اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کے لیے تعلیم کے حصول میں کوئی رکاوٹ تھی اور نہ ہی کوئی جنسی تفریق۔ حالات بد لے اور تعلیمی دائرہ بھی وسیع ہوگیا۔ کل جسے صنعت و حرفت کہتے تھے آج وہ بھی تعلیم کے دائرے میں ہے۔ سماجی خدمت بھی تعلیم کا حصہ ہے۔ زبان و قلم کا استعمال سیکھنا بھی تعلیم ہے۔ اس لیے خواتین کے متاثر ہونے اور متاثر کرنے کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا ہے۔ آج کل خواتین ہر اس کورس میں داخلہ پانا چاہتی ہیں جس میں ان کے لیے مادی خوشحالی کی گارنٹی مل جائے۔ ہر شخص مادی ترقی کی تیز رفتار لفٹ کی تلاش میں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کال سینٹر، ایئر ہوسٹس، ایکٹنگ، ماڈلنگ، پبلک ریلیشن اور سکریٹریٹ میں لڑکیوں کی بھیڑ ہے۔
لیکن کسی ملک اور کسی ملت کی ہمہ جہت ترقی اور تعمیر نو کے لیے کیا صرف یہی میدان کام کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا پیشوں میں طالبات جتنا حاصل کررہی ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ اپنا اخلاقی سرمایہ کھورہی ہیں۔ جنسی استحصال کی اکثر شکایات انہیں میدانوں میں ملیں گی۔ اب ایک مسلم لڑکوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اسے کس میدان میں جانا چاہیے۔ کیوں کہ ایک مسلم لڑکی کے سامنے مادی خوشحالی پہلی ترجیح کبھی نہیں بن سکتی۔ اگر کبھی ترجیح بن بھی جائے تو اس کا حصول اپنے تہذیبی اصولوں کی بھینٹ چڑھا کر تو یانہیں کرے گی۔ لہٰذا کیوں نہ مسلم طالبات ایسے میدان ہائے تعلیم کی طرف رجوع کریں جن کے ذریعہ وہ سب سے پہلے معاشرے کی تعمیر میں اپنا بیش قیمت تعاون دے سکیں۔ مادی وسائل کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جائیں جو ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ ہوں۔ آئیے ہم چند ایسے کورسیز پر گفتگو کرتے ہیں جو مسلم طالبات کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
بارہویں مکمل کرنے کے بعد آپ کے سامنے دو بڑے اسٹریم ہوتے ہیں۔ سائنس یا آرٹس جن طالبات نے سائنس سے بارہویں کیا ہو اور ان کی دلچسپی ہنوز اسی میں ہو تو وہ حسب ذیل کورسیز کا انتخاب کرسکتی ہیں۔
میڈیکل سائنس
خواتین امراض کے لیے مردوں کے پاس جانے کی مجبوری ہر ہندوستانی خاندان کی بدقسمتی بن گئی ہے۔ پھر مسلم خواتین کے لیے اللہ تعالیٰ نے حجاب کا اہتمام کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن پورے ملک میں مسلم خواتین ڈاکٹرس کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس لیے میدانِ طب میں جانا ایک ملکی، ملی اور دینی ضرورت بھی ہے۔ اس کے لیے ایم بی بی ایس، بی یو ایم ایس، بی اے ایم ایس، بی ایس سی نرسنگ، بی ڈی ایس اور دوسرے کورسیز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو ریاستی یا ملکی سطح کا ٹیسٹ کوالی فائی کرنا ہوگا۔
آرٹ کورسیز
آرٹ کورسیز میں سوشل سائنسز، غیر ملکی اور ملکی زبان، اور پروفیشنل کورسیز میں صحافت و ماس کمیونی کیشن اور مینجمنٹ کے کورسیز ہوتے ہیں۔ عالمی اور ملکی منظر نامہ سے آپ کو پتہ چلے گا کہ آج کے اس سائنسی دور میں بھی سوشل سائنسز کو برتری حاصل ہے۔ سماجیات پہلے صرف ایک موضوع تھا اب سماجیات کے الگ الگ کورسیز ہوگئے ہیں۔ پولیٹکل سائنس کا میدان ملکی یا بین الاقوامی سیاست کو نظری طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس میں ویمن اسٹڈیز، دلت اسٹڈیز جیسے بہت سے کورسیز ہیں جن میں آگے بڑھ کر سیاسی یا سماجی افکار پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ پالیسی ساز ذہن، متبادل نظریہ پیش کرنے والے افراد، جزئی امور کے بجائے اصولی تنقید کرنے والی صلاحیتیں آج تحریک اسلامی کی ضرورت ہیں۔ ہماری خواتین کے لیے سوشل سائنسز سب سے بہترین پسند ہوسکتا ہے۔ سماجیات سے بی اے کرنے کے بعد وہ ویمن اسٹڈیز، ہیومن رائٹس ویمن، رائٹس اور سوشل ورک وغیرہ میں اختصاص کرسکتی ہیں۔
صحافت
صحافت کا میدان اپنی آواز سماج کے ہر طبقے تک پہنچانے کے لیے مضبوط ذریعہ ہے۔ اب جب صحافت بھی مضبوط ہوگئی ہے تو ہماری خواتین کو اس کی طرف بھی رخ کرنا چاہے۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کے کورسیز کرسکتی ہیں۔لیکن اگر انکا رخ آن لائین جرنلزم کی طرف ہو تو باحجاب خواتین کے لیے اس سے بہتر اور مؤثر ذریعہ کوئی اور نہیں ہوگا۔ گھر بیٹھے اخبارات رسائل کو رپورٹس، مضامین، کہانی گھر گھر کی، تلسی جیسے سیریلس دیکھنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے سب جانتے ہیں۔ کہانیوں اور ناولوں نے سماجی اقدار پر کیا کیا غضب نہیں ڈھائے ہیں، بلکہ سوچ کا دھارا ہی بدل دیا ہے۔ چند اسلامی ادیبوں کو چھوڑ دیں تو پورا میدان اسلامی ادب کے لیے ترس رہا ہے۔ چند اسلامی ادیبوں کو غزلوں ا ور نعت گوئی سے فرصت نہیں ہے۔ کیا یہ چیلنج نہیں ہے۔ آخر اروندھتی رائے، انیتا دیسائی سماجی مسائل پر ناویلیں لکھیں اور اسلامی فکر کی حامل خواتین خاموش رہیں۔ یہ اسلامی فریضہ ہے کہ اس فن میں بھی ہم داخل ہوں۔ اسلامی ادب لطیف ٹی وی اسکرپٹ، کہانیاں، افسانے، صحت مند سیریلس تیار کیے جاسکتے ہیں۔
اسلامیات
آج کل اسلامیات بھی یونیورسٹیوں میں ایک ایسا کورس بن گیا ہے جو موجودہ اسلامی ایشوز، پر غوروفکر کے لیے نئے رخ دیتا ہے۔ چونکہ اس کی ساخت مدارس کے اسلامیات کے نظام سے مختلف ہے اس لیے اس کو عالم دین، بنانے والا کورس نہ سمجھ لیا جائے۔ اور مغرب کے درمیان مذاکرات، خارجہ مسائل اور اسلام، تہذیبی کشمکش جیسے اہم ایشوز اسی موضوع میں آتے ہیں اس کے ساتھ تقابل ادیان کا کور س بھی مفید ہے۔
ایجوکیشن
عموماً بی ایڈ اور ایم ایڈ اور ڈی ایڈ کورسیز تعلیمی خدمات کے کورسیز ہیں، بدلتے دور میں طریقہ تعلیم ہی نہیں بلکہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم بھی بدل رہا ہے۔ کیمپس کلچر سے لے کر طریقہ تدریس تک بدل رہا ہے۔ یہ ساری چیزیں ایجوکیشن میں زیرِ بحث آتی ہیں۔ خواتین کے لیے یہ دلچسپی کا موضوع ہوسکتا ہے بلکہ موجودہ وقت میں متعدد ماہرین تعلیم خواتین ہی ہیں۔
طریقہ تعلیم
ہندوستانی معاشرے کا بدلتا ہوا مزاج اور جرائم کا بڑھتا گراف ہزاروں والدین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اپنی بچیوں کو ایک ایسے سماج کے حوالے کرنا اور اس میں انہیں آنے جا نے کی آزادی دینا ان کی پدرانہ احتیاط کے خلاف ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، رہنا اسی میں ہے اور پڑھنا بھی اسی میں ہے۔ اس لیے طالبات کے لیے اداروں کا انتخاب ایک مشکل معاملہ ہے۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اپنے قریب ترین گرلس کالج میں داخلہ لیا جائے۔ اس کے بعد اگر ممکن نہیں ہے تو دوسرے اداروں کا رخ کریں۔ لیکن ایک بات والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچی کی تعلیم اس بہانے پر روکی نہیں جاسکتی کہ ماحول خراب ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ طالبات کو طلبہ کے مقابلے میں اضافی توجہ کی ضرورت ہے۔ ان کو کالج لانے لے جانے کا اہتمام کریں۔ بہتر تو یہ ہے کہ خو دجائیں اور خودلائیں۔ ایسی مائیں ہیں جو پی ایچ ڈی کرنے والی اپنی بیٹیوں کو لے کر نگراں کے پاس جاتی ہیں اور واپس آتی ہیں۔ اس اضافی توجہ سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے اور اس کاالزام باقی دوسرے اسباب کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔
اوپن اور مراسلتی تعلیم
اب آسانی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں متعدد ایسی یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں جن میں کیمپس میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نصاب گھر میں آئے گا اور صرف امتحان دینے کے لیے سینٹر پر جانا ہوگا۔ اور یہ سبھی یونیورسٹیاں نہ صرف تسلیم شدہ ہیں بلکہ معیاری بھی ہیں۔ چند یونیورسٹیاں مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد اردو یونیورسٹی کو چھوڑ کر باقی اداروں کا انتظام و انصرام قابلِ اطمینان کہا جاسکتا ہے۔
چند اہم یونیورسٹیز
٭ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، نئی دہلیwww.igno.ac.in
٭ بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی، حیدرآباد۔
٭نالندا اوپن یونیورسٹی، پٹنہ
٭ یشونت راؤ چوان یونیورسٹی، www.ycmou.com
٭کرناٹک اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی، میسور
٭ نیتاجی سبھاش اوپن یونیورسٹی، کولکاتا
٭اترپردیش راج شری ٹنڈن اوپن یونیورسٹی، الہ آباد
٭ دہلی اوپن یونیورسٹی، دہلی
٭ ابوالکلام آزاد اوپن یونیورسٹی، حیدرآباد
ان سبھی اداروں کے کورسیز، تاریخ، پتہ، کی تفصیلات، حکومتی ادارے، یوجی سی کی ویب سائٹ www.ugc.ac.inپر مل جائے گی۔ یا وزاراتِ انسانی وسائل کی ویب سائٹ education.nic.in/ dist_instaspپر مل جائے گی۔
اہم ادارے – اور تاریخیں
اپریل میں سبھی یونیورسٹیوں کے فارمس آجاتے ہیں اور آخری تاریخیں بھی اسی مہینے میں ختم ہوتی ہیں۔ سب سے بہتر ہوگا کہ آپ مضمون پڑھنے کے فوراً بعد اپنے کیریر پلاننگ کے لیے تیاری شروع کردیں۔
حجاب ایجوکیشن سیل
طالبات کے لیے ادارہ حجاب نے مراسلتی اور ای میل کے ذریعہ تعلیمی رہنمائی دینے کا انتظام کیا ہے۔ جو طالبات کورسیز کی معلومات یا تعلیم سے جڑے دوسرے سوالات کرنا چاہتی ہیں وہ ہمیں ضروری لکھیں۔ جلد از جلد جواب دیا جائے گا۔ خط میں اپنا نام، والد کا نام اور پورا پتہ اور والد یا سرپرست کا موبائل نمبر/ فون ضرور دیں۔
editor.hijab@gmail.com