کو ان الفاظ میں مخاطب فرمایا:
’’اے محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہؓ اور اے رسول کی پھوپھی صفیہؓ دوزخ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرو کیونکہ میرا رشتہ تمہارے لیے خدا کے ہاں مفید نہیں ہوسکتا۔‘‘
جوابدہی میں انفرادی ذمہ داری
آخرت میں سرخروئی اور مالک سے مغفرت پالینے کی جدوجہد مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کے ذریعہ اپنے اعمال میں اضافہ تو کرسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آخرت میں اپنے اپنے نامہ ہائے اعمال بدل لیں یا اپنی نیکیاں یہاں سے وہاں منتقل کرکے ایک دوسرے کو بچالیں۔ رب کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی ایک ایسا خالص انفرادی معاملہ ہے جس میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ کوئی کسی پر الزام دھر کر بچ نہیں سکتا، اور کوئی کسی سے کچھ لے دے کر جان نہیں چھڑا سکتا۔ مالک کی طرف سے عائد شدہ فرائض کو پورا کرنا مالک کے ہر اطاعت گزار اور وفادار غلام کا اپنا کام اور ہر مطیع و فرمان اور وفادار لونڈی کا اپنا معاملہ ہے۔ وہ فرائض بھی جو مالک نے اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں پر ان کی انفرادی حیثیت میں عائد کیے ہیں اور وہ فرائض بھی جو مالک نے ان پر اجتماعی حیثیت سے عائد کیے ہیں اور درحقیقت اجتماعی فرائض بھی انفرادی جدوجہد کے ذریعے ہی ادا ہوسکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے بڑا اجتماعی فریضہ دین کی سربلندی کی جدوجہد ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ’’یاایہا الناس‘‘ کہہ کہہ کر اپنی بندگی کی طرف بلاتا ہے۔ پھر ایمان والوں کو ’’یا ایہا الذین آمنوا۔‘‘ کہہ کہہ کر پکارتا ہے اور ان پر فرائض عائد کرتا ہے۔ اور ان میں بھی عورتوں اور مردوں کی کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ اس لیے سب سے پہلے یہ بات ذہن سے نکال دینے کی ہے کہ دین کو سربلند کرنے اور اسے قائم کرنے کا فریضہ صرف مردوں پر ہے عورتوں پر اول تو ہے ہی نہیں اور اگر کسی درجے میں ہے تو بس ہلکے پھلکے انداز میں محض اضافی اجر حاصل کرنے کی خاطر ہے۔ ورنہ عورت تو مرد کے تابع فرمان ہونے، کمزور جسم ہونے اور بچوں میں مصروف ہونے کے سبب ان ساری ذمہ داریوں سے بالکل بری الذمہ ہے۔ مرد ان کی طرف سے ان کی دینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور وہ جس نوعیت کی بھی ذمہ داری ادا کرالیں اس کے سوا بھلا کیا چارئہ کار ہوسکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ دین کے ساتھ طرزِ عمل کا یہ تصور کسی صنف کے لیے بھی درست نہیں ہے۔ اگر مردوں کی طرف سے کیا ہوا دینی کام ہی عورتوں کے لیے کافی ہوتا تو حضرت نوحؑ کی صدیوں کی پُر مشقت دعوت دین ان کی اہلیہ کو ضرور بچا لیتی لیکن قرآن گواہ ہے کہ وہ نہ بچاسکی۔ حضرت لوطؑ کے اپنے مالک کی راہ میں اٹھائے ہوئے مصائب ان کی بیوی کو بچا لیتے لیکن عذاب ناک پتھروں کی مار سے اسے نہ بچاسکے۔ اسی طرح اگر عورتو ں کا دین مردوں کے حوالے ہی ہوتا تو فرعون کی بیوی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے علیحدہ دین حق کا اظہار کرکے آزمائشوں میں مبتلا ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہر ہر مسلمان مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی آخرت کی فکر کرے اور اپنے دینی فرائض کو خود ادا کرے اسی طرح ہر ہر مسلمان عورت کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی آخرت کی خود علیحدہ فکر کرے اور اپنے دینی فرائض کو خود ادا کرے اور ان فرائض میں سب سے بڑا فریضہ دین کو قائم کرنا اور اس کی عملداری کے اجراء کا فریضہ ہے۔ اس کی طرف سے جو جتنی غفلت کرے گا اپنے نامہ اعمال کو اسی قدر ہلکا اور بے وزن بنائے گا اور آخرت کی باز پرس کا اسی قدر مستحق ٹھہرے گا۔ اپنے گھروں میں خواتین کے نان نفقہ اور دیگر مسائل سے جس طرح مرد پہلو تہی نہیں کرسکتے اس لیے کہ انہیں گھروں میں قوّام کی حیثیت دی گئی ہے اور ان کے اثرات غالب تر رکھے گئے ہیں اسی طرح خواتین کی دینی تعلیم و تربیت اور ان کے دینی مسائل کے بارے میں بھی وہ کلیتاً بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ خود ان کے دین نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ :
قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً۔ (تحریم)
’’اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچاؤ۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ آگ سے بچانے کے لیے ان میں اللہ کی اطاعت و خشیت، دینی احکام کی پابندی اور اسلامی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہے تاکہ وہ اللہ کے غضب کی آگ سے بچ سکیں اور اسی اسلامی تربیت کے لیے ان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَجَعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔
’’اے ہمارے رب تو ہمیں اپنے اہل خانہ اور اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں نیک لوگوں کا پیشوا بنا۔‘‘
خواتین اور تربیتِ اولاد
اسی طرح اولاد کے معاملے میں ان کی دینی تربیت کی ذمہ داری مردوں سے بڑھ کر عورتوں پر ہے۔ اس لیے کہ بچوں کی تربیت میں باپ سے بڑھ کر ماں کے اثرات کام کرتے ہیں۔ بچوں کے چھوٹے چھوٹے ذہنوں میں اولین اثرات ان کی ماؤں کی طرف سے قائم ہوتے ہیں۔ جیسے کسی چھوٹے پودے کے تنے پر کوئی نقش بنادیا جائے تو وہ پودے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ابتدائی زندگی کے نقوش بعد میں آنے والی زندگی کے مستقل نقوش کی صورت میں بچوں کی شخصیت پر مرتسم ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں اور باپ دونوں میں جو اپنے دینی کردار میں کوئی کمزوری رکھتا ہے بالعموم وہ کمزوری بہر حال اولاد میں نمودار ہوکر رہتی ہے۔ انسانی فطرت سہولت پسند واقع ہوئی ہے۔ والدین میں سے کسی ایک کی زندگی دینی حدود و قیود کی پابندیوں سے جس جس درجے میں آزاد ہوتی ہے اسی درجے میں بچے اس سہولت سے غیر شعوری طور پر فائدہ اٹھاتے اور اسے نمونہ بناکر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر دینی امور کی انجام دہی میں باپ کے اندر کوتاہیاں ہیں۔ تو بچے اس سے وہ کوتاہیاں اخذ کرلیتے ہیں۔ اور اگر ماں کے اندر کمزوری ہے تو وہ کمزوری ماں سے قبول کرلیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہوسکتاہے کہ بچے ماں باپ کی ساری خوبیوں کے حامل نہ ہوں۔ لیکن بالعموم دونوں کی کمز وریاں چن چن کر وہ اپنے اندر جمع کرلیتے ہیں۔ اس لیے والدین میں سے جو بھی اپنے اندر دین کی طرف سے لاپرواہی یا اخلاقی حدود کی عدم پابندی کا شکار ہوتا ہے وہ دراصل اپنی اولاد کو بھی اس کوتاہی کا پروانۂ راہداری دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
قرآن نے مردو زن کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے:
ہُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَہُنَّ۔ (بقرہ)
’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس۔‘‘
اگر لباس کے تقاضوں کا اہتمام دونوں میاں بیوی باہمی طور پر نہیں کرتے، ایک دوسرے کی اخلاقی سترپوشی، ایک دوسرے کی خرابیوں کو رفع کرنے کی کوشش اور ایک دوسرے کی عزت و اخلاق و آبرو کی حفاظت کا اہتمام نہیں ہوتا تو پھر خرابی ضرور ہی اولاد کی طرف منتقل ہوکر رہتی ہے۔ گویا جو ناقص اخلاقی بیج ہوگا وہ بھی بچوں کے معصوم فطری کھیتی میں جڑ پکڑ کر رہے گا۔ اور اگر میاں بیوی اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لیے فریقِ ثانی کی کمزوریاں بیان کرنے لگیں، پھر تو امی ابا کی کمزوریاں کھل کر اولاد کے سامنے آتی ہیں اور سندِ جواز بن کر کردار میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح باہمی لڑائیوں اور تنازعات سے بھی والدین کی کمزوریاں اولاد کے سامنے آتی ہیں۔ اور ان کی ہوا اکھڑتی اور اولاد پر رعب زائل ہوتا ہے، جو انہیں بگاڑنے کا بڑا سبب بنتا ہے۔(جاری)