خواتین میں بڑھتا خود کشی کا رجحان

شمشاد حسین فلاحی

(بشکریہ ہندوستان ہندی) ——
خواتین میں خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ حکومتی اداروں کے ذریعے فراہم کردہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ اپنے گردو پیش کے ماحول کو دیکھیں اور وہاں سنی جانے والی خود کشی کی خبروں کو سنیں تو خود پکار اٹھتے ہیں کہ پہلے تو اتنی خود کشیاں نہیں ہوتی تھیں۔
آج اخبار تو ہرگاؤں اور دیہات میں پہنچنے لگے ہیں اور یہ اخبارات گاؤں دیہاتوں کی خبروں کو بھی کَور کرتے ہیں خود ان اخبارات میں روزانہ اس قسم کی کئی کئی خبریں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ خبریں صرف دیہاتوں سے آتی ہیں ایسا نہیں ہے خود دہلی سے شائع ہونے والے قومی سطح کے اخبارات بھی اس قسم کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شہری آبادی میں بھی خواتین کے درمیان خود کشی کی شرح بڑھی ہے۔
اگرچہ خودکشی کی عام شرح جس میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں موجودہ زمانے میں ہی بڑھی ہے۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی بہ نسبت مردوں میں یہ شرح کم ہے اور اس کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ مردوں میں خود کشی کا رجحان کاروبار کی تباہی،قرضوں کی بھر مار یا پھر گھریلو تنازعات ہوتے ہیں جبکہ عورتوں میں دیگر کئی اسباب کے ساتھ ساتھ گھریلو تنازعہاہم سبب ہوتا ہے۔
ہم نے گزشتہ سال اسی مہینے میں دہلی سے شائع ہونے والے تین اخبارات سے صرف خواتین کی خود کشی کے واقعات کی خبروں کے اعداد و شمار جمع کیے یہ اعداد و شمار صرف دس دنوں کے تھے۔ اور اس سال پھر انھی دنوں کے اعداد و شمار انہی اخبارات سے جمع کیے تو نئے سال میں افسوسناک اضافہ سامنے آیا۔ ذیل میں ہم ان اعداد و شمار کا تجزیہ اس لیے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے سماج اور معاشرے کے ان کھلے حقائق سے آگاہی ہوسکے جو کھلے ہونے کے باوجود ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
اسباب
تعداد
2007
تعداد
2008
فیصد
%
نامعلوم اسباب
جبراً شادی یا معاشقہ
گھریلو تنازعہ
بیماری
تعلیم/ ناکامی
اقدام خود کشی
مشتبہ اموات
9
5
7
1
0
1
2
13
6
8
1
1
2
2
39.39
18.18
24.24
3.03
3.03
6.06
6.06
کل
25
33

یہ اعدادوشمار تین اخبارات کے صرف دس روزہ واقعات پر مبنی ہیں۔ ان اعداد و شمار کا انطباق بڑے پیمانے پر تو نہیں کیا جاسکتا لیکن سماج و معاشرے کا ٹرینڈ ضرور جانا جاسکتا ہے کیونکہ روزانہ اخبارات میں کم و بیش اسی تعداد کے ساتھ خواتین کی خود کشی کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ ان واقعات سے الگ کچھ ایسے واقعات بھی ہمارے سماج میں دیکھنے میں آتے ہیں جو یا تواخبارات میں رپورٹ نہیں ہوپاتے یا ان کی نوعیت اہل خانہ تبدیل کرکے قانون کی آنکھ میں دھول جھونک دیتے ہیں یا مختلف ذرائع اختیار کرکے پولیس کی زبان بند کردیتے ہیں۔
ان اعداد و شمار میں سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات و ہ ہیں جن میں خود کشی کا سبب معلوم نہیں اور جہاں موقع واردات سے نہ کوئی سوسائڈ نوٹ ملا ہے اور نہ کوئی واضح سبب اہلِ خانہ کے ذریعے ہی سامنے آسکا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کی خود کشی کے ان واقعات میں بھی گھریلو تنازعات کا خاصا رول ہوتا ہے جس میں شوہر کی بے وفائی اور شراب کے نشہ میں شوہر کی مار دھاڑ سے تنگ آجانا یا سسرال والوں کی طرف سے مختلف قسم کا ظلم و جبر شامل ہے۔
خواتین کی خود کشی کا ایک اور سبب شادی سے متعلق ہے۔ موجودہ زمانے میں ہماری نئی نسل کافی آزاد خیالی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے جہاں وہ اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہے مگر ہماری سماجی روایات ابھی اس کی اجازت نہیں دیتیں اور والدین اپنی مرضی کے جیون ساتھی کے ہمراہ اپنی اولاد کو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں بعض لڑکیاں مجبوراً قبول کرلیتی ہیں اور بعض وہ جو اسے رد کرنے کی ہمت نہیں کرپاتیں یا کامیاب نہیں ہوپاتیں۔ اس طرح وہ احساس مجبوری سے تنگ آکر اس طرح کے رشتہ کے مقابلے میں موت کو ترجیح دیتے ہوئے خود کشی کرلیتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات کا تناسب 18.18فیصد ہے اور ظاہر ہے ان تمام واقعات میں عورت اپنے کو مظلوم و مجبور مانتی ہے۔ ان واقعات میں عشق و محبت کے وہ واقعات بھی شامل ہیں جہاں عاشق نے بے وفائی کی اور لڑکی اس سے دل برداشتہ ہوگئی اور اس نے زندگی کے مقابلے میں موت کو اختیار کرلیا۔ اسی طرح اس میں اس طرح کے واقعات بھی ہوئے جہاں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے مگر سماجی و معاشرتی رکاوٹوں کے سبب وہ شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکے۔
خواتین کے خود کشی کے واقعات کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے وقت اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام بڑی تیزی سے انتشار اور بدامنی کی طرف جارہا ہے۔ کیونکہ گھریلو تنازعات کا جس میں خاص طور پر میاں بیوی کے جھگڑے شامل ہیں، تناسب 24.24 فیصد ہے۔ اس بڑے تناسب کو دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ ہمارا سماج خاندانی نظام کی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
شوہر بیوی کے درمیان فکر ومزاج کا ہم آہنگ نہ ہونا۔ نوشادی شدہ دلہن پر شوہر، ساس، سسر اور دیگر سسرال والوں کی طرف سے جہیز کے لیے دباؤ بہو کی حیثیت سے اس کے خلاف تنگ دلانہ اور سوتیلا سلوک وہ باتیں ہیں جو گھریلو تنازعات کی بنیاد بنتی ہیں اور دوریاں اور زیادتیاں بڑھتی ہی جاتی ہیں اور اس حد تک پہنچ جاتی ہیں جہاں پہنچ کر ایک عورت زندگی سے بیزار ہوجاتی ہے۔ خود کشی کا یہ ایک چوتھائی تناسب گھریلو زندگی میں عورت کی مظلومیت کی دلدوز تصویر پیش کرتا ہے۔ اس تصویر میں زیادہ تر عورت ہی نظر آتی ہے مرد بہت کم۔ کیونکہ عورت کمزور ہے۔ بے سہارا ہے اور شادی کے بعد اس کے تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ والدین اور بھائی بھی اسے ظلم سے نجات دلانے میں ناکام رہتے ہیں یا پھر اسے سب کچھ برداشت کرنے کی تلقین کرکے خاموش ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں مظلوم عورت کے سامنے خود کشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ گھریلو تنازعات میں مردوں کا تناسب بہت کم ہے اور جو واقعات بھی پیش آتے ہیں ان میں اکثر سبب بیوی کی بے وفائی ہوتا ہے۔
مشتبہ اموات جن کا تناسب ۶ فیصد اور اقدام خود کشی کے واقعات جن کا تناسب بھی اسی طرح ہے اکثر گھریلو جھگڑوں ہی کے سبب واقع ہوتے ہیں جبکہ مشتبہ اموات کی صورت میں اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں اہلِ خانہ کے ذریعے مار ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو جب کہ اقدام خود کشی کے واقعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں گھریلو مسائل اور اس کے سبب ڈپریشن کی کیفیت کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ اقدام خود کشی کے واقعات میں موت سے بچ جانے کا سبب عام طور پر خود کشی کے لیے استعمال کے گئے غیر مناسب ذرائع ہیں جن سے موت واقع ہونا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً فینائل یا تیزاب پی لینا وغیرہ۔ اس طرح کی صورتِ حال میں علاج و معالجہ کے بعد خود کشی کی کوشش کرنے والی خاتون بچ جاتی ہے۔
طویل بیماری اور تکلیف بھی خود کشی کا سبب بنی ہیں لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے اور یہ عام طور پر طویل العمر لوگ کرتے ہیں جو کینسر یا کسی اور موذی بیماری کا شکار ہوگئے ہوں۔
نوعمر طالبات میں تعلیمی دباؤ بھی خود کشی کا سبب نظر آتا ہے اور اس میں طالبہ کی ناکام سوچ صاف ظاہر ہوتی ہے۔ والدین کی طرف سے تعلیم میں بہتر کارکردگی کا مسلسل دباؤ اور طالبہ کی اوسط درجہ کی صلاحیت جو اسے مقابلہ میں آگے نہیں بڑھنے دیتی اور وہ فیل ہوجاتی ہے یا کم نمبر لاتی ہے ایسی صورت میں وہ احساسِ کمتری اور احساس جرم کا شکار ہوکر خود کشی کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں تربیت اور معاملات میں والدین کی کمزوری اور کوتاہی کا بھی بڑا دخل ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں پر تعلیم کے سلسلے میں ناجائز دباؤ نہ بنائیں اور ان کی مناسب رہنمائی کریں تو بچوں کو اس رجحان سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
خودکشی کی نفسیات کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس میں عقیدے اور ماحول کا بھی بڑا خاص دخل ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام واقعات میں مسلم خواتین کا تناسب صرف ۶ فیصد ہے۔ اور اس کا سبب ہمیں ان کا عقیدہ نظر آتا ہے۔ مسلم خواتین کیونکہ زندگی بعد موت پر ایمان رکھتی ہیں اس لیے آخرت کے ٹھیک ٹھیک فیصلے پر یقین کے نتیجے میں وہ تمام مصائب کو جھیلنے کی طاقت حاصل کرلیتی ہیں۔ دوسری طرف چونکہ غیر مسلم معاشرہ میں سب کچھ اسی زندگی کو تصور کیا جاتا ہے اس لیے وہ اس انداز میں سوچتی ہیں کہ جب زندگی ہی اجیرن بن جائے تو جینے سے کیا فائدہ۔ جبکہ اگر آخرت کی زندگی میں صلہ کی توقع ہوتی تو وہ اس زندگی کو امتحان گاہ تصور کرتے ہوئے سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت جٹا لیتیں۔ جیسا کہ مسلم خواتین میں نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم عورتوں کے ساتھ ظلم و ستم نہیں ہوتا، وہ جہیز کے سبب ستائی نہیں جاتیں یا وہاں گھریلو تنازعات نہیں ہوتے، ہوتے ہیں اور خوب ہوتے ہیں مگر عقیدۂ آخرت انہیں امید دلائے رکھتا ہے اور وہ سب کچھ برداشت کرلینے کا حوصلہ جٹا لیتی ہیں۔
یہ صورتِ حال اس سماج و معاشرے کی ہے جس میں ہم مسلمان بھی رہتے بستے اور زندگی گزارتے ہیں مگر ان حالات اور ان مسائل پر ہم کم ہی سوچ پاتے ہیں۔ اور جب اس طرح کی تجزیاتی رپورٹیں دیکھنے کو ملتی ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال باشعور مسلم خواتین کے لیے چشم کشا ہے اور ان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ صرف اپنے خاص معاشرے اور اپنے گھر اور اپنی ذات کے خول سے نکل کر وسیع انسانی معاشرے کے مفاد میں سوچیں اور موت کی طرف تیزی سے بڑھتے اس غیر مسلم سماج کی بھی فکر کریں۔ ظاہر ہے ان کے سامنے زندگی کا واضح تصور اور ٹھوس مقصد نہیں ہے اگر ہم زندگی کا ٹھوس تصور ان کے سامنے واضح طور پر رکھ دیں تو اس صورتِ حال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ضرورت ہے وسیع سوچ رکھنے والی اور انسانوں کے لیے جذبۂ ہمدردی سے سرشار خواتین کی جو معاشرے کے زخموں کا مداوا کرنے کی فکر کرسکیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146