بیسویں صدی میں خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سماج میں انھیں مردوں کے برابر اور یکساں مواقع حاصل نہیں تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں، ملک اور سماج کی تعمیر و تشکیل میں ان کا کوئی رول نہ تھا اور وہ مردوں کے غلبہ والے سماج میں لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ لیکن تحریکات نسواں کی کوششوں اور مساوات مردوزن کے نعرہ کی بدولت بیسویں صدی کے اختتام تک ان کا یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا۔ اب زندگی کے تقریباً تمام ہی میدانوں میں خواہ وہ تعلیم و تدریس ہو یا نوکری و معاشی جدوجہد ہر جگہ انھیں مردوں کے برابر اور یکساں مواقع حاصل ہونے لگے۔ انہی یکساں مواقع اورمساوات مردوزن کے نتیجہ میں آج ہر اس جگہ پر ہم خواتین کی موجودگی محسوس کرتے ہیں جو پہلے صرف مردوں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھیں۔
کالج میں لکچرر، دفاتر میں کلرک اور افسر، تجارتی اداروں اور فیکٹریوں میں مینیجر اور انجینئر ، اسپتالوں میں کامیاب ڈاکٹر، کھیل کے میدانوں میں کامیاب اسپورٹس وومین، سیاست کے میدان میں ممبرپارلیامنٹ اور وزیر و قائد، میڈیا اور اخبارات میں ایڈیٹر، رپورٹر اور ڈائرکٹر اور سماجی خدمات کے اداروں میں کارکن سے لے کر لیڈر تک ہر مقام پر خواتین ہمیں فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصر حاضر کی خواتین نے ’مردوں کے خلاف مدت سے جاری جنگ‘ جیت لی ہے اور مردوں کے بالمقابل یکساں حقوق حاصل کرلیے ہیں۔ اور وہ اب مردوں پر منحصر نہ ہوکر ملک و قوم کی تعمیر میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔
اس سماج کی خواتین کے لیے یہ بڑی کامیابی اور خوشی کی بات ہے جہاں پہلے انھیں کوئی مقام حاصل نہ رہا ہو۔ ان کی انفرادیت اور شخصیت کی نفی کی جاتی رہی ہو،اپنے بارے میں فیصلہ کرنے اور مال و جائداد کا مالک بننے کا حق نہ رہا ہو، سماج، معاشرہ اور ملک و قوم کی تعمیر و تشکیل میں اسے ہر رول سے محروم رکھا گیا ہو اور اس کی حیثیت محض ایک ایسے مجبور و بے بس فرد کی رہی ہو جس کو خود اپنی زندگی پر بھی اختیار نہ ہو۔ اس کی مثالیں ہم خود ہندوستانی سماج میں دیکھ سکتے ہیں جہاں مذہبی اعتبار سے اسے ایک فرد کے بجائے ایک ملکیت (پروپرٹی)تصور کیا جاتا رہا اور جہاں اسے اسکی مرضی کے خلاف شوہر کی چتا پر جلادیا جاتا تھا۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ مغربی معاشرہ کی صورتحال بھی اس وقت اسی طرح کی تھی اور شخصی آزادی کی ہوا تکعورت کے لیے حرام تھی۔
گذشتہ صدی کے صنعتی انقلاب نے دنیا پر ’بے شمار احسانات‘ کیے اور ان احسانات کی سب سے زیادہ ’بارش‘ اسی مظلوم نصف انسانیت پر ہوئی۔ اس انقلاب نے عالمی سطح پر اسے شناخت دی، تعلیم و تربیت دی، حسن و آرائش کے نئے انداز دئے اور ’’مردوں کے شانہ بہ شانہ‘‘ لاکر کھڑا کردیا۔ اور پوری دنیا میں ایک نئی تہذیب اور نیا طرز فکر و عمل رواج پانے لگا۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہی تہذیب اور یہی طرز فکروعمل سکہ رائج الوقت بن گیا۔اب جب صدیوں سے عورت کی آزادی کے قائل اور اس کے حقوق کے حقیقی علمبردار اس نئی تہذیب کے تباہ کن اثرات سے باخبر کرتے ہیں تو انھیں دقیانوسی اور فنڈامنٹسلٹ قرار دیا جانے لگا۔
اس تہذیب نے بلاشبہ مرد اور عورت کی بنیاد پر جاری تفریق کو ختم کرکے یکساں مواقع کا درس دیا جو ایک خوش کن بات تھی۔ لیکن اس کا انتہائی تاریک پہلو یہ ہے کہ اس تہذیب کا نعرہ تو مساوات مردوزن رہا مگر اس کے پیچھے جو عامل کارفرما رہا وہ ان کی خیرو فلاح اور ملک و قوم کی تعمیر و تشکیل میں مثبت رول کی ادائیگی کے بجائے اس کا استحصال اور اپنی خواہشات کے تکمیل کے لیے اسے آلۂ کار بنانا تھا۔ چنانچہ اسے ایک فرد معاشرہ کے بجائے جنس بازار بنادیا گیا۔ اور اب وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے استقبالیہ کاؤنٹر پر، بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکوں کی پرسنل سکریٹری کی جگہ، سڑکوں اور بازاروں میں، ٹی وی اور اخبارات و میگزین میں، کیسینو اور شراب خانوں میں غرض ہر اس جگہ نمایاں نظر آئے گی جہاں مادہ پرست لوگ عیش کرنے اور اپنا ’’غم بھلانے‘‘ جاتے ہیں۔
بلاشبہ آج عورت مارگریٹ تھیچر اور اندرا گاندھی بھی ہے، کلپنا چاؤلا، میدھا پاٹیکر، کنڈو لیسارائس، اُرن دھتی رائے اور کرن بیدی کے روپ میں بھی ہے مگر اکثریت کی صورتحال یہ ہے کہ یا تو وہ اخبارات و میگزین کے صفحات اور ٹی وی و فلم اسکرین پر نیم عریاں ہے یا پھر گلی کوچوں میں بھٹک رہی ہے اور شاہراہوں یا زیر تعمیر بلڈنگوں میں اینٹ روڑی اپنے نازک جسم پر لادے پیٹ کی آگ بجھانے میں لگی ہے۔ کہیں وہ جہیز کے نام پر جلادی جارہی ہے تو کہیں اپنوں ہی کے ہاتھوں گھر کی چہار دیواری میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بڑی تعداد میں وہ ہمیں سڑکوں، پارکوں، تفریح گاہوں اورکلبوں میں نیم لباس بھی نظر آتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے پولیس میں چھیڑ چھاڑ اور زنا بالجبر کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے لائن لگانا پڑتی ہے۔
افراط و تفریط کا شکار یہ تہذیب نہ صرف خود ان کے لیے تباہ کن نتائج لے کر آرہی ہے بلکہ نوع انسانی کے لیے بھی تباہی و بربادی کا پیغام دے رہی ہے۔ ٹوٹتے بکھرتے خاندانوں، لاوارث اور محبت کو ترستے بچوں، جرائم کی رفتار میں زبردست اضافوں اور اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ ہوتے معاشروں کی شکل میں ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ مغرب پرستوں کی وہ ذہنیت ہے جو انھیں فرد کے بجائے بازار کی جنس بنانے کے لیے اپنی پوری جدوجہد صرف کررہی ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہورہا ہے اور آج تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی خواتین یا تو اس چیز کو سمجھ نہیں پارہی ہیں یا پھر جان بوجھ کر حقائق سے آنکھیں موندنے کی کوشش میں لگی ہیں۔
آج کی اس صورتحال میں خواتین کی تحریکات کو اور زیادہ فعال، منظم اور سنجیدہ انداز میں اس تہذیب کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے جس نے اس کی شخصی شناخت کو ختم کرکے جنس بازار بنادیا۔ اب اس موضوع پر ہر سطح سے بحث ہونی چاہیے کہ وہ ’’ایک فرد ہے یا کوئی جنس بازار‘‘ جسے خریدا اور بیچا جارہا ہے۔