قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ (توبہ: ۷۱)
اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
’’دین خیرخواہی کانام ہے۔ صحابہ نے سوال کیا کس کے لیے خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘ (مسلم)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کے جملہ شعبوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام جہاں فرد کی زندگی کو اللہ کے حکم کے مطابق گزارنے کا پیغام دیتا ہے، وہیں سماج اور معاشرے کے لیے بھی اللہ کی ہدایت کے مطابق چلنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح دین کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی سسٹم بھی اللہ کی مرضی کے مطابق چلے تاکہ دنیا میںحقیقی امن و امان قائم ہو اور انسان کی عزت و کرامت اور اس کا وقار نہ صرف قائم ہو بلکہ بلندی کی چوٹیوں تک پہنچے۔ فرد کی اصلاح، سماج اور معاشرے کی اصلاح اور سیاسی نظام کی اصلاح اسلام کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ اور اس ایجنڈے کی تکمیل میں مردو خواتین دونوں ہی یکساں طور پر شریک ہیں اور اس بات کو دونوںکی یکساں ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل اور معاشرہ اور سماج اور نظامِ حکومت کی اصلاح کو سیاسی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔
معاشرے، سماج اور نظامِ حکومت کی اصلاح، سیاسی تبدیلی اور حکمرانوں کے لانے اور ہٹانے کی سیاسی جدوجہد سے مسلم سماج کی عورت لاتعلق ہو گئی ہے یا لاتعلق کردی گئی ہے اور اس میدان میں وہ محض مردوں کی رائے کا ضمیمہ بن کر رہ گئی ہے۔ جبکہ موجودہ جمہوری دور میں، جب کہ ووٹ کے ذریعہ انقلاب لایا جاسکتا ہے، عورت کے سیاسی رول نے غیر معمولی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ مگر مسلم معاشروں میں ہنوز عورت کسی سیاسی رول کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورت سیاسی شعور اور بیداری کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائی ہے جہاں وہ صرف اپنے شعور اور اپنی آزادانہ سیاسی فکر کی بنیاد پر فیصلہ سازی میں شریک ہوسکے۔ یہ بات اس دین کے مزاج سے میل نہیں کھاتی جو دین دونوں کو ایک دوسرے کا رفیق قرار دیتا ہے اور یکساں طور پر دونوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نیکیوں کا حکم دیں، برائی سے روکیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔ اور ان کاموں کی ادائیگی اللہ کی رحمت کے نزول کی شرط قرار پاتی ہے۔ اسی طرح دین خیرخواہی کا نام ہے تو ائمۃ المسلمین اور عام مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کا حق سیاسی رول کی ادائیگی کے بغیر کیسے ادا ہوسکتا ہے۔
عہدِاسلامی کی عورت دینی شعور اور سیاسی بیداری کے اعلیٰ مقام پر تھی۔ چنانچہ قدم قدم پر ایسی خواتین نظر آتی ہیں، جو ایک طرف تو سیاسی مشاورت میں شریک ہوکر بڑے بڑے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں ،دوسری طرف حکمرانوں کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر پر نگاہ رکھتی ہیںاور ضرورت پڑنے اور موقع ملنے پر وہ پورے اعتماد کے ساتھ ان کی گرفت بھی کرتی ہیں۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کا صلح حدیبیہ کے دن رسول پاکؐ کو مشورہ دینا ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کو ظاہرکرتا ہے۔ حضرت حفصہؓ کا امورِ خلافت میں دلچسپی لینا اور اپنے والد محترم اور بھائی عبداللہ بن عمر کو سیاسی امور میں مشورہ دینا بڑا اہم ہے۔ حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی کا مہر کی مقدار کو کم کرنے کے سلسلے میں عزم کا اظہار اور ایک عام مسلم عورت کاشرعی دلیل کے ساتھ ان کی گرفت کرنا ایک طرف تو اس خاتون کے دینی علم و آگہی کو واضح کرتا ہے، دوسری طرف جرأت اظہار، حق گوئی اور سیاسی بیدار مغزی کی بھی علامت ہے۔ تاریخ میں حضرت اسماء بنت ابوبکر ذات النطاقین کا حجاج کے دربار میں جرأت مندانہ خطاب حکمرانوں کو راہِ راست پر لانے کی سوچ اور برائی پر نکیر کی علامت ہے۔
موجودہ دور میں دنیا کے کئی ممالک میں خواتین سیاسی قیادت کررہی ہیں کئی جگہ وہ سیاسی اور سماجی انقلاب کی علامت بنی ہوئی ہیں ان میں ایک بڑا نام برما کی خاتون لیڈر آنگ سانگ سوچی کا ہے، جن کی پارٹی نے حال ہی میں ملک میں ہونے والے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ سوچی ملک کی ایک زبردست لیڈر ہیں جن کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند اور آزمائشوں میں گزرا ہے۔
ان تمام باتوں کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلم عورت سیاسی بیداری کی طرف آئے اور جمہوری عمل میں فعال رول ادا کرے اور اگر وہ کسی بھی وجہ سے اپنے رول کی ادائیگی سے غفلت برتتی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام دشمن اور مسلم دشمن طاقتوں کی حمایت کرنے والی خواتین تو اپنے ایجنڈے کے نفاذ اور اپنے مقاصد کے حصول میں بہ ہر حال پیچھے نہیں ہیں اور نہ وہ پیچھے رہیں گی۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں، وہ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں۔‘‘ (توبہ: ۶۷)
مسلم عورت کو عہدِ نبوی کے واقعات سے سبق لینا چاہیے اور ملک اور دنیا کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے خود کو باشعور دختر ملت بنا کر نفرت کے سیاسی ایجنڈے کو ناکام بنانے کی خاطر خو دکو ایک فعال سیاسی گروہ کی حیثیت سے آگے لانا چاہیے۔
اس وقت ملک میں جو سیاسی گروہ برسرِ اقتدار ہے اس کا ایجنڈا اور اس کے سیاسی عزائم اب ملک کے عوام سے پوشیدہ نہیں۔ اور ان کی خوبی یہ ہے کہ انھوںنے خواتین اور نوجوانوں کے درمیان اپنی حمایت کرنے والے بڑے طبقے کو جمع کرلیا ہے۔ ایسے میں مسلم عورت کا سیاسی شعور بیدار کرنا تمام باشعور خواتین کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی اور بہتر ادائیگی پر ہی ملک اورملت کے سیاسی مستقبل کا انحصار ہے۔