گھریلو محاذ
س عظیم جہاد کے درجات عورتوں کے لیے بلند سے بلند تر ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اصلاح کے کام میں اپنے ان فرائض کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دائرہ اثر میں مزید کام کرتی ہیں۔ اور اپنا دائرہِ کار پھیلادیتی ہیں۔ کتنے ہی گھر ہیں جہاں دین داری عورتوں میں مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ اور وہ اپنی دین داری کا پرتو اپنے حسنِ کردار اور پرحکمت پیہم اور مد[م طرزِ عمل سے گھر کے مردوں پر بھی ڈال سکتی ہیں۔ اس لیے کہ عورتوں کو قدرت نے مردوں پراثر انداز ہونے کی زبردست قوت دی ہے۔ اس قوت کو اگر وہ بروئے کار لائیں اور بگاڑ کے بہتے دریا میں خود بھی بہنے نہ لگیں بلکہ اپنی قوت نفوذ سے مردوں کو بھی بگاڑ کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کریں تو جتنی آسانی سے وہ کام کرسکتی ہیں شاید باہر سے کسی اصلاحی تحریک کارکن ان پراتنی آسانی سے اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا بگڑا ہوا مرد بھی اپنے گھر کے اند ربگاڑ پسند نہیں کرتا۔ بلکہ حسنِ عمل کی فضا کو پسند کرتا ہے۔ اس پسندیدگی کے جذبے سے فائدہ اٹھا کر وہ گھر کی فضا کو دین داری خداخوفی نیکی اور بھلائی کے اثرات سے بھر سکتی ہیں۔ جس میں مرد مزاحم نہ ہوںگے اور پھر اس فضا میں انہیں متاثر کرکے وہ انہیں اصلاح کے کام میں لگاسکتی ہیں۔ پھر اس سے مزید آگے عزیزوں اور ہمسایوں کا ایک قریب ترین دائرہ ہے جس میں وہ اپنے اثرات کو پھیلاسکتی ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں عورتوں میں دین داری کے جذبات کے باوجود ناخواندگی عام ہے۔ اصلاح پسند خواتین ہمسایہ کی خواتین کو ناظرہ قرآن پڑھانے، دین کی اچھی اچھی باتیں بتانے، ہمسائے کے بچوں کو معمولی تعلیمی مدد دے کر ان پر اپنے اصلاحی پروگرام کے اثرات ڈال سکتی ہیں اور بتدریج محلہ کی خواتین میں چغلی اور غیبت کے ماحول کو دینی تعلیم کے ماحول سے بدل سکتی ہیں۔
محلہ میں دائرہ اصلاح
پھر اس کے آگے محلے کی خواتین میں دین کا اجتماعی شعور پیدا کرنے کی جدوجہد ہے۔ جو ہفتہ وار درس قرآن و حدیث کی مدد سے کسی مقررہ مقام پر خواتین کو جمع کرکے انجام دیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک پہنچ کر ایک خاتون دینی کام کی جدوجہد میں اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ایسا ایک اجتماعی اصلاح کا دائرہ محلہ میں قائم کرکے وہ ہمہ پہلو اصلاح کا ایک بہترین محاذ قائم کرسکتی ہے۔ ایسے اجتماعات کے بے شمار فوائد ہیں۔ اگر انہیں باقاعدگی سے منعقد کیا جائے اور دیگر اصلاح پسند خواتین کا تعاون اور امداد بھی حاصل ہوجائے تو اس کی مدد سے دوسرے گھروں اور افراد تک اصلاح احوال کا دائرہ پھیل جاتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دو بار ڈیڑھ دو گھنٹے اصلاح پسند خواتین کایکجا ہوبیٹھنا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں ہے اور اگر مستقل مزاجی سے ایسے کسی حلقہِ درس قرآن کو نبھایا جائے تو بتدریج بات چلتی چلتی اور گھر گھر پہنچتی بہت سی دیندار خواتین کو اس دائرہ میں سمیٹ لاتی ہے۔
اجتماعی کام کے فوائد
۱- دین کا فہم: ایسے اجتماعات کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ نیک کام کے لیے جمع ہونے اور سوچنے کی عادت پڑتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دین کا فہم پیدا ہوجاتا ہے۔ جس میں مسلسل اور پیہم وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ کسی تفسیر کی مدد سے چند آیاتِ قرآنی کا ترجمہ اور تشریح اور چند احادیث کا ترجمہ ہر بار اجتماع میں شرکت کرنے والی خواتین کو دین کی بہت سی باتیں ذہن نشین کرادیتا ہے۔ جس سے ان کے طرزِ عمل اور روز مرہ کی زندگی پر محسوس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔
۲- اصلاح کے طریقے: اس کا مزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح اخلاق اور تبلیغ دین کے مختلف طریقے سیکھنے سمجھنے اور استعمال کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ جس سے انسان میں دین کی حس موجود رہتی ہے۔ دینی درد قائم رہتا ہے۔دینی شعور پیدا ہوتا ہے۔ اور دین کی مدافعت کرنے کا جذبہ تازہ اور مستعد رہتا ہے۔ یعنی آدمی باطل کا بندہ بننے کی بجائے خدا کا بندہ بن کر دین کے لیے اپنی قوتوں کو صرف کرنے کا جذبہ اور احساس بار بار حاصل کرتا رہتا ہے۔
۳- اصلاحی کارکن: ایسے اجتماعات کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی مدد سے دائرہ اصلاح کو ہمہ پہلو پھیلا یا جاسکتا ہے۔ جو خواتین درس دینے کی صلاحیت رکھتی ہوں ان سے یہ کام لیا جائے تو ان کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو مطالعہ اچھا کرتی ہوں ان سے دینی کتب کے مطالعہ کا کام لیا جاسکتا ہے اور جو لکھ پڑھ سکتی ہوں انھیں خواتین کے مسائل پر لکھنے پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اور خواتین میں جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں، ان کے خلاف قلمی جہاد کا کام لیا جاسکتا ہے۔ دیگر خواتین سے ملاقاتیں کرکے انہیںاس کام پر مائل کرنے کے لیے بھی ان اجتماعات میں پروگرام بنائے جاسکتے ہیں۔
۴- تربیت اطفال میں مدد: اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بگڑے ہوئے ماحول میں اولاد کا بگاڑ جو وبا کی طرح پھوٹ پڑا ہے۔ اور جس دردناک صورتِ حال اور پیچیدہ مسئلہ سے ہر گھر میں والدین دوچار ہیں۔ اس مسئلہ پر اجتماعی ماحول میں سوچنے سمجھنے اور اصلاحِ احوال کی تدابیر اختیار کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اور ایک دوسرے کے عملی تجربات اور نتائج سے فائدہ اٹھانے کی تربیت ہوتی ہے۔ اس طرح خواتین اپنے گھر میں تربیتِ اطفال کے نئے نئے تجربات کرکے اور نئی نئی تدابیر اختیار کرکے بہتر نتائج پیدا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری شائستہ، فہیم اور دیندار خواتین کا عملی تعاون بھی اس کام میں حاصل ہوجاتا ہے۔ جس سے تربیت و اصلاح کے عمل میںکئی گنا قوت پیدا ہوجاتی ہے۔
۵- مشورے اور معاونین: مزید یہ کہ اس دور میں انسان آلام و وسائل کے ہاتھوں جس درماندگی کا شکار ہے اس میں دوسرے ہمدرد انسانوں کے مشورے بھی مل جاتے ہیں۔ اور ہمدرد معاونین کی موجودگی سے ہمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور دکھ سکھ کے بیان اور اظہار سے ان کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اجتماعات کی مدد سے داخلی طور پر بہت سے شریف اور دیندار گھرانوں سے روابط کے مواقع پیدا ہوتے ہیںجو انفرادی دکھ سکھ میں مشورے اور شرکت سے ان کا بوجھ کم کردیتے ہیں۔ اور خارجی طور پر ایسے گھرانوں میں تعاون ہونے سے مردوں میں بھی ایک دوسرے سے میل ملاقات کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، جس سے بھری آبادیوں میں خود غرضی کے اس اجنبیت زدہ ماحول میں اپنائیت کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ جو بہت سی معاشرتی تسلیوں اور سہولتوں کا باعث بن جاتا ہے۔
اجتماعی فتنوں سے پرہیز
البتہ ایسے اجتماعات کے بے شمار فوائد کے باوجود بعض فتنے اور اندیشے بھی ان سے وابستہ ہوتے ہیں، جن سے بچنے کے عملی اقدامات کا اہتمام کیے بغیر نقصان اٹھانے، غلط فہمیاں پیدا ہونے،اور دلوں کے ٹوٹنے اور دوریاں پیدا ہونے کے خدشات بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایسے فتنوں سے آگاہی ضروری ہے۔ اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
۱- غیبت اور چغلی: خواتین کے اجتماعات کا سب سے بڑا فتنہ چغلی اور غیبت کی دخل اندازی ہے۔ اگر یہ بلا کہیں گھس آئے تو دینداری اور خدا ترسی کی ساری فضا مسموم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور دلوں کے توڑ پھوڑ کا عمل پوری سرعت اور قوت سے شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن نے چغلی اور غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے ایک ایسا زہر قرار دیا ہے جو سات سمندروں کے پانی کو زہریلا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ خدا ترسی اور نیکی کی سرسبز فصل کو جڑ سے اکھاڑ دینے والی درانتی ہے۔ اور اجتماع کو انتشار میں اور اتفاق کو بغض، حسد میں تبدیل کردینے والی زبردست قوت اس فعل قبیح میں موجو دہے۔ سمجھ دار خواتین کا کام ہے کہ اپنے اجتماعی ماحول کو اس فتنے سے پاک رکھنے کا پورا پورا اہتمام کریں۔
۲- رشک اور نقل: دوسرا فتنہ باہمی رشک و حسد ایک دوسرے کی نقل اور فیشن کا مقابلہ ہے۔ اس کے ذریعہ بھی اجتماع کا ماحول بتدریج زہر ہوجاتا ہے۔ اور دوسری خواتین کی نقل سے گھریلو کش مکش نمودار ہوجاتی ہے۔ مردوں کے لیے اس سے بڑا بوجھ اور کوئی نہیں ہوتا کہ ان کے گھر کی خواتین کی طرف سے مساوی مطالبات میں اس لیے اضافہ ہوجائے کہ وہ کسی اجتماع سے رشک کے جراثیم لے کر آئی ہوں۔ وہ خود بخود ایسے اجتماعات کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ جہاں سے ان کے گھریلو اطمینان میں کمی آئے اور بلا لحاظ مالی حالت ان سے مادی مطالبات کا اضافہ ہونے لگے۔
۳- خوردہ گیری: ایسے اجتماعات کا تیسرا فتنہ بے جا تنقید کی شدت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت اور گرفت ہے۔ بگڑے ہوئے ماحول میں سے اگر کچھ خواتین دینی جذبہ کی مدد سے کھنچ کر یک جا ہوتی ہیں تو ان میں ماحول کے بگاڑ کے غیر شعوری اثرات تو ظاہر ہے کہ ابتدائی طور پر ضرور کچھ نہ کچھ پہلے سے موجود ہوں گے۔ اگر اصلاح کے لیے کوشاں خواتین خوردہ گیری اور تنگ دلی سے کام لے کر اصلاح کے عمل میں شدت اختیار کریں گی اور ہر ایک کو اپنے ہی حاصل کردہ معیار پر پرکھیں گی اور چاہیں گی کہ ہر خاتون فی الفور اس معیار پر پوری اترے تو اس کانتیجہ بغض، عناد کی صورت میں رونما ہوگا۔ اور اصلاح کی رفتار کو تیز تر کرنے کا شوق موجودہ اہم رفتار کو بھی ختم کردے گا۔ اور بتدریج دائرہ اصلاح سمٹتا چلا جائے گا۔ اس معاملہ میں لباس سب سے زیادہ اور سب سے پہلے زیر بحث آنے والا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ بگڑے ہوئے ماحول نے لباس میں ستر کے حدود کا احترام بہت حد تک کم کردیا ہے۔ لیکن اس میں دین سے ناواقفیت اور چلتی ہوئی رود کا بھی بڑا دخل ہے۔
باریک اور موٹے دوپٹوں کی بحث۔ پوری اور چھوٹی آستین کا جھگڑا۔ شلوار کی تنگ اور کھلی مہری کا مسئلہ، ڈھیلی اور تنگ قمیصوں کا قصہ، یہ ساری باتیں ایک تدریج اور حکمت ہی سے حل ہوسکتیں ہیں۔ اور اس کے لیے نصیحت اور اصلاح کا طریقہ بھی دوسروں کی عزتِ نفس اور فہمِ دین اور اہتمام دین کے جذبے کے مطابق اختیار کیا جانا چاہیے۔ جہاں شدت آئے گی وہاں ردِ عمل آئے گا۔ جہاں تنقید آئے گی وہاں شیطان کو عزتِ نفس اور پندار کا مسئلہ کھڑا کرنے کا موقعہ بھی ملے گا۔ ایسا طرزِ عمل بہر حال اختیار نہیں کیا جانا چاہیے کہ آپ اصلاح تو نہ کرسکیں، البتہ دوسروں کے شیطان کو بھڑکا کر اسے اصلاح کے دائرے سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں۔ یہی معاملہ اچھے اور برے سادہ اور قیمتی لباس اور زیورات کی کمی و بیشی میں بھی پیش آسکتا ہے۔ بالکل ابتدائی شرکت کرنے والی خواتین میں نمائشِ لباس و زیورات کا جذبہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اسے خوبصورتی سے نظر انداز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسی کسی چیز پر کوئی ردِ عمل بھی ظاہر نہ کیا جائے اور کسی قسم کی ناپسندیدگی یا پسندیدگی نمایاں نہ ہونے پائے تو وہ نمائش کا جذبہ بتدریج خاموشی سے سرد پڑجاتا ہے۔ اس سے پریشان ہونا بھی غلط ہے۔ اور اسے نمونہ بنا کر خود اس کا شکار ہونا اور اپنے مردوں کو دوسروں کا نمونہ بتا بتاکر انہیں زچ کرنا بھی مہلک ہے جس سے پرہیز ازحد ضروری ہے۔
۴- امتیازی سلوک: اسی طرح ایسے اجتماعات میں ہر قسم کے گھرانوں سے خواتین آتی ہیں، بلکہ بیشتر غریب گھرانوں کی خواتین بھی ان سے دلچسپی لینے میں اولیت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ حکمتِ دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خواتین میں غربت و امارت کا کوئی امتیاز محسوس نہ ہونے پائے۔ نہ نشست و برخاست میں، نہ بات چیت میں، نہ طرزِ عمل اور سلوک میں، اور نہ ہی مہمان داری اور باہمی تعلقات میں۔ اس لیے کہ اس مادی دور میں قناعت اور توکل کی دولت بڑی چیز ہے ۔ لیکن وہ دینی مہم کی گہرائی کے ساتھ ساتھ ہی حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ معیارِ زندگی کی اندھی دوڑ میں غربا میں احساسِ غربت اس شدت سے ہوتا ہے کہ آبگینہ ٹھیس کھانے کے لیے بس ہر وقت تیار ہی رہتا ہے۔ اور معمولی طرزِعمل کا فرق، معمولی اشارہ کنایہ اور چھوٹی سی بات تک ان کے احساسِ عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ جس سے اجتماعی کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے طرزِ عمل اور حالات کا اہتمام کرنا ان خواتین کا بہت بڑا فریضہ ہے۔ جو ایسے اجتماعات کے اہتمام میں پیش پیش ہوں۔ چھوٹے سے چھوٹا امتیازی سلوک بھی ساری فضا کو مسموم کرکے انہیں دور کرنے کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ چائے، پانی، شربت، بات چیت، پروگرام میں حصہ، مشورے، نشست و برخاست، طرزِ گفتگو، غرض کوئی بات بھی ایسی امتیازی نہ ہونے پائے کہ جس سے کوئی خاتون اسے اپنی غربت کا سبب قرار دے کر دل توڑ دے۔ اس فتنے سے بچنے کے لیے ایسی خواتین کو خصوصی اہتمام سے سلوک کی مساوات کا اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقامِ بلند جنت زیر ِپا
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے کام میںباشعور دیندار خواتین بہت عمدگی سے اپنا حصہ ادا کرسکتی ہیں بلکہ معاشرے میں نمودار ہونے والے مختلف غلط رجحانات تو ایسے ہوتے ہیں، جنہیں خواتین اول قدم پر ہی اپنی انفرادی کوششوں سے گھروں کے اندر روکنے کا سب سے زیادہ اور موثر کام کرسکتی ہیں۔ شوہروں کے لیے سکون ذہنی اور جسمانی کے ساتھ روحانی تسکین کا بھی سامان بہم پہنچاسکتی ہیں جس سے کوئی مرد بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اولاد کو دیندداری کا اولین سبق اپنے قول و عمل سے دے کر ان میں دین کی بنیادیں مستحکم کرسکتی ہیں۔ گھروں میں قناعت، توکل، سکون اور امن کی فضا پیدا کرکے مردوں کی قوتِ کارمیں اضافہ کرسکتی ہیں۔ کم آمدنیوں کو اپنے سلیقہ اور محنت سے استعمال کرکے عزت و آبرو اور خودداری سے رہنے کا سامان مہیا کرسکتی ہیں۔ اپنے تعاون، رفاقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی اور دنیوی ترقی کے دروازے تک پہنچاسکتی ہیں۔ اپنے کردار کی قوت سے اپنے ہمسایوں اور عزیزوں میں اپنا عمدہ نمونہ دے کر کتنے ہی گھروں میں اصلاح احوال کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ دینی اجتماعات میں اپنے اخلاق کی عمدگی، شائستگی، تواضع، ادب و احترام اور حسنِ خلق سے کتنے ہی دلوں میں دینداری کا شوق پیدا کرسکتی ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کے ذریعہ ہمسایوں کی روایتی چشمک کو ختم کرکے اپنے آس پاس ایک ہمدرد، مہذب، دیندار اور معاون ماحول پیدا کرسکتی ہیں، اور دین کے لیے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرکے ان مجاہدات میں شامل ہوسکتی ہیں جن کے لیے حضور ﷺ نے ان کے گھروں کو ہی میدانِ جہاد قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی وہ مائیں ہوتی ہیں جن کی رضا مندی اور خدمت کو باپوں کے مقابلہ میں بھی تین تین بار فضیلت اور فوقیت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایسی ہی ماؤں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ ایک مسلمان خاتون کے لیے یہ ایک قابلِ فخر بلندمقام ہے جو اس کے دین نے اسے دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ بلند مقامات کے حصول کے لیے پیہم جدوجہد، مسلسل محنت، ایثار وقربانی اور نفس کشی وہ شرائط ہیں جو کبھی نظر اندازنہیں کی جاسکتیں۔
(ختم شد)