سوزی مظہر
توبہ کرنے والے اور توبہ کرنے والیوں کے قافلے برابر گزر رہے ہیں، جنھیں اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی، نہ ہی کسی کا پیچھے ہٹ جانا، اور نہ ہی کسی کا بھونکنا، کیونکہ وہ بزبانِ حال کہہ رہے ہوتے ہیں:
’’جب کتے کے بھونکنے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہو تو تم اس کو قیامت تک بھونکتا ہوا چھوڑ دو۔‘‘
قافلہ ایمان میں شامل ہونے والوں میں فنکارہ سوزی مظہر کا نام بڑا اہم ہے۔ انہیں اس وقت دعوت الی اللہ کے میدان میں کام کرتے ہوئے بیس سال سے زائد ہوگئے ہیں، ان کا نام تائبات فنکاروں میں نمایا ںہے۔ اور انھیں ان کے درمیان ایک اہم مقام حاصل ہے۔ وہ اپنے توبہ کے واقعے کو اس طرح بیان کرتی ہیں:
میں نے ماردی دیبیہ کے اسکول سے سند فضیلت حاصل کی۔ پھر شعبہ صحافت میں ڈگری لی۔ میں اپنی دادی جو فنکار احمد مظہر (میرے چچا) کی والدہ تھیں، کے ساتھ زندگی بسر کررہی تھی، میں اپنے محلے ’’المزمالک‘‘ کی راہوں میں گھومتی رہتی تھی اور کلبوں میں تفریح کرتی تھی۔ گویا کہ میں آزادی و تمدن کے نام پر بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا حسن و جمال حیوانی آنکھوں کے آگے پیش کرتی تھی۔
میری بوڑھی دادی کو میرے اوپر کوئی اختیار نہیں تھا حتی کہ میرے والدین کو بھی۔ بڑے لوگوں کی اولاد اسی طرح جانوروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بدتر زندگی بسر کررہی تھیں، سوائے ان کے جن پر اللہ رب العزت نے اپنا کرم فرمایا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میں اسلام سے بالکل ناواقف تھی۔ سوائے اس کی الف ب کے، لیکن مال و دولت کی فراوانی کے باوجود میں کسی چیز سے خوفزدہ تھی، اور میں سوچتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس گناہ کے بدلے جس کی میں مرتکب ہورہی ہوں، ضرور ہلاک کرے گا۔ اور جب میری دادی بیماری کے وقت نماز پڑھتیں تو میں اپنے دل میں کہتی کہ میں کل عذاب الٰہی سے کیسے بچ سکوں گی۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں گہری نیند یا کلب جاکر اس ملامت نفس سے دور بھاگنے کی کوشش کرتی۔
جب میری شادی ہوئی تو ہم اپنا ہنی مون منانے کے لیے فرانس گئے۔اور جس چیز نے میری آنکھوں کی پٹی کھول دی وہ ایک واقعہ تھا۔ جب میں ویٹکن سٹی گئی اور وہاں میں نے ایک میوزیم میں داخل ہونا چاہا، تو وہاں لوگوں نے مجھ سے ایک مخصوص سیاہ کپڑا پہننے پر اصرار کیا۔ اپنے تحریف شدہ مذہب کا وہ اس طرح احترام کررہے تھے۔ اس وقت میں نے آہستہ سے خود سے کہا: ’’اور ہمارا حال کیا ہے؟ کہ ہم اپنے دین کا احترام نہیں کرتے۔‘‘
ایک مرتبہ میں نے اپنی بے حقیقت دنیوی کامیابی کی خوشی پر اپنے شوہر سے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی نعمت پر شکرانے کی نماز پڑھنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے جواب دیا: ’’جو چاہو کرو! یہ شخصی آزادی کا سوال ہے۔‘‘ اس وقت میں نے ایک لمبا لبادہ حجاب اور سر کے لیے ایک اسکارف لیا۔ اور پیرس کی بڑی مسجد میں داخل ہوئی۔ واپسی میں مسجد کے دروازے پر میں نے اسکارف ہٹا دیا اور لبادہ بھی اتار دیا اور میں اس کو بیگ میں رکھنا چاہتی ہی تھی کہ تبھی اچانک ایک نیلی آنکھوں والی فرانسیسی عورت میرے قریب آگئی، جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی، اس نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس نے نرمی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میرے کندھے پر آہستہ سے تھپکی دی اور دھیمی آواز میں کہا: ’’آپ حجاب کیوں اتار رہی ہیں؟کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔‘‘
میں محویت کے عالم میں اس کی باتیں سنتی رہی۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں چند منٹ کے لیے اس کے ساتھ مسجد میں چلوں۔ میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس سے پیچھا چھڑالوں۔ لیکن اس کے با ادب رویے اور گفتگو کے نرم انداز نے مجھے اندر جانے پر مجبور کردیا۔
اس نے مجھ سے پوچھا: ’’کیا آپ کلمۂ شہادت کی گواہی دیتی ہیں؟ اور کیا آپ اس کا مفہوم و مطلب سمجھتی ہیں؟ یہ محض صرف چند کلمے نہیں ہیں، جو زبان سے ادا ہوتے ہیں، بلکہ اس کے لیے دل سے تصدیق اور عمل بھی لازمی ہے۔‘‘
اس نوجوان لڑکی نے مجھے زندگی کا سخت ترین سبق پڑھایا، جس سے میرا دل کانپ اٹھا، اور میرے حواس جاتے رہے۔ پھر اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا:’’میری بہن! اس دین کی مدد کرو!‘‘
میں مسجد سے نکلی اس حالت میں کہ میں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مجھے اپنے ارد گرد کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ پھر اتفاقاً اسی روز شام کو میرے شوہر مجھے اپنے ساتھ نائٹ کلب لے گئے۔ نائٹ کلب، جہاں مرد و عورتیں نیم عریاں رقص کرتے ہیں اور جانوروں جیسی حرکتیں کرتے ہیں، بلکہ جانور بھی ایسا کرتے ہوئے شرماتے ہوں گے۔
مجھے ان سے نفرت ہوگئی۔ میں نے ان کی طرف نہیں دیکھا اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر غور بھی نہیں کیا۔ میں نے اپنے شوہر سے درخواست کی کہ یہاں سے فوراً نکل چلیں، تاکہ میں سانس لے سکوں… پھر میںقاہرے واپس آئی اور اسلام کو جاننے کے لیے اپنے قدم بڑھانے شروع کردیے۔
اپنی سابق زندگی میں دنیاوی آرام و آسائش کے باوجود مجھے کبھی طمانیت وسکون کا احساس نہیں ہوا تھا۔ اس کے برعکس میں اس سکون اور طمانیت سے اسی قدر قریب ہوتی گئی، جب میں نماز پڑھنے لگی اور قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کرنے لگی۔
میں نے اپنے گرد سے جاہلی زندگی کے حصار کو بالکل الگ کردیا اور شب و روز قرآن مجید پڑھنے میں لگ گئی۔ میں ابن کثیر اور سید قطب شہید وغیرہ کی کتابیں لاتی اور نہایت ذوق و شوق سے انھیں پڑھنے میں اپنا طویل وقت صرف کرتی۔ میں بہت زیادہ پڑھتی۔ میں نے کلبوں اور اپنی گمراہ کن راتوں کی زندگی کو یکسر ترک کردیا، اورمسلم بہنوں سے تعارف حاصل کرنا شروع کیا۔
ابتدا میں میرے شوہر نے میرے حجاب پر اور جاہلی زندگی ترک کرنے پر شدت سے اعتراض کیا اور یہ اللہ کی جانب سے میری آزمائش تھی، لیکن میرے قدم ایمان کی جانب بڑھ چکے تھے اور میں چاہتی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول ہر چیز کے ماسواء میرے نزدیک سب سے محبوب ہوجائیں… اور اس وقت چند ایسی مشکلات پیش آئیں جن کی وجہ سے قریب تھا کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان جدائی ہوجائے۔ لیکن خدا کا کرم ہے کہ اسلام نے ان کا وجودہمارے چھوٹے سے گھر پر باقی رکھا اور اللہ نے میرے شوہر کو بھی اسلام کی ہدایت دی۔ اور اس وقت وہ خیر میں مجھ سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اپنے دین کے ایک مخلص داعی ہوگئے ہیں۔ اور دنیاوی امراض و حوادث کے علی الرغم جن کا ہم نے سامنا کیا ہم بہت خوش ہیں۔
——