خواتین رزرویشن بل

شمشاد حسین فلاحی

پارلیامنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ۳۳فیصد رزرویشن دلانے کے لیے حکومت نے ۶؍مئی کو راجیہ سبھا میں بل پیش کردیا۔ وومن رزرویشن بل کے نام سے معروف یہ بل گذشتہ ۱۲ سالوں میں چوتھی مرتبہ پیش کیا گیاہے۔ سب سے پہلے دیوی گوڑا حکومت میں ۱۲؍ستمبر ۱۹۹۶ء کو پیش کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۹۸ء اور پھر ایک سال بعد ۱۹۹۹ء میں تیسری مرتبہ اسے پارلیامنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں پیش کیا جاچکا تھا۔ دو مرتبہ یہ بل ایسے حالات میں پیش کیا گیا جب حکومت اپنی مدت کے آخری ایام سے گزر رہی تھی۔ تیسری مرتبہ ایوان میں اتفاقِ رائے نہ ہونے کے سبب اسے آگے بڑھانے کا موقع نہ مل سکا۔ جبکہ اب چوتھی مرتبہ اسے لوک سبھا کے بجائے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا جس کی مدت کار کبھی ختم نہیں ہوتی۔ شدید ہنگامے ، دھینگا مشتی اور ہاتھا پائی کے ماحول میں یہ بل اس طرح پیش ہوا کہ مرکزی وزیر قانون کو کئی خاتون وزیروں اور ممبران ایوان نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اس بل کو پیش نہ کردینے کی پوری کوشش کی اور چاہا کہ وہ وزیر قانون کے ہاتھ سے اس کی کاپی لے کر پھاڑ ڈالیں۔ مگر خواتین وزیروں اور ممبران کے حفاظتی حصار کے سبب جس کا پیشگی منصوبہ بنالیا گیا تھا ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ دھینگا مشتی، دھکا مکی اور ہاتھا پائی کی اس کارروائی کو جو پارلیامنٹ کے ایوان بالا میں پیش آئی پوری قوم نے براہِ راست ٹیلیویژن پر اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور یقینا اسے دیکھ کر بعض اہلِ ضمیر نے اپنا سر جھکا لیا ہوگا۔

اس بل کو پارلیامنٹ میں کس طرح پیش کیا گیا یہ بھی قابلِ غور ہے۔ تیسری مرتبہ جب اسے پیش کیا گیا تو مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اعتراضات آئے تھے اور اسی وجہ سے کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا تھا۔ حکومت نے بل پیش کرنے سے پہلی رات کیبنٹ کی خصوصی میٹنگ بلا کر فیصلہ کیا کہ کل صبح جو بجٹ اجلاس کا آخری دن ہے اس بل کو اسی حالت میں پیش کردیا جائے گا چنانچہ اسے پیش کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈران نے اسے چور دروازہ سے پیش کرنے کی بات کہی اور کہا کہ اس طرح کے بل کے بارے میں جس میں دستور میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے کم از کم ۴۸ گھنٹے پہلے ممبران کو مطلع کیا جانا ضروری ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے اسے اسی صورت میں جس میں شدید اختلافِ رائے تھاکیوں پیش کیا؟ اور بجٹ سیشن کے آخری دن جس کے بعد کارروائی ختم ہوجانی تھی کیوں پیش کیا؟ یہ سوالات مخالف سیاسی لیڈروں نے زور و شور سے اٹھائے ہیں۔ بل پیش کرنے کے بعد زبردست ہنگامہ آرائی کے سبب کارروائی کو دو بجے تک کے لیے ملتوی کردیاگیا۔ دوبارہ کارروائی شروع ہونے پر جنتا دل (یو) کے شرد یادو نے جب چور دروازے سے بل پیش کرنے پر احتجاج کیا تو چیئرمین حامد انصاری نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ اس موضوع پر بحث کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج بجٹ اجلاس کا آخری دن ہے اور یہ کہ ممبران کو کارروائی میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے۔ مگر ان کی بات کسی نے نہیں سنی، جس کے بعد انھوں نے قومی ترانہ بجانے کی ہدایت دی اور پھر اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ اس طرح یہ بل اصولی طور پر پیش ہونے کے بعدپارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس چلا گیا جو اس پر مزید غوروخوض کرے گی اور اگلے اجلاس میں اسے پاس کردیا جائے گا۔ ایسی امیدیں ظاہر کی جارہی ہیں۔

خواتین رزرویشن بل کے بارے میں حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ اس پر یوپی اے اور کانگریس پارٹی کے حلیفوں کے درمیان اتفاق رائے بنالیا جائے گا۔ جبکہ اس کے حلیفوں میں سے ہی کئی جماعتیں اس کی سخت مخالفت کررہی ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی نے تو گذشتہ مرتبہ لوک سبھا میں بل کی کاپیاں پھاڑ ڈالی تھیں اور اس بار بھی ایسا کرنے کی کوشش کی جبکہ وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کی پارٹی نے جو خود یوپی اے کا حصہ ہے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر خواتین رزرویشن بل کو موجودہ صورت میں پاس کیا گیا تو ان کی پارٹی اس کی مخالفت میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ جس میں سپورٹ واپس لے لینابھی شامل ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ خواتین رزرویشن کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس بل کی موجودہ صورت میں وہ مخالف ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ جب تک اس رزرویشن میں دلتوں اور بیک ورڈ طبقات کو شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ ان کے نزدیک بے کار ہے اور محض اونچی ذات اور ’کریمی لیئر‘ ہی کی خواتین کو پارلیامنٹ میں پہنچانے کا ذریعہ بنے گا۔ جس سے دبے کچلے طبقات کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

اسے ہندوستانی قوم کی بدقسمتی ہی تصور کیا جانا چاہیے کہ یہاں کے فلاحی اور رفاہی قوانین اور منصوبوں پر بھی موقع پرستی اور ذات پات کی سیاست غالب رہتی ہے اور یہ بل اس کا گذشتہ تین مرتبہ شکار ہوچکا ہے اور اب چوتھی مرتبہ بھی جب کہ یو پی اے اپنی مدت کار کے تقریباً اختتامی دور میں چل رہی ہے اس بات کا اظہار علی الاعلان کیا جارہا ہے کہ کانگریس اس بل کو آئندہ الیکشن میں کیش کرانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ادھر ذات پات کی سیاست کے چلتے لوگوں کا یہ اندازہ غلط خیال نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کا رزرویشن دلت، بیک ورڈ اور محروم طبقات کی خواتین کے ’امپاورمنٹ‘ کے بجائے سماج کی ایلیٹ، بااختیار، دولت مند یا یوں کہیے کہ اونچی ذات کی خواتین ہی کی خدمت کرے گا جو پہلے سے ’امپاورڈ‘ ہیں۔ اگر اس رزرویشن میں ان محروم طبقات کو شامل نہیں کیا جاتا تو یہ رزرویشن سماج کے کس طبقے کی خدمت کرے گا وہ جگ ظاہر ہے۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو کلیدی اپوزیشن پارٹی ہے، اس بل کی حمایت کردی اور مطالبہ کیا کہ حکومت پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں یقینی طور پر اس بل کو پاس کرائے۔ بی جے پی کی سشما سوراج نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس بل کو غوروخوض کے لیے اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھی بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ پورا ملک جانتا ہے کہ اس بل پر بحث نہیں ہوپائی اور سارا وقت ہنگامہ کی نذر ہوگیا جبکہ اس سے پہلے بھی اسے اجلاس کے آخری دن ہی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ کم از کم اس پر پارلیامنٹ میں کھل کر بحث تو ہونی ہی چاہیے۔ مذکورہ پارٹی کا یہ کہنا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی میں غوروخوض کی کوئی ضرورت نہیں اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندو سماج کے اعلیٰ طبقہ کے لیے یہ بل مفید ہی ثابت ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تویہ بات ہرگز نہ کہی جاتی۔ دراصل بی جے پی یہ جانتی ہے کہ اس سے یقینا مستقبل میں اسے فائدہ ہوگا اور یہ کہ اگر اس کی مخالفت برائے مخالفت بھی کی گئی تو کانگریس اس اشو کو لے اڑے گی اور بی جے پی کی امیج اینٹی وومن کے طور پر عوام میں لائے گی۔

یہ سیاسی موقع پرستی ہی ہے کہ کانگریس اس بل کو پاس کراکر لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ کام جو گذشتہ بارہ سالوں میں ممکن نہ ہوا وہ من موہن سنگھ سرکار نے آخر کر دکھایا اور یہ کہ ان کی حکومت خواتین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ دوسری طرف دلتوں اور بیک ورڈ طبقات کے لیے بھی رزرویشن کا مطالبہ کرنے والے ’کوٹے کے اندر کوٹا‘ متعین کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ وہ خود کو دلتوں کے مسیحا اور ان کی ترقی کے لیے خود کو مخلص ثابت کرسکیں۔ بیک ورڈ طبقات اور محروم لوگوں کے لیے جدوجہد کرنے والے ان مسیحاؤں کو اس وقت سانپ سونگھ جاتا ہے جب بات مسلمانوں کی آتی ہے اور اس وقت ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مسلمان دبے کچلے، محروم اور بیک ورڈ طبقات میں بھی بیک ورڈ ہیں مگر کسی کے اندر یہ کہنے کی جرأت و ہمت نہیں کہ وہ مسلمان خواتین کے لیے بھی کوٹے میں گنجائش نکالنے کی بات کریں۔ حالانکہ سچر کمیٹی رپورٹ اور حقیقت حال سے آگاہی کے سبب سبھی جانتے ہیں کہ مسلمان بھی اس کے حق دار ہیں۔ ذات پات ہی کی بنیاد پر جاری سیاست کے باوجود جب معاملہ مسلمانوں کو حق دلانے کا آتا ہے تو بات فوراً فرقہ ورایت پر آکر ٹک جاتی ہے اور ظاہر ہے بی جے پی کے علاوہ اور کس میں یہ ’ہمت‘ ہے کہ وہ کھل کر اسی طرح مسلمانوں کے حق کی بات کہے جیسے بی جے پی ہندوؤں وہ بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے حق کی بات کرتی ہے۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جب سماج میں دبے کچلے، محروم اور بیک ورڈ طبقہ کی بات ہو تو حق و انصاف کا تقاضا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ اس ملک میں پسماندہ کے پسماندہ ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس سے سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے اس چور ذہن کی غمازی ہوتی ہے جو مسلمانوں کے لیے آزادی کے ساٹھ سال سے جاری ہے اور وہ اسے ختم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خواتین کو اگر یہ رزرویشن مل بھی جائے تو اس سے خواتین کی حالت کا یکسر بدل جانا، دشوار نظر آتا ہے۔ مگر انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے کی روش جاری ہے جو ایک تشویشناک امر ہے۔

خواتین رزرویشن بل دراصل ملک کی پارلیامنٹ اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی یعنی ۳۳فیصد نشستیں رزرو کردینے کے لیے قانون ہے جو صرف پندرہ سال تک کے لیے لاگو ہوگا۔ اس بل کے ذریعہ یہ مان لیا گیا ہے کہ پندرہ سالوں میں خواتین کا امپاورمنٹ (سشکتی کرن) مکمل ہوجائے گا۔ اس بل میں دستور کی دفعہ ۲۳۹ میں تبدیلی کرکے شیڈولڈ کاسٹس کی جگہ شیڈولڈ کاسٹس اور خواتین کردیا گیا ہے۔ اس طرح دستور کی اس دفعہ میں، جو مختلف طبقات کو رزرویشن کی اجازت دیتی ہے، خواتین کا لفظ جوڑ کر اس رزرویشن کی قانونی حیثیت بنائی گئی ہے۔ اسی طرح دفعہ ۳۳۰ کے بعد ایک نئی دفعہ جوڑدی گئی ہے جو خواتین کے رزرویشن سے متعلق ہے۔

وزیر قانون نے اس بل کے اسباب و مقاصد کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ’’خواتین کے امپارورمنٹ کا اشو موقع موقع سے ملک میں مختلف بینروں سے اٹھایا جاتا رہا ہے۔ خواتین کے سیاسی امپاورمنٹ اور جنس پر مبنی عدمِ مساوات اور تفریق کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک کار گر ہتھیار ہے۔‘‘ فی نفسہٖ کسی لیڈر کو یا کسی پارٹی کو اس کے اغراض و مقاصد اور اسباب و عوامل سے اختلاف نہیں ہے۔ جن لوگوں کو بھی اختلاف ہے وہ بل کے مسودہ اور اس کے نفاذ کے بعد حاصل ہونے والے سیاسی گٹھ جوڑ اور اس بل کے پیش کرنے کے طریقۂ کار سے ہے۔ چنانچہ بی جے پی نے اس بل کے پیش کیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ کہہ کر ’’یہ بل یو پی اے حکومت کے دورِ اختتام میں پیش کیا گیا ہے‘‘ اس بل کے پیش کرنے کے طریقِ کار پر تنقید کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر پارلیامنٹ گروداس گپتا نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام پہلے ہونا چاہیے تھا۔ جنتا دل (سیکولر) نے اس بل کو کرناٹک اسمبلی الیکشن کے تناظر میں ایک ’لبھاؤ‘ قرار دیا۔ جبکہ بی جے پی نے اس میں اوبی سی اور دیگر طبقات کو شامل کرنے کے مطالبہ کو ’ان کانسٹی ٹیوشنل‘ قرار دیا۔

ادھر بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر اور اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی نے کہا ہے کہ خواتین کے لیے رزرویشن کا تناسب ایک تہائی کے بجائے نصف ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کی تعداد آبادی کا نصف ہے۔ انھوں نے بل کو سپورٹ تو کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ رزرویشن کا فائدہ خواتین کے تمام گروہوں تک پہنچنا چاہیے اور اس کے لیے ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔ واضح رہے کہ اترپردیش میں خود کو مسلمانوں کے ووٹ کی حقدار سمجھنے والی مایاوتی نے ۳۳ فیصد کے بجائے ۵۰ فیصد کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی خواتین کے تمام طبقات کو فائدہ پہنچانے کی بات کی، مگر وہ اس بات کی ہمت نہ کرسکیں کہ مسلمانوں کو شامل کرنے کی بات کہہ سکیں۔

ادھر کانگریس نے اس دن کو ’گولڈن ڈے‘ اور اس وقت کو جب یہ بل پیش کیا گیا’ فخر کے لمحات‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پارٹی کی صدر کا وعدہ تھا اور ساتھ ہی یو پی اے کے کامن منیمم پروگرام کا حصہ بھی جسے انھوں نے پورا کردیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی برندا کرات نے کہا کہ اس راہ کا پہلا روڑا ہٹ گیا ہے اور یہ کہ اسٹینڈنگ کمیٹی اسے برف خانے میں نہ ڈالے۔ خود وزیر اعظم نے کہا کہ ’’انھوں نے اپنا کام کردیا۔‘‘

بہرحال اب جب کہ بل پیش ہوگیا ہے حکومت کو اسے پاس کرانے کے لیے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنا ہے اور اگر اس نے یہ مہم سر کر بھی لی تو قوم کے سامنے اس سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ اس بل کے ذریعے خواتین کا امپاورمنٹ ہوتا ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے ذریعے محض کریمی لیئر کی خواتین چن کر پارلیامنٹ میں آتی ہیں؟ یا واقعی دبی کچلی اور محروم مساوات خواتین کو جو بہت سے محاذوں پر ہندوستانی سماج کے سیاق میں عدم مساوات بلکہ ذلت کی زندگی گزار رہی ہیں کچھ اکرام و برابری حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ اب آنے والی حکومتوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ملک کی خواتین کو سیاست کا آلۂ کار بنانے کے بجائے واقعی ان کے ارتقاء اور سماجی و معاشرتی عزت و اکرام کے لیے سنجیدہ ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146