گزشتہ تحریر میں یہ بتایا گیا تھا کہ سماج کیسے بنتا ہے اور اس کی تعمیر نو کیوں ضروری ہوگئی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہم جس سماج کی تعمیر کا خواب رکھتے ہیں وہ انسان اور انسانیت کی فلاح کے نظریے پر قائم ہوگا، وہ امن و سکون کا گہوارہ ہوگا اور متوازن و ترقی یافتہ سماج ہوگا۔ اس سماج کی تعمیر میں خواتین کے لیے تین محاذ تجویز کیے گئے تھے۔ گھر کامحاذ، سماج اور سیاست و معیشت۔ اس مضمون میں گھر کے محاذ پر کیے جانے والے عملی کاموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
گھر خواتین کا سب سے اہم اور بنیادی محاذ ہے۔ یہ ایسا محاذ ہے کہ اگر اس پر توجہ نہ دی جائے تو ہماری تمام تر دعوتی اور اصلاحی جدوجہد نتیجہ خیز اور کارآمد ثابت نہ ہوسکے گی۔ اس محاذ پر کام کرنا جتنا اہم اور ضروری ہے اسی قدردشوار او ر مشکل بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت کے میدان میں کام کرنے والے اچھے اچھے افراد یا تو اس پر توجہ نہیں دیتے یا ناکام رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جن کے درمیان رہتے ہیں یا جو ہماری زیرِ نگرانی وکفالت ہیں ان کی اصلاح و تربیت دوسروں کے مقابلے زیادہ ضروری اور زیادہ اہم فریضہ ہے۔ لیکن اس اہم اور ضروری فریضہ کی ادائیگی مضبوط کردار اور بلند اخلاق کی بھی طالب ہوتی ہے اور اس بلند کرداری کو پہنچنا کارِ دعوت کا سب سے اہم مطالبہ ہے۔ یہ محاذ ہم سے قول و عمل کی یک رنگی کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ گھر سے باہر تقریریں کرنا لوگوں کو سمجھانا بجھانا آسان کام ہے کیونکہ وہاں لوگوں کی نظر میں ہمارا داخلی اخلاق و کردار نہیں ہوتا۔ ایک ایسی خاتون جو بچوں کے ساتھ مار پیٹ کرتی ہو۔ شوہر سے جھگڑا کرتی ہو وہ اپنے گھر میں کیسے مؤثر ہوسکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب ایک عورت گھر میں شفیق ماں ہو، اچھی بیوی ہو اور گھر کی ایسی فرد ہو جو سب کے دل میں جگہ رکھتی ہو۔
گھر کا محاذ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں طاقت و قوت کے چشمے ابلتے ہیں۔ ایک مرد یا عورت اگر اپنی بیوی یا شوہر کو اپنا ہم نوا بناکر میدان عمل میں اترے تو اس کی طاقت وصلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اور اگر اس میں بیٹے بیٹیاں اور بہوئیں بھی شامل ہوجائیں تو یہ تنہا گھر اپنے آپ میں ایک تحریک بن جاتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو داعی ہمیشہ ایک فرد ہی رہے گا، تنہا فرد۔ پھر ہم جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس کے اثرات سب سے پہلے لوگ ہماری اپنی زندگی اور اپنے گھر میں دیکھنا چاہیں گے اور اگرانہیں ہمارا گھر ہماری عملی تعلیمات کا نمونہ نظر نہ آئے تو ہماری باتیں اور دعوے بے اثر ہوجائیں گے۔
اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت اور حیاتِ پاک سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ آپؐ نے سب سے پہلے اپنی بیوی خدیجہ کو اپناہم خیال بنایا۔ اپنے چچا زاد بھائی علیؓ کو اپنا ہم نوا بنایا اور اسی طرح اپنے سب سے قریبی دوست ابوبکرؓ کو اپنی تحریک میں شامل کیا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اللہ کا حکم تھا کہ ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے خاندان والوں کی دعوت کی اور ان کے سامنے اللہ کاپیغام رکھا۔ آپ کی زندگی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہمیشہ حسن اخلاق کا رویہ اختیار کیا اور کسی رشتہ دار یا اہل خانہ کو آپ سے نہ صرف یہ کہ شکوہ شکایت نہیں رہی بلکہ وہ آپ کے مشن کے ساتھی رہے۔
اہلِ خانہ پر دعوت کا کام کرنا اور ان کو اس مشن میں شامل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے واضح طور پر فرمادیا کہ ’’تم میں سے ہر شخص راعی (ذمہ دار) ہے اور اس سے اس کی (رعیت) زیرِ کفالت رہنے والوں کے سلسلہ میں قیامت کے دن سوال ہوگا۔‘‘
ہمارے ذہن صاف ہونے چاہئیں کہ ہم یہ تمام جدوجہد اللہ کی رضا کے لیے، اپنے اہلِ خانہ کی بھلائی کے لیے اور اپنی دینی ذمہ داریوں کی بحسن و خوبی ادائیگی کے لیے کررہے ہیں۔ اگر ہمارا یہ تصور ہوگا تو اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکت دے گا اور نتیجہ خیز بنائے گا۔
گھر کے محاذ پر ہماری وہ خواتین جو دعوتی جدوجہد میں مصروف ہیں، اگر ڈٹ کر کام کریں تو یہ سماج میں تبدیلی کی بنیاد ثابت ہوگا۔ اس کے لیے درج ذیل امور پر توجہ دی جانی چاہیے۔
٭ ایک اچھے گھر کے لیے ضروری ہے کہ وہاں لوگوں کے باہمی تعلقات خوشگوار اور محبت و ایثار پر مبنی ہوں۔ اسی طرح اس گھر میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کی روش اپنائی جاتی ہو۔ یہ عین رسول کی تعلیم ہے۔ اگر کسی گھر میں یہ روش جاری ہو تو وہ ایک مضبوط اور مثالی خاندان بنتا ہے۔ اور ایسے ماحول میں جہاں رشتے ناطے تناؤ اور باہمی نفرت کا شکار ہوکر بکھر رہے ہیں یہ گھر روشنی کا مینار بن جائیں گے۔
٭ ہم اپنے گھروں میں دینی علم اور صالح تربیت پر توجہ دیں۔ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کے لیے دینی کتابوں کے مطالعے اور دینی موضوعات پر بحث و گفتگو کا ماحول پیدا کیا جائے۔ قرآن و حدیث پر مبنی لٹریچر کا اپنے گھر میں انتظام کیا جائے اور گھر کے افراد مل بیٹھ کر اسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح ہفتہ میں کم از کم ایک بار گھر میں اجتماع ضرور رکھا جائے جس میں دینی موضوعات پر گفتگو ہو۔
٭ بچوں کے لیے جہاں اچھے اور معیاری اسکولوں میں تعلیم کا انتظام ہو وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی بھر پور توجہ دی جائے۔ نماز کی پابندی، تلاوتِ قرآن، کھیل کود کا مناسب انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ایسی قصے کہانیوں اور دلچسپ معلومات کی کتابیں ضرور ہونی چاہئیں جو ان کے ذہن و فکر کو بلند اخلاق اور خوفِ خدا سے وابستہ کرنے والی ہوں۔ ساتھ ہی ان کے اندر اسلام کا انقلابی تصور اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے بھی آمادہ کرنے والی ہوں۔
٭ موجودہ زمانے میں تعلیم و ترقی وہ بنیادی خوبی ہے جو ہر داعی کے لیے ضروری ہے۔ ہماری خواتین جو دعوت کے میدان میں سرگرم رول ادا کررہی ہیںیا کرنا چاہتی ہیں وہ اس اہم پہلو کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ گھر کے محاذ پر یہ ان کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہرِ فن اور اپنے اپنے میدان کا شہسوار بنانے کی کوشش کریں۔ اور اس کے لیے جہاں ان کے ذہن کو بلندیٔ پرواز دینے کی ضرورت ہے وہیں اس بات کو بھی ضرورت ہے کہ آپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے ان کے ساتھ مناسب وقت گزاریں۔
٭ رشتہ داروں کو ہم خیال اور ہم فکر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک بار قریبی اور دور کے رشتہ داروں کو اکٹھا کرنے کا انتظام کیا جائے۔ انہیں چائے پر یا کھانے پر دعوت دی جائے اور جہاں دوسرے موضوعات زیرِ بحث آئیں وہیں دین، دعوت اور اسلام کی تعلیمات پر بھی گفتگو ہو اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی بھی تلقین کی جائے۔ اس طرح آپ کا حلقہ اثر بڑھتا جائے گا اور تحریک اہلِ خاندان اور رشتہ داروں میں مضبوط ہوتی جائے گی۔
٭اسلام کا مزاج رشتوں کو جوڑنا پسند کرتا ہے۔ ہمیں رشتوں کو جوڑنے اور انہیں مضبوط بنانے کی مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے شکوے شکایات اور تنازعات کویا تو پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے اور اگر پیدا ہوجائیں تو فوراً صلح صفائی کا انتظام کرنا چاہیے۔
٭ ہمیں اپنے گھر میں ایسے تمام راستے بند کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ضروری ہے جہاں سے برے افکار، روایات اور خیالات آسکتے ہوں۔ اسی طرح حلال روزی پر اکتفا اور جائز راستوں سے دولت کمانے کی فکر کو اہلِ خانہ میں نہ صرف عام کرنے کی فکر کرنی چاہیے بلکہ اس پر گہری نظر بھی رکھنی چاہیے۔
٭اپنی روایات ، تقریبات اور طرزِ زندگی کو مثالی اور اسلامی بنانے پر توجہ دینی چاہیے اسی طرح رشتے ناطوں کے انتخاب میں جہاں دیگر چیزیں ترجیح میں شامل ہوں وہیں دین کو بھی اہم ترجیح بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہمارے خیال میں یہ وہ نکات ہیں جن پر ہماری خواتین کو ڈٹ کر کام کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی جھجھک، بدنامی یا سماج و معاشرے کی تنقید کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی گھریلو زندگی میں ان نکات پر عمل آوری شروع کردی تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم ایک اچھی سوسائٹی اور اچھا خاندان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔