شریعت نے خاندانی نظام کی بقا، بچوں کی بہتر نگہداشت اور خواتین کی فطری صلاحیت کی رعایت کرتے ہوئے ذمہ داریوں کی اس طرح تقسیم کی ہے کہ کسبِ معاش کی ذمہ داری – جس کے لیے محنت، مزدوری، دوڑ دھوپ کی ضرورت پیش آتی ہے – مرد پر رکھی گئی ہے اور امور خانہ داری خواتین سے متعلق رکھے گئے ہیں، اس کی یہ تعبیر درست نہیں ہے کہ عورت گھر کی خادمہ ہے، بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ عورت گھر کی مالکہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المرأۃ راعیۃ علی بیت زوجہا وولدہ وہی مسئولۃ عنہم۔ (بخاری)
عورت گھر کی ذمہ دار اور اس کی انچارج ہے، عورت کو -چاہے وہ کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتی ہو- کسبِ معاش پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، یہ خواتین کے لیے بہت بڑی رحمت ہے، آج مغربی دنیا میں خواتین سے دوہری خدمت لی جاتی ہے، ان کو بچوں کی پرورش اور امور خانہ داری کی بھی تکمیل کرنی پڑتی ہے اور ملازمت کرکے پیسے بھی کمانے پڑتے ہیں اور معاشی ذمہ داریوں میں بھی شریک ہونا پڑتا ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے خواتین پر کسبِ معاش کا دروازہ بالکل ہی بند کردیا ہے۔ اگر وہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے کسبِ معاش کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے، تو اس کی گنجائش ہے۔
کسبِ معاش کی مختلف صورتیں
کسبِ معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت ہے براہِ راست معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی، اور دوسری صورت ہے بالواسطہ سرمایہ کاری کی، براہِ راست کسبِ معاش کی چار صورتیں ہیں:
(۱) تجارت : (خریدو فروخت)
(۲) زراعت: (کاشت کاری)
(۳) صنعت : (کاریگری)
(۴) اجارہ: (کرایہ پر لگانا یا ملازمت کرنا)
تجارت
تجارت سے مراد خریدو فروخت ہے، یعنی کسی شے کو خود یا اپنے نمائندہ کے ذریعے خرید کرنا اور پھر نفع کے ساتھ اسے خود یا نمائندہ (وکیل) کے ذریعے فروخت کردینا۔ عورتوں کے لیے کسی شے کا خریدنا بھی جائز ہے اور بیچنا بھی۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضرت بریرہؓ کو ان کے مالکان سے خریدا تھا۔حضرت شفاء عدویہؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عطر فروخت کیا کرتی تھیں، اسی طرح اسماء بنت مخرمہؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عطر بیچا کرتی تھیں، عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ یمن سے ان کے پاس عطر بھیجتے تھے، وہ اسے فروخت کرتیں اور شیشی میں رکھ کر حوالہ کرتیں، نیز جن کے ذمہ پیسے ہوتے، ان کا اندراج بھی کرلیتیں۔ اس طرح کی بہت سے روایتیں موجود ہیں، اسی لیے فقہا کا اتفاق ہے کہ خریدوفروخت کرنے والے کا عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے۔ مرد ہونا ضروری نہیںہے۔ عورت بھی شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ سامان خرید اور فروخت کرسکتی ہے، یا اپنے وکیل ونمائندہ کی وساطت سے تجارت کرسکتی ہے۔
کاشت کاری اور باغبانی
اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ کاشتکاری یا باغبانی کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں ہے۔ خواتین شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ خود بھی کاشت کاری کرسکتی ہیں، باغ لگاسکتی ہیں اور دوسروں سے کام لیتے ہوئے بھی زراعت کرسکتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ غزوئہ تبوک کے موقع سے تشریف لے جارہے تھے، آپﷺ نے وادیٔ قریٰ میں ایک خاتون کو دیکھا، جو اپنے باغ میں تھیں، آپﷺ نے زکوٰۃ کی مقدار کا اندازہ کرنے کے لیے باغ کی پیداوار کا اندازہ فرمایا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ باغ انہی خاتون کا تھا اور وہ خود اس کی نگرانی کررہی تھیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی تھی، وہ اپنے کھجور کے پھل توڑنا چاہتی تھیں، ایک صاحب نے ان کو نکلنے سے منع کیا، انھوں نے حضورﷺ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں؟ اپنے کھجور توڑو، اس لیے کہ امید ہے کہ تم اس سے صدقہ کرو گی، یا کوئی بہتر کام کرو گی۔ غرض کہ عورت زراعت اور باغبانی کے ذریعے بھی کسبِ معاش کرسکتی ہے۔
صنعت و حرفت
خواتین کے لیے ایسی صنعت و حرفت بھی- جو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہو اور جن میں شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو- جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ کچھ کاریگری سے واقف تھیں، خود حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بچے بے روزگار تھے، انھوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں اپنی رقم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر اوربچوں پر خرچ کردیتی ہوں، صدقہ نہیں کرپاتی۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم کو اس پر بھی اجر ملے گا:
لک فی ذلک أجر ما أنفقت علیہم۔
یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ آئی ہے۔ حضرت سعد ابن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باڈر والی چادر لاکر پیش کی اور عرض کیا: اللہ کے رسول میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے۔ اسی طرح بعض صحابیات کے خنجر بنانے کا بھی ذکر ملتا ہے، موجودہ دور میں جو کمپیوٹر اور الیکٹرانک مشینوں کا دور ہے، بہت سے ایسے شعبے نکل آئے ہیں، جن میں خواتین شرعی حدود اور نسوانی تقاضوں کی رعایت کے ساتھ کام کرسکتی ہیں۔
کرایہ و ملازمت
آمدنی کا ایک ذریعہ اجارہ ہے، یعنی اپنی چیز کرایہ پر لگا کر اجرت حاصل کی جائے، یہ خواتین کے لیے بالکل درست ہے، اس لیے کہ آجر کا مرد ہونا ضروری نہیں، جیسے مرد اپنی مملوکہ شے کو کرایہ پرلگاسکتا ہے، اسی طرح ایک عورت بھی اپنا مکان، یا گاڑی وغیرہ کرایہ پر لگاسکتی ہے، اجارہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود کسی کام کی ذمہ داری لے کر اس کی اجرت حاصل کی جائے۔ یعنی ملازمت اور نوکری کی جائے۔ یہ بھی عورتوں کے لیے جائز ہے۔ بشرطیکہ شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ ہو اور سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے ہو، اس لیے کہ فقہا نے اجیر ہونے کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں لگائی ہے، بلکہ اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو دودھ آتا ہو، وہ اُجرت لے کر دودھ پلاسکتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اجارہ کی ایسی صورت ہے، جو عورت ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح غلام اور باندی کی ایک خاص قسم ’مکاتب‘ کی ہوا کرتی تھی۔ جو اپنے مالک سے معاہدہ کے مطابق متعینہ رقم محنت مزدوری کے ذریعے کما کر ادا کرتی تھی اور اسے غلامی سے آزادی حاصل ہوجاتی تھی۔
غرض کہ شریعت نے عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں رکھی ہے، لیکن اگر کوئی خاتون احکام شریعت کی رعایت کرتے ہوئے شادی کے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے کسبِ معاش کرنا چاہے، یا شوہر نے اسے چھوڑ رکھا ہو، اس کی اور اس کے بچوں کی ضروریات کا خیال نہ رکھتا ہو اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسبِ معاش کرے تو اس کی اجازت ہے اور ان صورتوں میں عورت خود ہی اپنی کمائی کی مالک ہوگی اور اس کے کمانے کے باوجود شوہر پر اس کے اور اس کے بچوں کے اخراجات واجب رہیں گے، سوائے اس کے کہ عورت خود ہی اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرلیا کرے اور شوہر کو اس سے بری کردے۔
سرمایہ کاری
کسبِ معاش کی بعض صورتیں وہ ہیں، جن میںبالواسطہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور نفع حاصل کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں تین صورتیں زیادہ اہم ہیں:
(۱)مضاربت (۲) شرکت (۳) مزارعت
مضاربت میں ایک شخص کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے شخص کی محنت —اور نفع میں دونوں کی شرکت ہوتی ہے۔
شرکت میں دو یا دو سے زیادہ اشخاص کا سرمایہ ہوتا ہے اور نفع ان میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
مزارعت یہ ہے کہ ایک شخص خود کھیتی کرنے کے بجائے، کھیت کسی کسان کے حوالے کردے اور بٹائی پر اس سے معاملہ طے کرلے۔
یہ تینوں صورتیں ایسی ہیں کہ عمل میں شریک ہوئے بغیر انسان نفع اٹھا سکتا ہے۔ عورتوں کے لیے سرمایہ کاری کے یہ تینوں راستے کھلے ہوئے ہیں، وہ اپنا مال ورکنگ پارٹنر (مضارب) کو دے کر اس سے نفع لے سکتی ہے، وہ کسی شخص یا کمپنی میں سرمایہ لگانے میں پارٹنر بن سکتی ہے یا شیئر خرید سکتی ہے۔ وہ اپنی اراضی بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں نفع حاصل کرسکتی ہے۔ کیوں کہ سرمایہ کاری کی ان تینوں صورتوں میں سرمایہ لگانے والے کا مرد ہونا ضروری نہیں، خواتین بھی ان طریقوں پر سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔
اگر شریعت کے ان احکام کو پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے اسلام میں کسبِ معاش کے بہت سے راستے موجود ہیں۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام نے چوںکہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکا ہے، اس لیے عورتوں کے لیے کسبِ معاش کا راستہ محدود ہوگیا ہے، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تحدید کی وجہ سے عورتوں کے لیے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ مثلاً تعلیم اور صحت ہی کو لے لیجیے، اگر مخلوط تعلیم کا نظام نہ ہو، لڑکیوں کے لیے الگ اسکول اور کالج قائم ہوں اور ان کو خاتون اساتذہ کی خدمت کے لیے مخصوص کردیا جائے تو یقینا اس کی وجہ سے معلّمات کی ضرورت بڑھ جائے گی اور وہ ذہنی دباؤ اور تناؤ سے فارغ ہوکر تدریس کی خدمت انجام دے سکیں گی۔ اسی طرح اگر خواتین کے لیے علاحدہ اسپتال قائم ہوں، تو خاتون ڈاکٹروں، نرسوں اور عملہ کی ضرورت میں خاصا اضافہ ہوجائے گا۔ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے۔ اس لیے سچائی یہ ہے کہ پردہ کا حکم اور اختلاط کی ممانعت کی وجہ سے عورتوں کے لیے کسبِ معاش کے مواقع بڑھیں گے نہ کہ گھٹیں گے۔
——