پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے رزرویشن کی تجویز جو جلد ہی قانون میں بدلنے کے امکانات رکھتی ہے سب سے پہلے ۱۹۹۶ء میں دیوے گوڑا کی سرکار نے لوک سبھا میں پیش کی تھی، جسے اس وقت رد کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی خواتین رزرویشن بل کئی مرتبہ پارلیمنٹ میں رکھا گیا مگر سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو پانے کے سبب پاس نہ ہوسکا۔ بالآخر ۹؍مارچ کو یہ بل راجیہ سبھا میں منظور ہوگیا۔
اس بل کا بنیادی مقصد لوک سبھا سے لے کر ریاستی اسمبلیوں تک میں اور پالیسی سازی کی ہر سطح پر خواتین کی نمائندگی ہے۔ اس بل کے منظور ہوجانے کے بعد مرکزی اور ریاستی ایوانوں میں ایک تہائی تعداد خواتین کی ہوگی۔ ایس سی اور ایس ٹی کے پہلے سے موجود رزرویشن کے پیش نظر اس ۳۳؍فیصد میں ایک تہائی سیٹیں ان کے لیے زرروہوں گی۔
اس بل کے خاص مخالفین میں یا دوبرادرس کا نام سرخیوں میں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ خواتین رزرویشن کے مخالف نہیں ہیں۔ اگر معاملہ خواتین کی نمائندگی ہی کا ہے تو پسماندہ طبقات، دلتوں اور مسلمانوں کو بھی نمائندگی ملنی چاہیے۔ (واضح رہے کہ اس وقت صرف دومسلم خواتین ہی پارلیمنٹ میں ہیں) ان کا خیال ہے کہ اگر موجودہ۵ء۲۲ فیصد رزرویشن میں، جو ایس سی ، ایس ٹی کو پہلے ہی سے حاصل ہے۔ ۳ء۳۳فیصد خواتین رزرویشن کو بھی جوڑ دیا جائے۵۵ فیصد سیٹیں رزرو ہوجائیں گی۔ اور یہ صورت حال نہ صرف یہ کہ یہ دیگر طبقات کے حق میں نہیںہوگی بلکہ ان کی حق تلفی ہوگی۔
خواتین کو با اختیار بنانا اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ان کے لیے ملک و قوم کی خدمت کے وسیع مواقع فراہم کرنا ہر حکومت اور ہر سماج کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم ذمہ داری خواتین کو عزت و احترام، تحفظ اور تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہے۔ اس کے لیے وقت و ضرورت کے مطابق قوانین سازی بھی ہونی چاہیے اور ہمارے ملک میں بھی ہوتی رہی ہے مگر حادثہ یہ ہے کہ یہاں تمام تر قوانین کی موجودگی کے باوجود خواتین کی سماجی حالت میں کوئی قابل ذکر سدھار پیدا نہیں ہوسکا۔ کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے ۱۹۲۹ء میں قانون بنا اور اب بھی جاری ہے مگر نوعمری او ربچپن کی شادیاں آج بھی ہوتی ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون بنا مگر آج بھی خواتین پر تشدد عام ہے اور اخبارات اس قسم کی خبروں سے بھرے پڑے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی قوانین ایسے ہیں جو ہندوستانی سماج کی خواتین کے سماجی، معاشی اور ذاتی تحفظ کی خاطر بنائے گئے مگر وہ مذاق ثابت ہوئے اور کسی بہتری کا ذریعہ نہ بن سکے۔
ہندوستانی سماج میں آج بھی عورت مظلوم طبقہ کی سربراہ نظر آتی ہے۔ معاملہ عورت کی صحت کا ہو یا تعلیم کا، روزگار اور تنخواہوں کا ہو یا ان کی معاشی حالت کا وہ ہرجگہ کمزور ہے اور مردوں کے مقابلے تفریق کا شکار ہے۔ ایک ہی کام کے لیے مردوں کی تنخواہ الگ ہوتی ہے اور عورت کی الگ۔ عہدوں پر ترقی ہو یا بھرتی ابھی تک عورت کو تمام صلاحیتوں کے باوجود وہ مقام نہیں مل پاتا جو مردوں کا ہوتا ہے۔
خواتین کو ۳۳ فیصد رزرویشن دینے کے پیچھے اگر خواتین کو با اختیار بنانا ہی مقصود ہے تو یہ ایک خوش آئند قدم یقینا کہا جاسکتا ہے مگر اس سے پہلے کے جو اقدامات ہوچکے ہیں ان پر عمل آوری کس حد تک ہوسکی یہ سوال بھی حکومت اور انتظامیہ سے کیا جانا چاہیے۔ اگر حکومت اس کا کوئی جواب رکھتی ہے تو اسے عوام کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔
اس ملک اور سماج میں خواتین کی اصل لڑائی اقتدار اور اختیارات کی نہیں بلکہ اس سے کئی مراحل پہلے کی لڑائی ہے اور وہ لڑائی ان کے عزت و وقار اور بنیادی انسانی حقوق کی ہے۔ اگر خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی سیاسی خود مختاری سے ان کے مسائل ہوجائیں گے تو یہ غلط فہمی ہے۔ اصل جنگ ابھی باقی ہے اور وہ جنگ سیاسی نہیں سماجی سطح پر لڑی جانے والی ہے۔ اسی جنگ کے ذریعے عورت جہیز، مردوں کی تانا شاہی اور سماجی و معاشرے کی سطح پر ہورہے ، استحصال سے نجات پاسکتی ہیں۔ اگر خواتین کی جنگ محض سیاسی جنگ ہوتی تو مغرب کی خواتین نہایت سکون واطمینان سے اچھی زندگی گزار رہی ہوتیں، مگرافسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ڈرائنگ روم کی باتیں اور ایک خاص طرزِ زندگی اور کلچر کے فروغ کی کوشش سے آگے کچھ نہیں۔
اگر ہندوستانی سماج کی خواتین کو برابری ومساوات، سکون واطمینان اور عزت و تکریم اور تحفظ چائیے تو انہیں اپنے آپ ایک سماجی و معاشرتی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے اور اس فرسودہ سماج کے تانے بانے اور رسوم و رواج کے جال پھاڑ ڈالنے چاہئیں جو آزادی کے باوجود انہیں غلام بنائے ہوئے ہیں۔