اجتماعی دینی مطالعہ
اس سلسلے میں گھر کے اندر اجتماعی مطالعہ کا اہتمام بچوں اور اہلِ خانہ کی اخلاقی تربیت میں بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اگر دوسرے کاموں کی طرح اس کام کے لیے بھی نماز فجر یا عشاء کے بعد خصوصیت سے کچھ وقت نکالا جائے جس میں سب افرادِ خاندان جمع ہوکر بیٹھیں اور چند آیاتِ قرآنی کا ترجمہ و تفسیر اور چند احادیث نبوی کا مطالعہ اجتماعی طور پر روزانہ کرلیا جائے تو اس سے بچوں کی بنیادی اخلاقیات میں قرآن و حدیث کے احکام کے اثرات نہایت تدریج کے ساتھ آہستہ آہستہ اترتے چلے جاتے ہیں۔ اور جو باتیں سادہ نصیحت کے خشک الفاظ میں بیان کرنے سے بچوں پر بعض حالات میں ردِّ عمل کے سبب الٹے اثرات ڈالتی ہیں، وہی باتیں مطالعہ کی غیر جانبدارانہ اور غیر ناصحانہ فضا میں زیادہ کشادہ دلی سے قبول کرلی جاتی ہیں۔
اسی طرح دوسرا طریقہ اہلِ خانہ کے لیے مختلف اوقات میں خصوصی وقت وقف کرنے کا ہے۔ ان کے خیالات معلوم کرنے، ان کے جذبات، ان کی ضروریات اور ان کی دلچسپیوں کا اندازہ لگانا اور ان کی ذہنی مشکلات میں رہنمائی اور مشورے دینا نہایت مفید اثرات رکھتا ہے جس سے تکلف اور بوجھل بزرگی کی فضا کے بجائے بے تکلفی اور اپنائیت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح اہلِ خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فراخ دلی اور کشادہ دلی کی ضرورت بھی مسلم ہے۔ ان میں بالکل یہ احساس نہ پیدا ہونے پائے کہ موجودہ وسائل کے مقابلے میں ہمارے ساتھ تنگ دلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماحول اور معاشرے کی طرف سے داخل ہونے والی برائیوں کو بروقت ٹوکا جائے۔ اور اس سلسلے میں پُر حکمت سختی کی جائے تاکہ اہلِ خانہ کے ہر فرد کو یہ اچھی طرح معلوم ہو کہ ہمارے لیے فلاں فلاں حدود مقررہیں۔ مادی آسائشوں میں امکانی حد تک رعایت ہوگی۔ اخلاقی خوبیوں کی تعریف اور ہمت افزائی ہوگی اور اخلاقی برائیوں میں شدت اور سختی ہوگی۔ اور ان میںکوئی رعایت نہ ہوگی۔ گھر میں ایسی جانی بوجھی فضا بنادینے سے تربیت کی بہت کچھ فضا بن جاتی ہے جس میں برائی کے روکنے اور بھلائی کے پرورش پانے کا امکان قائم رہتا ہے۔ گھر کے داخلی ماحول کی تشکیل اور بچوں پر اثر انداز ہونے میں مردوں سے کہیں زیادہ عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کام صرف امور خانہ داری کو سرانجام دینا ہی نہیں ہے۔ بلکہ آئندہ اٹھنے والی عظیم قوم کی چھوٹی چھوٹی نرسری اور پنیری جو ہر ہر گھر میں علیحدہ علیحدہ پرورش پارہی ہے انفرادی توجہ اور عمدہ تربیت کی مستحق ہے۔ اس کی نگہداشت عمدہ اٹھان، صالح پرورش، دیانتدارانہ اخلاق، محنت و مشقت کی عادت بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ خدا اور رسول کی اطاعت، ان کی عظمت کا گہرا تصور دوسرے انسانوںسے ہمدردی، اخوت اور فراخ دلی معروف سے محبت اور منکر سے اجتناب کا جذبہ، ایک ماں ہی اپنی اولاد کے اندر مختلف تدابیر سے آہستہ آہستہ پیدا کرسکتی ہے۔ ہوش مند دین دار مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں سے محتاجوں کو صدقات دلواتی ہیں۔ بچوں کی صداقت اور دیانت کی ہمت افزائی کرتی ہیں، ان کے کیے ہوئے ایسے کام کو سراہتی اور انہیں انعام دیتی ہیں۔ بڑے بچوں کو کچھ زیادہ دے کر بھی آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے حصے میں سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی فراخ دلی سے دیں اور ان پر ایثار کریں گالی گلوچ پر سختی سے روکتی ہیں۔ نمازوں کے لیے اکساتی اور روزوں کی تربیت دیتی ہیں۔ صفائی اورستھرائی کا علمی سبق دیتی ہیں۔ قرآن اور حدیث میں سے چھوٹی چھوٹی اور اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ صحابہؓ اور بزرگوں دین کے لیے ایثار و قربانی اور جاں فروشی کے واقعات قصہ کہانی کی صورت میں سناتی ہیں اور جن باتوں کی تلقین کرتی ہیں ان کا سختی سے خود بھی اہتمام کرتی ہیں اور اس امر کا احساس رکھتی ہیں کہ بچے کے دل و دماغ کی لوح پر اس کی آنکھوں کا کیمرہ اپنے بڑوں کے سارے کردار اور ہر ایک حرکت کی تصاویر نہایت خاموشی سے اتارتا چلا جاتا ہے اور پھر اسی البم سے زندگی کے سبق سیکھتا ہے۔ چنانچہ ماؤں کے پیہم عملِ صالح کے نتیجے میں بچوں کے اندر ان باتوں کی سچائی کا یقین بیٹھتا چلا جاتا ہے اور ماؤں کی عمدہ تربیت بچوں کے اندر میٹھے دودھ کی طرح اترتی رہتی ہے۔ اسی لیے جو لوگ بیحد بگڑ جاتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو پوتڑوں کے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کی فطرت میں اس وقت ہی بگاڑ ڈال دیا گیا تھا جب وہ ماں کی گود میں تھے اور انہیں کسی برائی بھلائی کا ہوش نہ تھا۔
تربیت میں عملی نمونہ:
بچوں کے سامنے عملی مثال سے بڑھ کر تربیت کا کوئی عمدہ ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ عمل ہی الفاظ میں تاثیر اور تلقین میں جذ بۂ قبولیت پیدا کرتا ہے۔ اسی حکمت کے پیشِ نظر ایک بزرگ نے ایک بچے کو اس وقت تک نصیحت نہ کی تھی جب تک خود بھی عملی طور پر اس کام پر عامل نہ ہوگئے تھے۔
بچوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہے کہ ان کو ایسی باتوں کی نصیحت کی جائے جن پر والدین خود عامل نہ ہوں۔ اس سے نہ صرف بچوں پر ایسی نصیحت کا کبھی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے اخلاق میں نفاق کا بیج پیوست ہوجاتا ہے۔ اور وہ بھی عمر بھر اپنے قول کے خلاف عمل کرتے رہتے ہیں۔ اور انہیں اس برائی کا شعور تک نہیںہوتا یہی وہ چیز ہے جس نے قرآن و حدیث کی موجودگی اور حضورؐ اور صحابہؓ کی تاباں زندگیوں کے مکمل ریکارڈ کے باوجود مسلمانوں میں بے عملی، بدعملی اور نفاق کا مرض عام کردیا ہے۔
صحابیات کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ بچوں میں اپنے عمل سے دین کی تعلیم اتارتی تھیں۔ بچوں کو اپنے گھروں میں دین اسلام کتابوں میں نہیں بلکہ عملی صورت میں زندگی میں انسانوں کی صورت میں چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ اور اس کا قابلِ عمل ہونا ان پر ثابت ہوتا رہتا تھا۔ البتہ اس کے خلاف کرنا یا سوچنا بچوں کے لیے مشکل ہوتا تھا۔ ان بچوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں لاتیں، اور ان کے لیے دعائیں کرواتیں، ان کے اچھے اچھے نام رکھتیں۔ ان کو دین کی تعلیم دیتیں۔ ان کے اندر جہاد میں شہادت پانے کا جذبہ ابھارتیں، خود حضورؐ کی مجالس میں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرتیں۔ سوالات کے ذریعہ اپنی ذہنی مشکلات کو حل کرتیں اپنے اجتماعات کے لیے حضورؐ سے خصوصی وقت طلب کرتیں اور دین سیکھنے کے لیے پوری سرگرمی اور تن دہی دکھاتیں۔ آج ہمارے پاس عائلی اور معاشرتی زندگی کا ایک منضبط جامع اور بہترین نظام موجود ہے۔ اس کی ترتیب میں ان محترم خواتین کا بھر پور حصہ ہے جنھوں نے زندگی کے بارے میں مختلف سوالات پوچھ پوچھ کر اور حضور سے احکام حاصل کرکرکے دین کے اس پہلو کی تشکیل و تدوین و تشریح میں اپنا بہترین حصہ ادا کیا۔
خواتین اور مردوں کی اصلاح:
خواتین کے ذمہ مردوں کا یہ عمومی حق ہے کہ وہ انہیں گھروں میں سکون مہیا کریں۔ اور جو مرد دین کی سربلندی کی جنگ بھی لڑ رہے ہوں ان کا کام دوگنا، مشقت دوگنی اورنتیجتاً تکلیف بھی دوگنی ہوجاتی ہے۔ ان کے لیے تو خصوصاً گھروں میں راحت و سکون کی فضا پیدا کریں۔ جو مرد زندگی کی معاشی دوڑ اور دیگر منصبی فرائض کے ساتھ ساتھ اقامتِ دین کے لیے بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی مشکلات بھی بے حدوحساب ہوتی ہیں۔ انہیں جہادِ زندگانی کے دوران جن مختلف مورچوں پر لڑنا پڑتا ہے وہ اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی جسمانی اور ذہنی قوتوں کو بحال کرنے کے لیے گھر کا پُرسکون ماحول اور وہاں تعاون کی فضا موجود ہو۔ اس فضا کا مہیا کرنا جہاد میں شریک سپاہی کو پیچھے سے رسد و امداد فراہم کرانے کے مترادف ہے۔ جس کا اجر اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے۔ اور یہ سکون اور فضا دین دار خدا ترس اور نیک خواتین ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ ناخدا ترس خواتین تو الٹا اپنے دیگر مزید مطالبات پیش کرکرکے زنجیر پا بننے کی کوششیں کریں گی۔ تاکہ وہ اپنی ساری توجہات صرف ان کی مادی ضروریات پر ہی مرکوز کردیں۔ حالانکہ دیندار مردوں کی دینی جدوجہد ہی دراصل خواتین کو امداد و نصرت کا وہ موقع فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ آخرت میں رضائے الٰہی پاکر کامیاب و کامران ہوسکتی ہیں۔ یہی تو وہ چیز ہے کہ جب خواتین نے حضورؐ سے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ مرد تو اللہ کی راہ میں جہاد کرکے آخرت میں بڑے بڑے درجات پالیتے ہیں۔ اور ہم گھروں میں ان کے بچے پالتی رہتی ہیں۔ تو حضورؐ نے انہیں اطمینان دلایا تھا کہ تمہارا جہاد تمہارے گھروں میں ہے۔ بلاشبہ گھر کی چھوٹی سی ریاست کے تمام شعبوں کو چلانا اس کی آمدو صرف کو متوازن رکھنا، نئی نسل کی پیدائش، پرورش اور تربیت کرکے اسے قوم کے حوالے کرنا اور اس میں ان کے دین کے ابتدائی اسباق مستحکم طور پر پیوست کرنا جہادِ زندگانی میں مردوں کی پشت پناہی کرنا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوکر ان کی ڈھارس بندھانا اور انہیں اپنا اور اپنے گھر والوں کا بوجھ کم سے کم محسوس ہونے دینا اور تسلی و تشفی کے الفاظ سے کش مکش حیات کے لیے تازہ دم کردینا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جسے اگر خواتین حسن و خوبی سے انجام دیں تو وہ اپنے حسن عمل کا بہترین صلہ آخرت میں پائیں گی۔
مادیت کی اس مہیب دوڑ میں حلال ذرائع کی تھوڑی کمائی پر مطمئن رہنا، سادہ زندگی کو بلا کسی احساس کمتری کے اختیار کرنا، دین داری میں اپنے سے بہتر کی طرف اور دنیاداری میں اپنے سے کہتر کی طرف دیکھنا، معیار زندگی کی چھوٹی اور کھوکھلی عزت اور وقات پر نہ ریجھنا، اور حلال رزق کے حصول کی جان لیوا کش مکش میں شوہر کی جاں گسل جدوجہد میں اسے سہارا دینا، اور حلال کی کمتر کمائی پر اپنے اطمینان کا عملی اظہار کرکے اپنے شوہر کو اطمینان دلانا، یہ وہ ضروری صفات ہیں جن کی مدد سے مردوکی پست ہوتی ہوئی ہمتیں بھی بلند ہوجاتی ہیں اور سست پڑتے ہوئے قدم بھی تیز تر ہوجاتے ہیں اور یہی وہ طرزِ عمل ہے جس سے باطل کے خلاف حق کے جہاد میں عورتوں کا کثیر حصہ رکھا گیا ہے۔ (جاری)