خواتین رزرویشن – امکانات اور چیلنجز

شمشاد حسین فلاحی

چودہ سال کی طویل مدتی مشقت کے بعد آخر کار سونیا گاندھی کی قیامت والے یوپی اے کے دور میں خواتین رزرویشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ عالمی یومِ خواتین کے اگلے ہی دن ۹؍مارچ کو راجیہ سبھا میں خواتین رزرویشن بل منظور ہوگیا۔ اس مرحلے کے بعد یہ بل لوک سبھا میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جو ایک اور دشوار گزار مرحلہ ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں اسے ملک کی کم از کم چودہ ریاستوں کی اسمبلیوں سے اپنے حق میں تائید حاصل کرنی ہوگی اور پھر صدرِ جمہوریہ کی میز سے منظوری مل جانے کے بعد خواتین کے لیے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ۳۳؍فیصد رزرویشن کا ’’خواب شرمندئہ تعبیر‘‘ ہوجائے گا۔

۲۳۳؍رکنی ایوان میں اس بل کی حمایت میں ۱۸۶؍ ووٹ پڑے اور مخالفت میں صرف ایک ووٹ آیا جبکہ مایاوتی کی قیادت والی بہوجن سماج پارٹی نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا اور کانگریس سرکار میں شریک ممتا بنرجی وزیر ریلوے کی پارٹی ترنمول کانگریس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو کی پارٹیاں اور ان کے ممبران نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔ اس پورے عمل میں راجیہ سبھا کے اندر ایسا زبردست ہنگامہ اور دھکا مکی دیکھی گئی جس کی نظیر سے پہلے کبھی نہیں ملتی یہاں تک کے ووٹنگ کے وقت ایوان کے اسپیکر نے سات ممبران کو کمانڈوز کے ذریعہ زبردستی ایوان سے باہر کرادیا۔ جن میں اکثریت سماجوادی پارٹی کے افراد کی تھی۔ سماجوادی پارٹی کے قائد ملائم سنگھ کے خیال میں ’’یہ بل مسلم اور دلت مخالف ہے اور اس کے پاس ہوجانے کی صورت میں اسمبلیوں میں ان کے منتخب ہوکر آنے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔‘‘ یا دو برادران اس مسئلے پر ایک رائے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ سرکار میں شریک رہنے والے وزیر ریلوے لالو پرساد یادو نے تو اپنا ’’سمرتھن‘‘ بھی واپس لینے تک بات پہنچادی۔

خواتین رزرویشن بل کو راجیہ سبھا میں منظور کرانے میں بائیں بازو کی پارٹیوں اور کٹر پنتھی ہندووادی بھارتیہ جنتا پارٹی پوری طرح کانگریس کے ساتھ رہیں۔ اور بل پاس ہوجانے کے بعد میڈیا میں برندا کرات اور ششما سوراج کو گلے ملتے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے دکھایاگیا۔ کانگریس نے اسے ’عوام سے کیے گئے وعدہ کی تکمیل‘ اور وزیرِ اعظم نے ’آزاد ہندوستان کی عظیم خواتین، سروجنی نائیڈو، اینی بیسنٹ اور وجئے لکشمی وغیرہ کو ایک ’چھوٹا سا خراجِ عقیدت‘ بتایا۔ اس پورے منظر نامے کو پیچھے سے کنٹرول کرنے والی شخصیت سونیا گاندھی کا خوش ہونا فطری اور یقینی امر ہے۔ انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں صاف طور پر اقرار کیا کہ ۸؍مارچ کی کارروائی کو ٹی وی پر دیکھ کر وہ کافی’نروس‘ تھیں مگر بل پاس ہوجانے کے بعد بہت خوش ہیں۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ ایسے میں لالو، ملائم بھی ساتھ ہوتے تو اچھا ہوتا۔

راجیہ سبھا میں یہ بل پاس ہوجانے کے بعد لوک سبھا میں بھی منظور ہوجانے کے امکانات پورے ہیں مگر اندیشوں سے بھی یکسر سرکار کو چھٹکارا نہیں ملا ہے۔ افرادی قوت کے آنکڑے بالکل فٹ ہیں اور ایسے فٹ ہیں کہ معمولی سی ’ادھر ادھر‘ بھی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اگرچہ سبھی پارٹیوں نے ’وہپ‘ جاری کردی ہے، مگر ایسے ممبران پارلیمنٹ بھی ہیں جنھیں اپنا مستقبل اس کے سبب تاریک نظر آرہاہے اور اندراندر کانگریس و بھارتیہ جنتا پارٹی میں ’کچھ پک رہا ہے۔‘ بی جے پی میں تو مخالف آوازیں باہر بھی سنی جارہی ہیں۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو بل دوسرے مرحلے میں ایک بار پھر پھنس سکتا ہے۔

عوامی ردِ عمل کے طور پر تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ بل خواتین کو وسیع پیمانے پر با اختیار بنانے اور حکومتی عمل میں ان کی بھر پور حصہ داری کو یقینی بنانے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ یہ فیصلہ کیونکہ سیاسی نوعیت کا ہے، یا دنیائے سیاست کا ہے، اس لیے ان چیزوں کو ابھی صرف دعویٰ اور امید ہی تصور کیا جائے گا۔ اور حقیقت اسی وقت معلوم ہوپائے گی، جب یہ عملی شکل میں اپنا کام کرے گا۔ اسی طرح اس وقت جو کیفیت ہے اس میں اس کی مخالف زبانیں یا تو سیاسی مصالح کے تحت بند کردی گئی ہیں یا وہ اتنی جرأت نہیں کرپارہی ہیں کہ اس پر مخالفت میں کچھ بول سکیں۔ شاید ان زبانوں کا سکوت اسی وقت ٹوٹے جب وہ اس قانون کی زد میں آکر سیاسی ناکامیوں کی کھائی میں گرنے لگیں۔ کیونکہ ۳۳؍فیصد رزرویشن کا مطلب ہے ۳۳؍فیصد مردوں کی ’سیاست کی دنیا سے رخصتی‘۔

خواتین رزرویشن بل اگر قانون کی شکل اختیار کرگیا، جس کا قوی امکان ہے، تو یہ ہندوستانی سماج کی خواتین کے لیے ایک طرف تو بڑی کامیابی ہوگا۔ اور ان کے لیے امکانات اور مواقع کے نئے دروازے کھولے گا۔ دوسری طرف نئے اندیشے اور چیلنجز بھی ان کے لیے کھڑے کرے گا۔ بڑی کامیابی اس حیثیت سے ہوگا کہ ایک ایسے سماج میں جہاں عورت کو زمین جائداد اور پالتو جانوروں کی طرح تصور کیا جاتا رہا ہو وہاں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ سیاسی فیصلہ سازی میں برابر کی شریک ہوجائے گی۔ ان کے حالات، مقام و مرتبہ اور سماجی حیثیت بہتر ہونے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ مگر وہ ’مردوں کے غلبہ والے‘ سماج میں جہاں صدیوں سے عورت پر مردوں کی حکمرانی رہی ہے اور اس سماج کے رواج اورسماجی اقدار اسی فریم میں فٹ ہیں، کس طرح حقیقت میں برابری کا درجہ حاصل کرسکے گی اور یہ کہ ’مرد و عورت کے درمیان اقتدار کی جنگ‘ میں خود کو ثابت قدم رکھ کر فاتح کیسے ثابت کرسکے گی۔ یہ بڑے مشکل سوالات ہیں۔ اسی طرح ذات پات اور فرقہ واریت پر مبنی سیاسی ماحول میں پورے سماج کی خواتین کی حصہ داری یقینی ہوسکے گی یا نہیں، یہ الگ مگر اہم سوال ہے۔ یا دو برادران کے اعتراضات ملک کے موجودہ سماجی تانوں بانوں کے درمیان اس اعتبار سے مضبوط معلوم ہوتے ہیں کہ دلت خواتین تعلیمی اور سماجی و سیاسی شعور کے اعتبار سے اس قابل ہیں ہی نہیں کہ دنیائے سیاست کے انتخابی میدان میں اتر سکیں۔ رہا سوال مسلم خواتین کا تو ان کی حالت اور فکر تو ابھی سیاست کی دنیا میں اترنے سے اسی طرح گھبراتی ہے جیسے تیرنا نہ جاننے والا آدمی اپھنتے دریا کے کنارے کھڑا یہ سوچ کر پریشان ہوتا ہے کہ وہ اس سیلاب بلا خیز میںکیسے اترے؟

آزادی سے لے کر اب تک عام سیاست دانوں سے مختلف قسم کے ایسے مسلمانوں نے جو دین اور سیاست کو ایک ہی تصور کرتے ہوں، کبھی سیاست کو قابلِ اعتناء تصور نہیںکیا۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی سیاست کے ایوانوں میں نمائندگی ہی نہ رہی ہو، مگر ایسے لوگوں کی نمائندگی حقیقت میں کبھی نہیں رہی، جو دوسروں سے مختلف رہ کر سیاسی دنیامیں کچھ منفرد حیثیت اور شناخت بنانے کے خواہش مند رہے ہوں، جب مردوں کا یہ حال رہا ہے تو عورتوںکا تو تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تو صرف نجمہ ہبت اللہ اور محسنہ قدوائی ہی موجود ہیں۔ مگر اب ۳۳ فیصد رزرویشن اگر یقینی ہوجاتا ہے تو اس میں مسلم خواتین کا کیا تناسب ہوگا اس پر مسلم ملت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ بل میں مسلم خواتین کے لیے خصوصی رعایتوں کا مطالبہ اپنی جگہ مگر اب حقیقی اشو یہ ہونا چاہیے کہ خواتین کو یہ رعایت مل جانے کے بعد مسلم سماج اس میں اپنی متناسب نمائندگی کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرے۔

اس سلسلہ میں مسلم سماج کے سامنے صرف اور صرف دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی خواتین کو سرے سے اس دنیا سے الگ کرلے اور مختلف دینی، سماجی اور سیاسی و معاشرتی اسباب کے سبب اس سے کنارہ کش ہوجائے۔ دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے حاصل ہونے والے مواقع اور امکانات کا جائزہ لے اور ایک ایسی اسٹریٹجی تیار کرے جس کے ذریعہ وہ مختلف قسم کی سیاست داں خواتین تیار کرکے ایوانِ سیاست میں بھیجنے کی کوشش کرے۔ یہ خواتین وہ ہوں جو دیگر خواتین سے ذہن و فکر اور علم و عمل کے اعتبار سے مختلف ہوں اور کم از کم ہندوستان کی سیاست میں اپنی منفرد اور الگ شناخت قائم کرسکیں۔

دین و دنیا کی تفریق روا نہ سمجھنے والی خواتین کے لیے یہ رزرویشن خاص چیلنج ہوگا۔ جو یا تو انہیں ملک کے جسم سے عضوِ معطل کی طرح کاٹ ڈالے گا یا پھر ان کے لیے امکانات کے نئے افق روشن کرے گا۔ کٹ جانے کی صورت میں احتجاج، تحفظات اور رعایتوں کے علاوہ کوئی سبیل نہیںبچتی جبکہ مواقع اور امکانات پر قبضہ جمانے کی صورت میںنئے راستے کھلیں گے۔ اعتراضات کی سنگ باریاں کم ہوں گی، اسلامی اقدار کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کے مواقع ہوں گے۔ انسانی خدمت کے نئے تصورات دنیا کے سامنے آئیں گے اور انسانی زندگی کو انقلابات کی نئی جہتوں کی طرف رہنمائی کی جاسکے گی۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب’ مختلف قسم کی مسلم عورت‘ اس دنیا میں مضبوط عزائم، بلند کردار اور محکم فکر کی نمائندگی کا ارادہ لے کر آئے گی۔ ورنہ کیا فرق پڑتا ہے آج بھی بہت ساری مسلم خواتین مختلف سیاسی پارٹیوں کے بینر سے ایوانِ سیاست میں موجود ہیں۔ یہ رہیں نہ رہیں مزید بڑھیں نہ بڑھیں یا بالکل ختم ہوجائیں اس سے مسلم امت پر کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں