سال ۲۰۰۶ء کو بہت سے تجزیہ نگاروں نے ہندوستان میں ’شہریوں کا سال‘ (The year of citizens) قرار دیا ہے۔ اس سال شہریوں نے جس سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور اپنے حقوق اور انصاف کے لیے کسی سیاسی سرپرستی کے بغیر جس طرح منظم طریقہ سے جدوجہد کی اس کی نظر ماضی قریب میں مشکل ہی سے ملتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجہ میں جسیکا لال کیس کو ایک نیا موڑ ملا۔ پریہ درشنی منٹو کیس میں حرکت پیداہوئی، کھیر لانجی کے واقعہ کو عالمی سطح پر سنوائی حاصل ہوئی، طاقتور سیاسی قائدین کو جھکنا پڑا، عدالتی نظام کو اپنی روایتی سست روی کو وقتی طور پر سہی، ترک کرنا پڑا۔
یہ اور اس طرح کی بے شمار تحریکیں ہمارے ملک میں عام شہریوں کی جانب سے چلائی جارہی ہیں۔ ان میں سے اکثر کسی سیاقی سرپرستی کے بغیر چل رہی ہیں۔ فوجداری معاملات میں انصاف، عورتوں کے حقوق، دلتوں اور کمزوروں کے حقوق، بچوں کے حقوق، صارفین کے مسائل، ماحولیاتی تحظ اور عام شہری مسائل — ان ایشوز کو لے کر ہر شہر میں بڑی سرگرم تحریکیں کام کررہی ہیں اور ملک کے منظر نامے میں خوشگوار تبدیلیوں کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ آج ہندوستان تیسری دنیا کے اکثر ملکوں سے سماجی حرکیت، اور شہریوں کی فعالیت (Citizen’s Activism) کے اعتبار سے آگے ہے۔ اس سرگرمی میں اگر اس طرح اضافہ ہوتا رہے تو صرف یہ عامل (Factor) ہی ہمارے ملک کو ایک ترقی یافتہ معاشرہ میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان ساری تحریکوں میں خواتین بھی سرگرم ہیں۔ بلکہ بعض تحریکیں تو خواتین ہی کی جانب سے چلائی گئی ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ، صارفین کے حقوق وغیرہ تحریکوں کی پشت پر اکثر تعلیم یافتہ گھریلو خواتین (House Wives) ہیں۔ جنھوں نے اپنی تعلیم، صلاحیت اور وقت کا ایک مبارک مصرف ڈھونڈ نکالا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح کی تحریکیں مسلم خواتین کی جانب سے نہیں کے برابر ہیں۔ مردوں میں مختلف ایشوز کو لے کر کسی نہ کسی درجہ میں سرگرمی پائی جاتی ہے۔ لیکن سماجی سطح پر سرگرم مسلم خواتین خال خال ہی ہیں۔ اس عدم فعالیت کے کئی نقصانات ہیں۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ فعالیت سماجی تبدیلی اور ریفارم کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جو لوگ فعال اور سرگرم ہوتے ہیں، اکثر انہی کے منشا اور انہی کی ترجحات کی سمت میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اسلام پسندوں کی عدم فعالیت کا سیدھا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سماجی اصلاحات، اسلام کے نشا کے مطابق نہیں ہوتی۔ اور بسا اوقات اسلام کے منشا کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس وقت ہم جنس پرست ہمارے ملک میں بہت سرگرم ہورہے ہیں۔ وہ سرگرم ہوجائیں اور ہم غیرفعال رہیں تو اس کا واحد نتیجہ ہی ممکن ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہم جنس پرستی ہمارے معاشرہ میں عام ہوجائے گی اور اسے کوئی برائی نہیں سمجھا جائے گا۔ اور خود مسلمانوں کی آئندہ نسلیں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائیں گی (نعوذ باللہ)۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ مسلم خواتین کی عدم فعالیت اس تاثر کو تقویت پہنچاتی ہے کہ پردہ اور حجاب سے متعلق اسلام کی تعلیمات عورت کی شخصیت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہیں۔ اور اس کے لیے کوئی مثبت تعمیری رول کو ناممکن بنادیتی ہیں۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں مسلم خواتین اس تاثر کو اپنے عمل سے غلط ثابت کررہی ہیں۔ لیکن ایک عام ہندوستانی جب تک ہندوستانی معاشرہ میں مسلم خواتین کی موجودہ کیفیت کو دیکھتا رہے گا وہ یہی سمجھے گا کہ اس کیفیت کی ذمہ دار اسلام کی تعلیمات ہیں۔
تحریک اسلامی نے خواتین کو منظم کیا ہے۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر خواتین کے اجتماعات مردوں کے اجتماعات سے زیادہ کامیاب ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری خواتین اجتماعات سے آگے بڑھیں۔ اجتماعات ذہن سازی اور تحریک و ترغیب Motivationکا ذریعہ ہیں۔ اگر اجتماعات ہی ہماری واحد سرگرمی بن جائیں توان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری خواتین ملک کے زندہ اور سلگتے ہوئے مسائل میں دلچسپی لیں۔ ان کے حل کی سنجیدہ کوشش کریں۔ اس مقصد کے لیے تحریکیں چلائیں۔ سوسائٹی کو نیا رنگ اور نئی شکل دینے میں اپنا رول ادا کریں۔ آج ہماری صفوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بہنیں موجود ہیں، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں پڑھنے ،لکھنے اور بولنے کی صلاحیتیں رکھنے والی خواتین موجود ہیں۔ سماج کے حساس مسائل سے وہ بے خبرنہیں ہیں، نہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان مسائل پر ہمارے اطراف و اکناف کس قسم کی تحریکیں چل رہی ہیں اور کیا کام ہورہا ہے۔ اخبار پڑھ کر کڑھنا، لاحاصل مباحث میں اپنا وقت ضائع کرنا، اور زمانہ، اربابِ اختیار وغیرہ وغیرہ کو برا بھلا کہہ کر اپنا خون جلانا، ایک غیر تحریکی فرد کی مجبوری ہوسکتی ہے کہ وہ بے چارہ یہ سمجھتا ہے کہ اپنے ضمیر کی تسکین کے لیے وہ اس سے زیادہ کچھ کرہی نہیں سکتا۔ لیکن ایک تحریکی فرد (اور تحریکی خاتون) کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے اطراف، ظلم، زیادتی، برائی، بداخلاقی اور گندگی دیکھے اور خاموش رہے۔
حساسیت (Sensitivity)
اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم سماج کے مسائل کے تئیں حساس ہوں – اگر ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہو، یا ہمارا بچہ خدانخواستہ غلط صحبت میں پڑجائے، یا ہمارے پڑوس میں خوانخواستہ آگ لگ جائے تو ہم ڈرائنگ روم میں محفل سجاکر گھنٹوں زمانہ کو کوستے ہوئے نہیں بیٹھتے بلکہ مسئلہ کے حل کی کوئی عملی تدبیر سوچتے ہیں۔ یہی رویہ سماجی مسائل کے تئیں بھی ہونا چاہیے۔ مظلومین کو انصاف نہیں مل رہا ہے؟ جہیز کے لیے عورتیں جلائی جارہی ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جارہا ہے، کمپنیاں صارفین کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ اخبارات فحاشی پھیلارہے ہیں۔ پڑوس کی جھونپڑی میں مرد شراب پی کر عورتوں کی زندگیاں اجیرن کررہے ہیں۔ غریب بچوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم نہیں ہورہی ہیں۔ یہ سب مسائل جو اخبارات میں آپ پڑھتی ہیں، آپ کے مسائل ہیں۔ بچہ کی بیماری اور پڑوس کی آگ کی طرح یہ مسائل بھی لمبی لمبی بحثیں اور مگرمچھ کے بے عمل آنسو نہیں بلکہ عملی تدبیریں اور ٹھوس کاوشیں چاہتے ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اگر ان مسائل پر بھی صحیح معنوں میں ہمارا دل دکھے تو ہم چاہیں نہ چاہیں عملی تدبیر کی طرف ہی بڑھیں گے۔ اس لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم مسائل کے تئیں حساس ہوں۔ ان مسائل کا دکھ اور ان کی کسک اپنے سینے میں محسوس کریں۔
حل کی تدیبروں سے واقفیت
دوسری ضروری یہ ہے کہ ہم ان ذرائع سے واقف ہوں جو ایک جمہوری معاشرہ میں مسائل کے حل کے لیے ایک عام شہری کو میسر ہیں۔
ایک شہری کی حیثیت سے آپ اربابِ اختیار تک اپنی بات پہنچاسکتی ہیں۔ شکایت درج کراسکتی ہیں۔ مطالبہ کرسکتی ہیں۔ احتجاج کرسکتی ہیں۔ دھرنوں، جلوسوں اور مارچوں کے ذریعہ دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے آپ کو رشوت خور ٹی ٹی کا ظلم سہنا پڑا، ایک اپروچ تو یہ ہے کہ آپ ظلم سہہ کر رشوت پر لمبی چوڑی تقریر کرتے ہوئے گھر لوٹ آئیں، دوسرا اپروچ یہ ہے کہ آپ اسٹیشن پر اتر کر شکایت درج کرائیں۔ با ت بہت معمولی ہے لیکن دوسرا رویہ سماجی فعالیت کا مظہر ہے جبکہ پہلا رویہ بے بسی اور بے چارگی کی علامت ہے۔
آپ عدالت میں مفادِ عامّہ کی درخواست دے سکتی ہیں۔ آپ کنزیومر عدالتوں کا استعمال کرسکتی ہیں۔ حقوق انسانی کمیشن، ویمن کمیشن، مائناریٹی کمیشن، لیبر کورٹ، پریس کونسل، ایس سی ایس ٹی کمیشن، وغیرہ ادارے آپ ہی کو قوت پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آپ RTIکے تحت معلومات حاصل کرسکتی ہیں۔ لیکن مسلم خواتین ان اداروں کا کتنا استعمال کرتی ہیں؟
یہ تدابیر تو حکومت سے اپنا حق حاصل کرنے کی ہیں۔ ان کے علاوہ آپ خود سرگرم ہوکر مخفلت کام کرسکتی ہیں۔ سماج کے مختلف مسائل کو حل کرنے میں اپنا رول ادا کرسکتی ہیں۔
انٹرنیٹ آج کل سماجی سرگرمی کا بڑا اہم مرکز ہے۔ بلاگس، آن لائن پٹیشن، انٹرنیٹ گروپس اور میل وغیرہ کے ذریعہ آپ زبردست عوامی دباؤ بناسکتی ہیں۔ سال ۲۰۰۶ء کی اکثر عوامی تحریکوں میں انٹرنیٹ کا بہت اہم اور کلیدی رول رہا ہے۔
ان سب تدبیروں کے مؤثر استعمال کے لیے ضروری ہے کہ ہماری بہنیں، اپنے اطراف و اکناف میں جاری تحریکوں کی واقفیت پیدا کریں۔
آؤٹ لک، انڈیا ٹوڈے جیسے جریدے سماجی سرگرمیوں کے تعارف کے لیے مستقل کالم چلاتے ہیں۔ (مثلاً آؤٹ لک کا کالم Making a difference) ان کالمز کا مستقل مطالعہ ہمیں سماجی کاموں کی انجام دہی کے طریقے اور سلیقے سے واقف کرائے گا۔
انٹرنیٹ mdianngos.comجیسی ویب سائٹس ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف محاذوں پر جاری سماجی سرگرمیوں سے واقفیت کا بہترین ذریعہ ہیں۔
ہر بڑے شہر میں این جی اوز کے فورم اور کلب ہیں جن کو میٹنگوں میں شرکت سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
اعتماد اور پیش قدمی
آخری چیز یہ کہ سماجی فعالیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری خواتین کے اندر خود اعتمادی ہو۔بڑے سے بڑے افسر سے بات کرتے ہوئے، اس سے اختلاف کرتے ہوئے اور اس پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ مجمع اور ہجوم ہمارے اوسان خطا نہ کرے۔ کوئی نئی بات کہتے ہوئے یا کوئی نیا آئیڈیا پیش کرتے ہوئے ہمیں کسی قسم کا خوف محسوس نہ ہو۔
اعتماد علم اور عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ معلومات کی وسعت آدمی کو اپنے اندر اعتماد عطا کرتی ہے۔ اور عشق و تجربات اس کے دل سے ڈر اور ہچکچاہٹ ختم ہوکرتے ہیں۔
اعتماد کے ساتھ ایک اور صلاحیت جو ضروری ہے، وہ بیش قدمی یا Initiativeکی صلاحیت ہے۔ یعنی یہ انتظار کیے بغیر کہ کوئی کہے گا تو ہم تائید کریں گے یا کوئی کام شروع کرے گا تو ہم جوائن کریں گے، ہم خود آگے بڑھ کر شروعات کریں۔ اس صلاحیت کے لیے اعتماد ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔ خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ پیش قدمی بذاتِ خود بھی ایک صلاحیت ہے جس کی اپنے اندر نمو کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔