۳۲ سالہ سعیدہ ہنسلی کی ہڈی کے قریب درد کی شکایت کرنے لگی۔ اسے سانس لینے میں تنگی بھی محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر نے کھانسی کا عارضہ بتایا۔ تکلیف نے جانے کا نام ہی نہ لیا توڈاکٹر نے پریشانی اور الجھن کو اس کا سبب قرار دیا۔ تین ہفتے بعد سڑک پار کرتے وقت خاتون کو ٹھنڈا پسینہ آیااور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ سانس بھی قدرے اکھڑ ااکھڑا محسوس ہوا۔ بالائی پشت میں شدت کا درد ہورہا تھا۔ سعیدہ سیدھی قریبی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ جا پہنچی۔ ای سی جی لیا گیا تو دل کی دھڑکن تیز ہونے کی تشخیص ہوئی لیکن ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی وجہ فکر اور پریشانی ہوسکتی ہے۔
اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ اس کے بائیں بازو میں نیچے کی طرف اور کندھوں کے درمیان شدید درد ہے اور متلی ہورہی ہے۔ اس کا وزن زیادہ اور ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ بھی تھا۔ اس کے والد کو چوالیس برس کی عمر میں دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اس کے باوجود ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’میرے خیال میں آپ کو دل کا عارضہ نہیں۔ آپ عورت ہیں اور صرف بتیس برس کی۔‘‘
اس واقعے کے چند روز بعدہ سعیدہ کو سینے میں شدید درد اٹھا۔ خاوند بڑا گھبرایا اور اسپتال لے آیا۔ ڈاکٹروں نے اسے آئی سی یو میں داخل کرلیا اور فوراً آکسیجن لگا دی گئی۔ مخصوص آلے سے اس کے دل کی دھڑکن تو بحال ہوگئی مگر اس دوران دل کو سخت نقصان پہنچ چکا تھا۔ چند روز کے علاج سے افاقہ ہوگیا۔ گھر آکر اس نے اپنا وزن ۱۲۰ پونڈ تک کم کرلیا۔ وہ باقاعدگی سے ورزش کرتی ہے اور اس کا بلڈ پریشر نسبتاً کم ہوگیا ہے۔
خواتین کے لیے وارننگ
ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی دل کے امراض تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں جن میں اکثر مرد اور بڑی تعداد میں عورتیں بھی مبتلا ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں دل کا مرض مردوں اور عورتوں میں قاتل نمبر ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دل کے دورے کا شکار ہونے والی ایک تہائی عورتوں کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوپاتی کیونکہ مرض کی علامات کسی اور عارضہ سے منسوب کردی جاتی ہیں۔
اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دل کے دورے مردوں ہی کو پڑاکرتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو دل کے دورے مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں پڑتے ہیں، البتہ عورتیں اسے جلد محسوس نہیں کرتیں کیونکہ ان میں اس کے اثرات دیر سے (تقریباً دس برس بعد) رونما ہوتے ہیں اور جب عورتیں دل کے دورے کا شکار ہوتی ہیں تو ان کے ابتدائی چند ہفتوں کے اندر موت واقع ہوجانے کا دگنا امکان ہوتا ہے۔ ہارٹ اٹیک کے بعد ۳۹ فیصد عورتیں ایک سال کے اندر اندر چل بستی ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح اس سے آٹھ فیصد کم ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اکثر ڈاکٹر عورتوں کے سینے میں درد کو نفسیاتی قرار دیتے ہیں اور ان کی ای سی جی لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اور اگر لیبارٹیری ٹیسٹ سے تشخیص ہو بھی جائے تو وہ ان کے اضافی ٹیسٹ نہیں لیتے اور ان کا علاج اس طرح جاری نہیں رکھا جاتا جس طرح مردوں کا، خواہ مرض کی علامات شدید تر کیوں نہ ہوں۔
ہمارے یہاں مردوں میں امراضِ قلب سے متعلق عام طور پر خواتین میں خاص طور پر خاطر خواہ معلومات نہیں پائی جاتیں۔ ایک ساٹھ سالہ خاتون پارک میں سیر کررہی تھیں کہ سینے میں شدید درد اٹھا۔ وہ آرام کے لیے بینچ پر بیٹھ گئیں۔ قدرے افاقہ ہونے پر گھر چلی آئیں اور آئندہ اڑتالیں گھنٹے تک درد کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تیسرے دن سینے اور بالائی پیٹ میں درد نے خوفناک صورت اختیار کرلی تو بیٹا ماں کو گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے آیا۔ فوری معائنے سے معلوم ہوا کہ خاتون کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے۔ آپریشن ٹیبل پر مرض انتہا کو پہنچ گیا اور وہ آناً فاناً انتقال کرگئیں۔ اگر وہ پہلے خیال کرلیتیں تو یہ نوبت شاید نہ آتی۔ ڈاکٹر شریانیں کھولنے والی نائٹرو گلیسرین اور بیٹا بلوکر (Beta Blocker) ادویات کھلا کر دل کو مزید نقصان پہنچنے سے بچاسکتے تھے۔
اہم اشارے
کوئی خاتون معمول سے ہٹ کر سینے میں تکلیف محسوس کرے، سانس لینے میں دقت ہو، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہو، ٹانگیں پھولتی ہوں تو اسے فوراً اپنے معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ وہی چیک اپ کے بعد بتاسکے گا کہ یہ علامت کس نوعیت کی ہے اور آپ خطرے سے محفوظ ہیں یا نہیں۔
امریکہ میں ڈاکٹر شمٹ اور ڈاکٹر بورش نے ایک حالیہ مطالعے سے معلوم کیا کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں شریانیں کھولنے والی ادویات کے مؤثر استعمال سے بہت کم آگاہ ہیں۔ علامات مرض کے آغاز سے اسپتال پہنچنے تک کا اوسط وقفہ جہاں مردوں میں ایک گھنٹے کا تھا، وہاں عورتوں میں یہ چار گھنٹوں پر محیط پایا گیا اگرچہ دورہ دل سے ساٹھ فیصد اموات پہلے ایک گھنٹے میں واقع ہوتی ہیں۔
تشخیص مرض کی طرح مردوں اور عورتوں کا علاج بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ مرد سینے کا درد کم کرنے کے لیے اکثر بائی پاس آپریشن کرالیتے ہیں جو بڑا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے مگر عورتوں کے لیے دوگنا زیادہ خطرناک ٹھہرتا ہے۔ ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا کہ بائی پاس سرجری سے ۳ء۷ فیصد عورتیں انتقال کرگئیں حالانکہ مردوں میں یہ تناسب ۲ء۳ فیصد رہا۔ ماہرین کے نزدیک اس تفاوت کی دو وجوہ ہیں۔ اول عورتیں بائی پاس آپریشن کی بات سن کر زیادہ ’’بیمار‘‘ ہوجاتی ہیں۔ دوم ان کی تنگ تر شریانیں جراحی کو زیادہ مشکل بنادیتی ہیں۔
احتیاطی تدابیر
عورتوں میں دل کا دورہ پڑنے کے بیشتر اسباب وہی ہیں جو مردوں میں ہوتے ہیں مثلاً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، کولیسٹرول کی زیادتی،تمباکو نوشی اور خاندان میں عارضہ قلب کی موجودگی۔ عورتوں کا موٹاپا اس مرض کا ایک بڑا سبب ہے اور عورتو ںکے ایک تہائی امراض دل اسی سے جنم لیتے ہیں۔ مناسب و متوازن غذا اور ہلکی ورزش سے موٹاپے کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم آدھ گھنٹہ روزانہ پیدل چلا جائے۔
دماغی بوجھ اور الجھنوں میں گھرے رہنا بھی خطرناک بات ہے۔ عورتیں، مردوں کی نسبت زیادہ دیر تک اعصابی تناؤ کا شکار رہتی ہیں اور اس سے دل کے دورے کا خطرہ جنم لیتا ہے۔
دورہ دل کے سلسلے میں سب سے بڑا خطرہ تمباکو نوشی ہے۔ نوجوانوں اور درمیانہ عمر کی امریکی خواتین میں دل کے دورے سے پچاس فیصد اموات تمباکو نوشی کا نتیجہ ہوتی ہیں، جبکہ ایشیائی خواتین میں بھی یہ تناسب کچھ کم نہیں۔ ڈاکٹر رابٹ گرین کہتے ہیں کہ انھوں نے ساٹھ سال سے نیچے جتنی بھی عورتوں کے لیے بائی پاس آپریشن تجویز کیا، ان میں سے تقریباً ہر ایک تمباکو نوش تھی۔
مردوں اور عورتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کی صحت ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ’’آپ ایک ہی دل لے کر پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ امراض دل کے ایک مشہور معالج کہتے ہیں۔ ’’آپ اسے مضبوط اور اچھی طرح برسرعمل رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کریں، کم ہے۔‘‘